Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی ٹیرف: پاکستان میں ’10 لاکھ کے آئی فون‘ کی حقیقت کیا؟

ٹرمپ کے ٹیرف کے بعد ایپل کو مشکل فیصلے لینے پڑ سکتے ہیں جو رواں سال ستمبر تک واضح ہوں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر کے ممالک پر ٹیرفس عائد کیے جانے کے بعد خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایپل کے آئی فون کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو سکتی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹیرف کے اطلاق کے بعد امریکہ میں آئی فون کی قیمتوں میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ 
زیادہ تر آئی فون اب بھی چین میں بنائے جاتے ہیں، جہاں 54 فیصد ٹیرف لگا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ لیویز برقرار رہتی ہیں تو ایپل کے پاس دو صورتیں ہو سکتی ہیں، اضافی اخراجات کو برداشت کیا جائے یا انہیں صارفین تک منتقل کیا جائے۔
ایپل ایک سال میں 220 ملین سے زیادہ آئی فون فروخت کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مارکیٹس میں امریکہ، چین اور یورپ شامل ہیں۔
روزنبلاٹ سکیورٹیز کے تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ٹیرفس سے بڑھنے والے اخراجات کا بوجھ ایپل اپنے صارفین تک منتقل کرے تو 799 ڈالر کا آئی فون 16 1142 ڈالر اور 1599 ڈالر کا آئی فون 16 پرو میکس ون ٹیرا بائٹ 2300 ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
ٹرمپ نے بطور صدر اپنی پہلی مدت میں بھی چینی درآمدات کی وسیع رینج پر ٹیرف عائد کیے تھے تاکہ امریکی کمپنیوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ مینوفیکچرنگ کو امریکہ یا میکسیکو جیسے قریبی ممالک میں واپس لائیں، لیکن ایپل نے متعدد مصنوعات کے لیے استثنیٰ حاصل کر لیا تھا۔ مگر اس بار ابھی تک ایپل کو کوئی چھوٹ نہیں دی گئی ہے۔ 

2019 میں ایپل کو متعدد مصنوعات پر ٹیرف سے استثنیٰ حاصل ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سی ایف آر اے ریسرچ کے ایکویٹی تجزیہ کار اینجلو زینو نے کہا ہے کہ کمپنی کو صارفین پر لاگت کا 5% سے 10% سے زیادہ بوجھ ڈالنے پر مشکل ہوگی۔ 
’ہم توقع کر رہے ہیں کہ ایپل ستمبر میں نئے آئی فون 17 کے لانچ تک اپنے فونز کی قیمتوں میں اضافے کو روکے گا۔‘
واضح رہے کے آئی فون کی کچھ پروڈکشن ویتنام اور انڈیا میں منتقل ہونے کے باوجود، زیادہ تر آئی فونز اب بھی چین میں بنائے جاتے ہیں، اور ان ممالک کو بھی ٹیرفس کا سامنا ہے، ویتنام پر 46 فصد لیوی اور انڈیا پر 26فیصد کا اطلاق کیا گیا ہے۔
کاؤنٹرپوائنٹ ریسرچ کے شریک بانی نیل شاہ کے مطابق، ایپل کو درآمدی محصولات کو پورا کرنے کے لیے اپنی قیمتوں میں اوسطاً 30 فیصد اضافہ کرنا پڑے گا۔
ممکنہ طور پر قیمتوں میں اضافہ سمارٹ فون کی مانگ کو کم کر سکتا ہے اور جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی کوریا کو چین کے مقابلے میں کم ٹیرف کا سامنا ہے، جہاں امریکہ میں فروخت ہونے والے تمام آئی فون بنائے جاتے ہیں۔

ایپل دوسرے ممالک سے آئی فونز کے جہاز بھر کر امریکہ کیوں لے گیا؟

روئٹرز کے مطابق ایپل نے انہیں اس صورتحال پر کسی بھی قسم کا جواب دینے سے گریز کیا ہے۔
دوسری جانب ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایپل کا فی الحال قیمتیں بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 
ٹائمز آف انڈیا کے پنکج ڈووال نے ذرائع سے اطلاعات فراہم کی ہیں کہ ایپل نے اس صورتحال کر بھانپتے ہوئے پہلے ہی چائنہ اور انڈیا سے اپنے آئی فونز کی بڑی تعداد میں کھیپ امریکہ منگوا لی ہے جو انہیں اگلے چند ماہ بغیر کسی دقت کے گزارنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ 
انڈین ذرائع کے مطابق ایپل نے تین دنوں میں آئی فونز سے بھرے پانچ ہوائی جہاز چائنہ اور انڈیا سے امریکہ منگوائے ہیں۔ 
ایپل آئی فون 15 اور 16 کی تمام سیریز انڈیا اور چائنہ میں بنا رہا ہے۔ 9 اپریل سے ٹرمپ کے ٹیرف کا اطلاق ہونا ہے جس سے قبل ایپل نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ 
ایپل کے پاس جب تک یہ سٹاک موجود ہے وہ ٹیرف کے اثرات قیمتوں تک منتقل ہونے سے روک سکتا ہے۔ اگر یہ سٹاک ستمبر تک چل جاتا ہے تو صارفین کو آئی فون 17 کے لانچ تک قیمتوں میں ممکنہ اضافہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ 

ایپل کیا حل نکال سکتا ہے؟

چائنہ اور دنیا بھر کے ساتھ ’تجارتی جنگ‘ کا حصہ نہ بننے کے لیے عین ممکن ہے کہ ایپل براہ راست وائٹ ہاؤس سے استثنیٰ کی بات چیت کرے۔ 
ایک اور حل یہ ہوسکتا ہے کہ ایپل اپنی پروڈکشن چائنہ سے کسی اور ملک منتقل کر دے۔ کچھ آئی فونز ابھی بھی انڈیا میں بنائے جا رہے ہیں مگر ٹاپ اینڈ ماڈلز کی پروڈکشن بھی انڈیا منتقل کرنے میں طویل وقت اور سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ 
نائن ٹو فائیو میک کے مطابق ایپل اپنی پروڈکشن برازیل منتقل کر سکتا ہے جہاں ٹیرف صرف 10 فیصد ہے۔ 
دوسری جانب حال ہی میں ٹرمپ کی جانب سے ویتنام پر 46 فیصد ٹیرف کے جواب میں ویتنام نے امریکی ٹیرف صفر کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ 
اگر دونوں ممالک میں اس معاملے پر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ایپل کے لیے ایک اور اچھی خبر ثابت ہو سکتی ہے۔ 

ایپل آئی فون بناتا کیسے ہے؟

اگرچہ ایپل کا ہیڈ کوارٹر کپرٹینو کیلیفورنیا میں ہے، آئی فون عالمی سپلائی چین کی پیداوار ہے۔ یہ امریکہ میں ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن اس کے  سپیئر پارٹس پوری دنیا سے آتے ہیں۔
آئی فون کا ڈیزائن اور سافٹ ویئر امریکہ میں تیار کیا جاتا ہے۔  چپ سیٹ تیار تو ایپل کرتا ہے لیکن تائیوان کی TSMC کمپنی اسے بناتی ہے۔
آئی فون کا ڈسپلے  سام سنگ (جنوبی کوریا)، LG (جنوبی کوریا)، اور BOE (چین) کے ذریعے فراہم ہوتا ہے۔ کیمرے کے لینز زیادہ تر سونی (جاپان) سے تیار ہو کر آتے ہیں۔ بیٹریاں ایمپریکس ٹیکنالوجی (چین) اور سن ووڈا (چین) کے ذریعے فراہم کردہ ہوتی ہیں۔ میموری - SK Hynix (جنوبی کوریا) اور مائکرون (USA) مہیا کرتے ہیں۔
ایک بار جب تمام پارٹس تیار ہو جاتے ہیں تو انہیں بنیادی طور پر چین کے شہر ژینگزو میں واقع Foxconn کی فیکٹری میں بھیج دیا جاتا ہے جسے "iPhone City" بھی کہا جاتا ہے۔

واضح رہے، چین سے تنازعات کے بات ایپل اپنے آئی فون کی پیداوار انڈیا، برازیل اور ویتنام جیسے ممالک کی طرف منتقل کر رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بلومبرگ کے مطابق Foxconn، ایپل کا سب سے بڑا مینوفیکچرنگ پارٹنر رہا ہے جو آئی فونز کو اسمبل کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو ملازمت دیتا ہے۔ کچھ اسمبلیاں انڈیا (Wistron اور Pegatron کے ذریعے) اور ویتنام میں بھی ہوتی ہیں، لیکن 90 فیصد سے زیادہ آئی فونز اب بھی چین میں اسمبل کیے جاتے ہیں۔
آئی فون اسیمبل ہونے کے بعد دنیا بھر میں بھیجے جاتے ہیں جہاں ایپل انہیں مختلف ذرائعے سے فروخت کرتا ہے۔ ان ذرائع میں 500 سے زائد ایپل سٹورز، آن لائن ایپل سٹور، موبائل کریئرز، بیسٹ بائے، ایمازون والمارٹ جیسے ریٹیلرز اور پاکستان میں مرسینٹائل اور جی نیکسٹ جیسے ڈسٹری بیوٹرز شامل ہیں۔

ایک آئی فون بنانے پر کتنا خرچ آتا ہے اور ٹیرف کے بعد یہ کتنا بڑھے گا؟

کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے مطابق ایک آئی فون کو بنانے میں اوسط 400 سے 500 ڈالر کا خرچ آتا ہے جسے بعد میں 800 سے 1200 ڈالر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایپل کو ہر آئی فون پر 38 سے 45 فیصد کا پرافٹ ہوتا ہے۔
وال سٹریٹ جرنل نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں  iFixit اور TechInsights کے اعداد و شمار شیئر کیے ہیں جن میں آئی فون کے ہر سپیئر پارٹ کی قیمت واضح کی گئی ہے۔ 
آئی فون 16 پرو کے سپیئر پارٹس کا کُل خرچ 549.73 ڈالر ہوتا ہے، پوری اسمبلی اور ٹیسٹنگ کے ساتھ یہ لاگت 580 ڈالر تک ہو جاتی ہے۔ 
سب سے مہنگے پارٹس میں فون کے پچھلے حصے میں موجود کیمرے ہیں جس کی لاگت 126.95 ڈالر ہے، فون کا پراسیسر یعنی A18 پرو چپ سیٹ 90.85 ڈالر کا ہے اور ڈسپلے 37.97 ڈالر کی ہے جبکہ 256 جی بی سٹوریج کی قیمت 20.59 ڈالر ہے۔

آئی فون کے سپیئر پارٹس پر ٹیرف کا اطلاق کیا جائے تو اس کی لاگت میں 300 ڈالر تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ (فوٹو: وال سٹریٹ جرنل)

آئی فون کی بیٹری کی لاگت 4.10 ڈالر، 5G موڈیم 26.62 ڈالر، میموری 21.80 ڈالر، فون کی مرکزی باڈی 20.79 ڈالر اور باقی پارٹس 200.06 ڈالر کی لاگت پر تیار ہوتے ہیں۔ 
ریٹیل میں ایپل 256GB آئی فون 16 پرو 1100 ڈالر میں فروخت کرتا ہے۔ تاہم، ٹیرف کا اطلاق فون کی قیمت پر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے پارٹس کی قیمت پر ہوتا ہے۔ ٹیرفس کے حساب سے ایک آئی فون پر آنے والی لاگت 549.73 ڈالر سے بڑھ کر 846.59 ڈالر تک بڑھ جائے گی، جو کہ 300 ڈالر تک کا کا اضافہ ہے۔

کیا ٹیرفس کے بعد پاکستان میں آئی فون کی قیمتوں پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے؟

ٹیرفس کے بعد آئی فون کی قیمتوں پر قیاس تو کیا ہی جا رہا ہے، وہیں پاکستانی صارفین بھی یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ کیا پاکستان میں اس کا اثر پڑ سکتا ہے؟ مثال کے طور پر امریکہ میں آئی فون کی قیمت دوگنا ہوتی ہے تو کیا پاکستان میں بھی آئی فون 10 لاکھ روپے تک پہنچ جائے گا؟
یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ یہ امپورٹ ٹیرفس ہیں، پاکستان امریکہ سے براہ راست آئی فونز درآمد یا امپورٹ نہیں کرتا۔ 
پاکستان میں آئی فونز عام طور پر متحدہ عرب امارات، ہانگ کانگ، سنگاپور، ایپل سے منظور شدہ پارنٹرز (مرسینٹائل، جی نیکسٹ) کے ذریعے لائے جاتے ہیں۔ 
تکنیکی طور پر ٹیرف کا اطلاق چین سے امریکہ درآمد شدہ آئی فونز پر ہوگا۔ 

تو کیا پاکستان میں آئی فون کی قیمتیں برقرار رہیں گی؟ 

اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں پہلے ہی سمارٹ فونز کی درآمد پر جنرل سیلز ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس، موبائل لیوی اور کسٹمس ڈیوٹی شامل ہوتی ہے اور اس کے بعد ڈالر ریٹ پر بھی قیمتوں کو انحصار ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ایپل اپنی قیمتوں کی حکمت عملی کو کسی مقامی ریٹیلر کی طرح تشکیل نہیں دیتا۔
اگرچہ پاکستان کو غیر امریکی چینلز کے ذریعے آئی فون ملتے ہیں، ایپل پھر بھی کئی وجوہات کی بنا پر عالمی قیمتوں کو ایڈجسٹ کر سکتا ہے۔
اگر ایپل کے منافع کا مارجن ٹیرف کی وجہ سے امریکہ میں کم ہوا تو ممکن ہے کہ اس کی بحالی کے لیے کمپنی اپنی تمام مارکیٹوں میں قیمت میں اضافہ کرے۔
یہاں تک کہ عالمی سطح پر فی آئی فون 20 سے 30 ڈالر کے اضافے سے بھی امریکہ میں ہوئے نقصان کا اذالہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر ایپل اپنی فیکٹری کی قیمت یا ہول سیل ریٹ بڑھاتا ہے، تو پاکستان میں آئی فون سپلائی کرنے والی کمپنیاں بھی قیمتیں بڑھا سکتی ہیں۔
بعض اوقات ایپل کے ڈسٹری بیوٹرز عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے جواز کے طور پر ٹیرف میں اضافے کا استعمال کرتے ہیں، چاہے حقیقی قیمتیں زیادہ تبدیل نہ ہوں۔
یہاں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ٹیرف کے باعث امریکہ میں ملنے والے آئی فون کی قیمت پاکستان میں ملنے والے آئی فون سے دوگنی ہو۔
اب تک کی صورتحال سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ ایپل کے پاس اپنے سٹورز میں ستمبر تک کا وافر سٹاک موجود ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹیرف کا اطلاق ہونے کے بعد دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ کے کیا مذاکرات ہوتے ہیں اور ستمبر میں آئی فون 17 کے لانچ پر ایپل کیا حکمت عملی اپناتا ہے۔ 

 

شیئر: