سعودی عرب نے امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاملے پر مذاکرات کی میزبانی پر عمان کا خیرمقدم کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مملکت خطے اور بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کو ترجیح دیتی ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کا کہنا ہے کہ وزارت خارجہ کے بیان میں یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ ’مذاکرات ایک ایسے مشترکہ اقدام کی طرف بڑھنے میں مدد دیں گے، جو خطے اور دنیا میں سلامتی، استحکام اور امن کو بڑھائیں گے۔‘
مزید پڑھیں
12 اپریل کو امریکہ اور ایران کے مذاکرات کاروں نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں پہلی ملاقات کی تھی اور دیرینہ مخالفین 2015 میں ہونے والے معاہدے کی ناکامی کے بعد ایک نئے جوہری معاہدے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
2015 میں ہونے والا جوہری معاہدہ یا جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) ایک طویل مدتی ڈیل تھی، جس میں ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ اتفاق کا اظہار کیا تھا جن کو پی فائیو پلس ون بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی شامل ہے۔
اس معاہدے کے مطابق ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنی تھیں اور غیرملکی انسپیکرٹرز کو اپنی نیوکلیئر سائٹس کے دورے کی اجازت دینا تھی۔
اس کے جواب میں ایران پر عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی جانب سے پابندیوں کو ہٹایا جانا تھا۔
اپنے پہلے دور صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے باہر کر دیا تھا کیونکہ خطے کے بعض ممالک کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ معاہدہ ایرانی جوہری پروگرام کو روکنے میں ناکام ہے بلکہ اس سے ایران کو پڑوسیوں کے معاملات میں مداخلت کے لیے مدد مل رہی ہے۔

اب دوسری بار صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی قیادت کو پیشکش کی ہے کہ فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے مذاکرت کی میز پر بیٹھا جائے۔
سنیچر کو مسقط میں ہونے والی ابتدائی ملاقات میں عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے بطور ثالث شرکت کی اور ایران اور امریکہ حکام کو تفویض کیے گئے کمروں کے درمیان چکر لگاتے رہے۔
بدر البوسیدی نے بعدازاں صحافیوں کو بتایا کہ ’مذاکرات دوستانہ ماحول میں ہوئے اور آگے بھی مل کر کام کریں گے۔‘
ایران کی وزارت خاجہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات کاروں نے چند منٹوں کے لیے براہ راست گفتگو بھی کی۔
بیان کے مطابق ’مذاکرات باہمی احترام اور تعمیری انداز میں ہوئے۔‘
امریکی ٹیم کی سربراہی ٹرمپ کے خصوصی سفیر سٹیو وٹکوف جبکہ ایرانی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی، جنہوں نے 2015 کے معاہدے میں بھی کلیدی کردار انجام دیا تھا۔
پہلی ملاقات کے آغاز سے تھوڑی دیر قبل صدر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ ایران ایک شاندار، عظیم اور خوشگوار ملک بنے لیکن وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔‘
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر علی شمخانی کا کہنا ہے کہ ’ایران ایک حقیقی اور منصفانہ معاہدے کا خواہاں ہے۔‘
فریقین کی جانب سے ایک بار پھر ملاقات پر اتفاق کیا گیا ہے۔