Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ون فائیو پر کال، پولیس اور شہریوں کے لیے ایس او پیز کیا ہیں؟

ترجمان کے مطابق ’شہری کو چاہیے کہ درست اور جامع لوکیشن بتائے تاکہ پولیس کے پہنچنے میں آسانی ہو۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’رات کے گیارہ بج رہے تھے، جب گلی میں لڑائی جھگڑے کا شور بلند ہوا۔ میں کمرے کی کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ آواز سنائی دی ’گولی مار ، مار گولی‘ اور اگلے ہی لمحے یکے بعد دیگرے دو فائر ہوئے۔ مجھے بظاہر یہ محسوس ہوا کہ گولی مارنے والے اپنے ہدف تک پہنچ گئے ہیں لیکن پردے سے جھانک کر دیکھا تو وہ گلی میں نہیں بلکہ سامنے والے خالی پلاٹ میں کسی کو ڈھونڈ رہے تھے جہاں بہت سے مکانات زیرِتعمیر ہیں۔‘
یہ واقعہ اسلام آباد کے ایک نواحی علاقے کے شہری محمد ارشد (فرضی نام) نے سنایا جس کے ردعمل میں انھوں نے ون فائیو پر کال کی اور اس نیکی کے بدلے میں انھیں شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس خبر میں شہری کی سلامتی اور پرائیویسی کے باعث ہم علاقے اور ان کا نام درج نہیں کر رہے۔
محمد ارشد نے بتایا کہ ’میں نے سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا کہ گھر میں سے کوئی بھی بڑا یا بچہ کسی بھی کھڑکی کے سامنے کھڑا نہ ہو اور کوئی بھی بتی نہ جلائے۔ بعد میں جھانک کر دیکھا تو بندوق اور ڈنڈا بردار لوگ موبائل فونوں کی سرچ لائٹس کی روشنی میں ان زیر تعمیر مکانات کا کونہ کونہ چھان رہے تھے تو مجھے لگا کہ کسی کی جان خطرے میں ہے۔‘
’میرے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ بندہ مارا گیا، بے شک وہ کوئی چور ہو یا ملزم ہی کیوں نہ ہوا تو مجھے ساری زندگی اس بات کا افسوس رہے گا کہ میں اس کی جان بچا سکتا تھا لیکن نہیں بچائی۔ اس صورتِ حال کو دیکھے ہوئے باہر جانا یا شور مچانا بھی کسی طور پر عقل مندی نہیں تھی۔ میں نے سوچ بچار کے بعد ون فائیو پر کال کی اور پولیس کو اس پوری صورتِ حال اور جائے وقوعہ کے بارے میں آگاہ کر دیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میری کال کے پانچ منٹ بعد متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کی کال موصول ہوئی اور انھوں نے بھی مجھ سے تفصیلات حاصل کیں اور کہا کہ وہ ٹیم روانہ کر رہے ہیں جو آپ سے رابطہ کرے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے کمرے کی لوکیشن ایسی ہے کہ میں کال نہیں سن سکتا اس لیے بہتر ہے کہ مجھے کال نہ کی جائے کیوں کہ ممکن ہے کہ مبینہ ملزموں کی نظر مجھ پر پڑ جائے۔ ایس ایچ او نے یقین دہانی کروائی کہ صرف ایک کال آئے گی جس کے بعد آپ کا کام ختم ہو جائے گا اور پولیس خود صورتِ حال کو سنبھال لے گی۔‘

پولیس کے مطابق زیادہ سے زیادہ اپروچ ٹائم سٹی ایریا میں 5 سے 7 منٹ جبکہ رورل ایریا میں 10 سے 15 منٹ ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

محمد ارشد کا کہنا ہے کہ ’ایس ایچ او کی کال کے دو منٹ بعد ایک اور پولیس اہلکار کی کال آئی جس نے پوچھنے پر بھی اپنا نام نہیں بتایا۔ اس نے لوکیش سمجھی اور فون بند کر دیا۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر کال کی اور کہا کہ وہ فلاں جگہ پر ہے جس پر اسے تفصیل سے لوکیشن سمجھائی اور مجھے دوبارہ کال نہ کرنے کے لیے تاکید کی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے باوجود متعلقہ اہلکار نے اس کے بعد بھی پانچ بار کال کی اور انھوں نے ہر بار اپنی لوکیشن جائے وقوعہ سے چند گز دور بتائی اور سمجھانے کے باوجود جائے وقوعہ تک نہیں پہنچ سکے جب کہ اس دوران پانچ سے سات ملزم اپنے کام میں مصروف رہے۔‘
محمد ارشد کے مطابق پولیس اہلکار نے مجھے اس وقت حیران کر دیا کہ جب اس نے کہا کہ ہم فلاں سڑک پر فلاں جگہ پر موجود ہیں اور آپ آئیں اور ہمیں جائے وقوعہ پر لے جائیں جس پر میں نے انھیں کہا کہ آپ پاگل ہیں یا مجھے پاگل سمجھتے ہیں؟ پولیس اہلکار کا جواب تھا کہ ہم پاگل ہیں کہ آپ فائرنگ کی اطلاع دیں گے اور ہم سیدھا وہاں پہنچ جائیں گے؟‘
محمد ارشد کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد میں نے ایس ایچ او کو کال کی اور اسے سارا واقعہ بتایا اور پولیس اہلکار کی جانب سے کی گئی کالز کا سکرین شاٹ بھی بھیجا۔ انھوں نے متعلقہ اہلکار سے بات کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ مجھے رات کے اس پہر پولیس اہلکار کی جانب سے تنگ کیے جانے پر معذرت خواہ ہیں۔‘
یہ صورتِ حال دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار جو واقعہ کی اطلاع دینے والے شہری سے رابطہ کر رہا تھا یا تو وہ ون فائیو پر کال کرنے والے شخص کو صیغہ راز میں رکھنے اور اس سے متعلقہ دیگر ضوابط سے آگاہ ہی نہیں تھا یا پھر وہ جائے وقوعہ پر جانے سے کترا رہا تھا کیوں کہ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس ون فائیو پر کی جانے والی کال کے بعد ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے کال کرنے والے شہریوں کو ذہنی کوفت کا نشانہ بناتی ہے۔
اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی ایک شہری رشیدہ نے بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل جب ان کے ساتھ پرس چھیننے کا واقعہ پیش آیا تو پولیس پورا ایک گھنٹہ انتظار کروانے کے بعد آئی اور کہا کہ آپ گلی میں موجود گھروں سے سی سی ٹی وی کیمروں تک رسائی دلوا دیں جس پر میں نے اُن سے کہا کہ یہ آپ کا کام ہے تو وہ رسمی کاغذی کارروائی کرنے کے بعد روانہ ہوگئے اور اس پورے معاملے پر آج تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔‘

بعض شہریوں کے مطابق ون فائیو پر رابطہ کرنے کے باجود ان کی مدد نہیں کی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح اسلام آباد کے اتوار بازار میں کالج کے طالب علم محمد علی کی گاڑی چوری کرتے ہوئے ایک نوجوان کو محمد علی اور اس کے دوستوں نے پکڑ لیا۔ ون فائیو پر کال کی اور پولیس انھیں کالز ہی کرتی رہی اور ہر بار یہی کہا کہ وہ پہنچ رہے ہیں لیکن وہ ڈیڑھ گھنٹے بعد تب پہنچے جب وہ چوری کرنے والے نوجوان کو معاف کرکے اپنے گھر واپس آ چکے تھے۔
اسلام آباد پولیس سے جب اس سلسلے میں پوچھا گیا کہ ون فائیو پر کال موصول ہونے کے بعد کیا ایس او پیز ہیں اور ایسے میں شہری اور پولیس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں تو ایک نصابی سا جواب موصول ہوا جیسے کسی مثالی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہو۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق ’جیسے ہی کسی شہری کی 15 پر کال موصول ہوتی ہے تو اس کی کال کی نوعیت کے مطابق پولیس، ریسکیو 1122، فائر بریگیڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کو فی الفور جائے وقوعہ پر بھیجا جاتا ہے۔ پولیس کا زیادہ سے زیادہ اپروچ ٹائم سٹی ایریا میں 5 سے 7 منٹ جبکہ رورل ایریا میں 10 سے 15 منٹ ہوتا ہے۔‘
فرسٹ ریسپانڈر جائے وقوعہ کے حالات و واقعات سے متعلق بذریعہ وائرلیس اطلاع دے گا اور جائے وقوعہ کی مناسبت سے اسے مدد فراہم کی جائے گی۔ پولیس افسر جائے وقوعہ کا تفصیلی جائزہ لے گا اور کرائم سین کو محفوظ کر کے شواہد جمع کرے گا، ٹریفک کی روانی کو بحال کرے گا اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچائے گا الغرض یہ کہ ہر طرح سے شہری کو سہولیات فراہم کرے گا۔
انھوں نے کہا  کہ’شہری اگر کسی بھی قسم کا جرم ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی حفاظت یقینی بنائے جس کے بعد فی الفور 15 پر کال کرے۔ ممکن ہو تو جائے وقوعہ کو کارڈن کرے، یا کم از کم کسی کو بھی متاثرہ شخص (جو اس جرم کا براہ راست وکٹم ہے) کے قریب نہ آنے دے تاکہ پولیس کو ثبوت جمع کرنے میں آسانی ہو۔‘
ترجمان کے مطابق ’شہری کو چاہیے کہ درست اور جامع لوکیشن بتائے تاکہ پولیس کے پہنچنے میں آسانی ہو اور پولیس کو پوری صورتِ حال من و عن بیان کرے۔ اُس کے پاس اگر ویڈیو یا تصویری شکل میں کوئی ثبوت ہو تو پولیس کو مہیا کرے۔ علاوہ ازیں، ملزموں کا حلیہ، لب و لہجہ اور سواری کے متعلق بتائے اور ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں پولیس کے ساتھ تعاون کرے۔‘

شیئر: