دین ا سلام نے عید کو ایک خوشی کا موقع قرار دیا ہے کیونکہ ایک ماہ کے قیام و صیام کے بعد عید پر خوش ہونا، روزہ داروں کا حق بھی ہے
* * * از مہتاب قدر۔جدہ* * * *
عیدالفطر ہر سال کی طرح امسال بھی آئی ہے۔ برسہا برس سے ہم ایک دوسرے کو عیدمبارک کے پیام دیتے آئے ہیں اور جب تک زندہ ہیں ، ان شاء اللہ، یہ پیغامات دیتے رہیں گے۔ایک دوسرے کو عید کے تہنیتی پیغامات کا لینا دینا ہمارے سماجی ڈھانچے کی ایک پرانی روایت ہے ۔ دین ا سلام نے عید کو ایک خوشی کا موقع قرار دیا ہے کیونکہ ایک ماہ کے قیام و صیام کے بعد عید پر خوش ہونا، روزہ داروں کا حق بھی ہے اس لئے آج آپ کے نام عید کا تہنیتی پیام تمام عالم کے مسلمانوں کی جانب سے جن میں ہر طبقے کے کلمہ گو شامل ہیں، آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ میرا یہ پیغام ابروئے یار کے نام بھی ہے،گیسوئے خمدار کے نام بھی ،چشم نیلی فام کے نام بھی ہے ، عارض گلفام کے نام بھی ، عاشق ِ ناکام کے نام بھی،واقعاتی شاعروں کے نام بھی، حادثاتی ادیبوں کے نام بھی ۔
ہاں آپ سب کی خدمت میں جن میں بزم کے اہل ِ علم و دانش شامل ہیں اور وہ بھی جو اپنے آپ کو دانشور سمجھتے ہیں یا حکمت و دانش کی باتوں میں اپنی ٹانگ اڑاتے رہنا اپنے علم کے اظہار کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔پختہ کار شعرا ء بھی اور نوآموز مشق سخن کرنے والے بھی میرے مخاطب ہیں اور وہ بھی جو افسانے اور کہانیاں لکھ لکھ کر اردو ادب کے قلمکار قافلے میں اپنے وجود کا احساس قائم رکھتے ہیں۔
سوشیل میڈیا، فیس بک ،لنکڈن ، سرکلز، نٹلاگ اور ٹویٹر کے وہ تمام اراکین جن سے میری گاہے گاہے کسی نہ کسی صورت ملاقات ہوتی رہتی ہے یا و ہ رابطے میں رہتے ہیں۔ان میں واقعی موجود اورزندہ کردار بھی شامل ہیں اور فیک یا جعلی شناخت بنا کر اپنے اندر کی گندگیاں دوسروں پر ڈالنے والے کرم فرمابھی میرے پیام تہنیت کے مخاطب ہیں۔گوگل گروپس ، یاہو کمیونٹیز اور دیگر انجمنوں اور ویب سائٹس کے کرتادھرتا احباب تک بھی میں اپنا پیام تہنیت پہنچانا چاہتا ہوںکیونکہ یہ پیام میرااپنا نہیں،یہ پیام تہنیت انکی جانب سے ہے جو مفلسی، مفلوک الحالی اور غربت کے سبب عید کی خوشیوں میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔ان کے پاس نئے کپڑے نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پہنا سکیں۔یہ پیام عید ان مظلوم لڑکیوں کی سسکتی آہ وبکا کی جانب سے بھی ہے جن کے سسرال والے انہیں عید کے موقع پر اپنے ماں باپ تک سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے ۔
جن سے جہیزاورجوڑے کی رقم کے طنزوطعن جینے کے بہانے بھی چھین لیتے ہیں۔ان بوڑھے ماں باپ کی طرف سے بھی آپ تک یہ پیغام عیدپہنچانا ہے جن کے پاس اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے سرمایہ نہیں۔ وہ منتظر ہیں کہ کوئی بیمار ذہن، اہل ثروت آئے اورجھوٹے وعدوں کے ذریعے انکی معصوم بیٹی کوبیاہ کر انکے جینے کا سامان کرجائے۔ یہ عید مبارک انکی جانب سے بھی ہے جن کے بے قصور بچے کسی بھی سبب سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے عید کے پرانے تصورات سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے ماں باپ کی دعائوں اور اپنے گھر جانے کا انتظار کررہے ہیں۔یہ پیام تہنیت آئے دن کے دھماکوںمیں مرنے والوں کی طرف سے نہیں کیونکہ وہ تو چلے گئے اس عالم ِ نفاق و منافرت سے ۔
انہیں تو رب کریم ہی بدلہ عطا فرمائے گا ، وہ خالقِ کائنات جو کسی کا حق نہیں دباتا بلکہ ہرایک کو اس کے کئے کی پوری پوری جزا دیتا ہے اورجس نے ظالم و مظلوم کے بیچ فیصلہ کرنے کا اعلان اس طرح فرما رکھا ہے کہ اگرکسی سینگ والی بکری نے دنیا کسی بے سینگ والی بکری کو سینگ مارا ہوگا تو اُس خالق و مالک کے حضور بے سینگ والی بکری کو سینگ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ ظلم کرنے والی بکری سے اپناحساب چکا لے۔ یہ پیام ِ عیدآپ کے نام ان زخم خوردہ لوگوں کی جانب سے ہے جوبم دھماکوںسے متاثرہ اپنے بریدہ جسموں کے سبب اسپتالوں میں پڑے ہیں جن کے گھر میں عید منانے کے لئے کچھ نہیں اور وہ اپنی جسمانی اذیتوں کے ساتھ ذہنی تکلیف میں بھی مبتلا کردیئے گئے ہیں کہ صحتیاب ہوں تو کچھ کما سکیں۔ پیام عید ان بیبیوں کی جانب سے بھی ہے جن کے شریک حیات پیسہ کمانے کی دھن میں انہیں وطن میں چھوڑ آئے ہیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی عید کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتیں ،نہ رسم دنیا نبھا سکتی ہیں، نہ کسی ازدواجی دستور سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ آپ سب گواہ رہنا کہ میں نے آپ تک ان تمام مظلوں کا پیام عید پہنچادیا ہے اگر فرصت ملے تو اپنی عید کے لمحات میں نہ سہی عید کے بعد ہی ان مسائل اور ان مجبوریوں اور مجبوروں کیلئے بساط بھر کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیجئے۔ نیت تو کرلیجئے کیونکہ رب کریم تو نیتوں کے ساتھ اجر لکھوانا شروع کردیتاہے اور اگرہم کچھ کر سکے تو یوں سمجھئے کہ سونے پہ سہاگہ۔