فیفا ورلڈ کپ 2026 آئندہ چند دنوں میں اہم کوالیفکیشن راؤنڈ میں داخل ہو رہا ہے، جمعرات کو سعودی عرب ریاض میں چین کی میزبانی کرے گا اور آئندہ منگل کو جاپان کے خلاف اہم میچ کے لیے روانہ ہوگا۔
عرب نیوز کے مطابق کوالیفائنگ کے تیسرے مرحلے میں 10 میں سے 6 میچز کے بعد جاپان 9 پوائنٹس کی برتری سے آگے ہے ، بقیہ پانچ ٹیمیں دوسرے خودکار کوالیفکیشن مقام کے لیے سخت مقابلے میں ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سعودی فٹبال ٹیم دوشنبہ میں تاجکستان کا مقابلہ کرے گی
Node ID: 846681
-
-
آسٹریلیا دوسرے نمبر پر ہے جبکہ چین چھٹے نمبر پر اور ان کے درمیان صرف ایک پوائنٹ کے فرق سے انڈونیشیا، سعودی عرب اور بحرین موجود ہیں۔
یہ ایک سنسنی خیز مرحلہ ہے اور سعودی عرب کے لیے چین سے میچ جیتنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
گروپ سی میں گرین فالکنز نے اب تک چھ میں سے صرف ایک میچ جیتا ہے، جس کی وجہ سے کوالیفکیشن کی امیدیں خطرے میں نظر آرہی ہیں۔
سعودی کوچ ہروے رینارڈ کے لیے خوشی کی بات یہ ہے دوسرے نمبر کے دعویدار بھی مشکلات کا شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ آگے بڑھنے کا موقع موجود ہے۔
حسن کادش کے آخری لمحات کے ہیڈر کی بدولت سعودی ٹیم اب تک چین سے واحد میچ میں کامیابی حاصل کر سکی ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔
چین کے خلاف میچ میں سعودی عرب واضح فیورٹ ہے لیکن دباؤ بھی بہت زیادہ ہے، دوسری جانب چین کے لیے ایک پوائنٹ حاصل کرنا بھی بڑی کامیابی ہوگی۔
خاص طور پر اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سعودی عرب نے کادش کے گول کے بعد کسی میچ میں گول نہیں کیا، ممکن ہے ریاض میں گھبراہٹ کا ماحول مہمان ٹیم کو جیتنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

سعودی ٹیم کو میچ کے دوران ملنے والے مواقع کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں فرانسیسی کوچ ہروے رینارڈ نے اکتوبر میں سعودی عرب کی کوچنگ سنبھالی ہے جب سابق کوچ روبرٹو مانچینی کی قیادت میں ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی۔
ہروے رینارڈ کی کوچنگ میں سعودی ٹیم نے پہلا میچ آسٹریلیا کے خلاف 0-0 سے برابر کھیلا لیکن انڈونیشیا کے خلاف 2-0 کی شکست نے ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا۔

جو کھلاڑی کلب سطح پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، انہیں قومی ٹیم میں شامل کرنا اچھا فیصلہ رہا ہے لیکن بین الاقوامی فٹبال میں ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر نئے کھلاڑی کوچ کے اعتماد پر پورا اترے تو یہ سعودی عرب کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب اور آسٹریلیا کے لیے تیسری پوزیشن مایوس کن ہوگی جبکہ بحرین، چین اور انڈونیشیا کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔
