جنوبی افریقہ میں سیریز ختم ہو چکی۔ پاکستان نے ون ڈے، ٹی20 اور ٹیسٹ سیریز کھیل لی۔ ون ڈے سیریز میں پاکستان نے وائٹ واش کیا تو ٹیسٹ سیریز میں جنوبی افریقہ نے وائٹ واش کر ڈالا، جبکہ ٹی20 سیریز میں بھی پاکستان کو شکست ہوئی۔
چند دنوں بعد پاکستان کی ویسٹ انڈیز سے ٹیسٹ سیریز شروع ہوجائے گی، اس کے بعد ٹرائی اینگولر ٹورنامنٹ ہو گا اور پھر اگلے ماہ سے ون ڈے چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ شروع ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم نے جنوبی افریقہ میں کیا سیکھا اور کیا ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش ہونا شدید مایوس کن امر ہے؟
مزید پڑھیں
-
اگر آپ آسٹریلین کرکٹ کوچ ہوتے تو کیا کرتے؟Node ID: 881747
-
پاکستانی ٹیم میں نیا جگمگاتا رنگ کیسے آیا؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 883243
سب سے پہلی بات جو ہمارے ہاں اب اکثر لوگوں کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ کرکٹ کے تینوں فارمیٹ نہ صرف الگ ہیں بلکہ ان کی کرکٹ اور ڈائنامکس بھی مختلف ہی ہیں۔ ضروری نہیں کہ کوئی ٹیم ون ڈے میں اچھا کھیلے، تو وہ ٹیسٹ میں بھی ویسا ہی پرفارم کرے۔ اسی طرح ٹی20 میں کامیاب نہ ہونے والے ون ڈے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور ون ڈے کے ٹاپ پرفارمر ٹی20 میں زیرو ہو سکتے ہیں۔
اس دورے میں کئی چیزیں اچھی ہوئی ہیں۔ صائم ایوب کی صورت میں ایک اچھا سٹار پلیئر سامنے آیا ہے۔ صائم نے ثابت کیا کہ وہ ٹی20، ون ڈے اور ٹیسٹ تینوں فارمیٹ میں بہت اچھے بلے باز ہیں۔ بدقسمتی سے کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں وہ انجرڈ ہو گئے، ورنہ ممکن ہے میچ کا نتیجہ قدرے مختلف ہوتا۔ صائم ایوب کا آنا اس لیے اہم ہے کہ بنیادی طور پر یہ ڈومیسٹک کرکٹ سے اوپر آئے ہیں۔ اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ سے مزید اچھے بلے باز بھی آگے آ سکتے ہیں۔
بابر اعظم خاصے عرصے سے آوٹ آف فارم تھے، ان سے ٹیسٹ میچز میں تو بالکل ہی رنز نہیں ہو رہے۔ پچھلے دو برسوں سے وہ کوئی سینچری نہیں بنا پائے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف بھی سینچری تو نہیں بنی، مگر بابر نے مسلسل تین نصف سینچریاں ضرور بنا ڈالیں اور کیپ ٹاؤن ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں اچھی نصف سینچریاں بنائیں، دوسری اننگز میں سینچری بنانے کے قریب تھے کہ معمولی غلطی مہنگی پڑ گئی۔
شان مسعود جو کہ ٹیسٹ کپتان ہیں، وہ بھی خاصے عرصے سے رنز نہیں کر رہے تھے، کیپ ٹاؤن میں شان نے 145 رنز کی بڑی اننگز کھیل کر اعتماد حاصل کر لیا، امید ہے کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف وہ اچھا پرفارم کریں گے۔
کامران غلام طویل عرصہ سٹرگل کرتے رہے، ڈومیسٹک میں مسلسل رنز کرنے کے باوجود انہیں مواقع نہیں لے تھے، انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے موقعہ ملا تو انہوں نے سینچری جڑ دی۔ آسٹریلیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں بھی وائٹ بال کرکٹ میں کامران کی کارکردگی بری نہیں رہی۔ زمبابوے کے خلاف سینچری بنائی، جنوبی افریقہ کے خلاف ایک ون ڈے میں بڑی دھواں دھار بیٹنگ کر کے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ البتہ ٹیسٹ میچز میں کامران غلام کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی۔ انہوں نے عجلت میں وکٹیں گنوائیں اور بعض مواقع پر وہ سوئنگ بولنگ کے ہاتھوں پریشان بھی لگے۔ کامران غلام کو اگر ٹیسٹ پلیئر رہنا ہے تو انہیں محنت کرنا ہو گی اور اپنے ٹمپرامنٹ پر بھی قابو پانا ہو گا۔

سعود شکیل نے پہلے ٹیسٹ میں شاندار اننگز کھیل کر جنوبی افریقی ماہرین کو بھی حیران کر دیا۔ ایک مشکل وکٹ پر وہ بہت اچھا کھیلے، کیپ ٹاؤن میں البتہ سعود شکیل بدقسمت رہے۔
سلمان آغا ایک مفید ٹیسٹ اور ون ڈے آل راؤنڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ عامر جمال نے البتہ اپنی بولنگ سے مایوس کیا۔ انہیں ٹیسٹ میچ میں بطور آل راؤنڈر تو کھلایا جاتا ہے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بولنگ آل راؤنڈر ہیں۔ انجری کے بعد ان کی بولنگ متاثر ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ میں ان کی بولنگ ایسی نہیں تھی کہ ٹیسٹ میں کھلایا جائے۔ عامر جمال کو محنت کرنا ہو گی۔
جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں یہ بات نظر آئی کہ پاکستان کو اچھی سپیڈ والے فاسٹ بولرز کی شدید ضرورت ہے۔ ہمارے پاس 140 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تیز گیند کرنے والے بولرز ہی کم ہیں۔ ٹیسٹ میں عباس، میر حمزہ تو بہت ہی کم رفتار والے بولر ہیں، خرم شہزاد مناسب ہیں جبکہ نسیم شاہ کی سپیڈ تو زیادہ ہے مگر وہ اچھے ردھم میں نہیں۔ حارث رؤف صرف وائٹ بال کرکٹ کھیل رہے ہیں تو ہمیں تیز رفتار نوجوان فاسٹ بولرز ڈھونڈنا ہوں گے، اس کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ دوسرے ٹیسٹ میں اگر ایک سپنر کھلایا جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ نہ کھلانے کا نقصان ہوا۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں لگتا ہے یہی بیٹنگ لائن کھیلے گی جو جنوبی افریقہ کے خلاف دوسرے میچ میں کھیلی، شان مسعود اوپننگ ہی کریں گے ورنہ کامران غلام اور بابر دونوں کو بیک وقت کھلانا ممکن نہیں۔ ممکن ہے ٹیسٹ میں امام الحق کو موقع ملے یا پھر ڈومیسٹک کے پرفارمر محمد حریرہ کو چانس دیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی طرح ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی سپن ٹرننگ پچز بنائی جائیں گی، ایسا ہونے پر ساجد خان، نعمان علی اور پھر سلمان آغا پر مشتمل سپن اٹیک ہی کام کرے گا۔

جنوبی افریقہ کے خلاف وائٹ بال کرکٹ میں اچھے اشارے ملے ہیں۔ صائم ایوب کی کارکردگی کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ خوشی یہ ہے کہ اے ٹیم سے جن نوجوان کھلاڑیوں کو عاقب جاوید نے موقع دیا، انہوں نے پرفارم کیا۔ ابرار احمد بہت اچھے سپنر کے طور پر سامنے آئے، وہ نئی گیند سے بھی اچھی بولنگ کرا لیتے ہیں۔ مسٹری سپنر سفیان مقیم نے بہت سوں کو حیران کر دیا۔ وہ اچھے سپنر ہیں اور ان کے پاس وہ ورائٹی ہے جو مخالف بلے بازوں کو تنگ کر سکے ۔ ویسے تو فیصل اکرم کو بھی چانس دیا گیا، وہ بھی اچھے ثابت ہوئے۔ عمیر بن یوسف کو ٹی20 میں بطور اوپنر کھلایا گیا تو ان میں بھی پوٹینشل نظر آیا۔
عرفات منہاس، قاسم اکرم کو ابھی زیادہ مواقع نہیں ملے، مگر وہ بھی اچھے کھلاڑی ہیں۔ باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کا سامنے آنا خوش آئند ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو وائٹ بال کرکٹ میں خاصے عرصے تک اچھے سپنرز دستیاب ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نوجوان سپنرز کو مواقع دیے جائیں اور پھر سے ناکام سپنرز کو ٹیم پر مسلط نہ کیا جائے۔
عاقب جاوید بطور کوچ اور سلیکٹر کامیاب رہے۔ انہوں نے رسک لیا اور اس کے اچھے اثرات آئے۔ عاقب نے سب کو اچھے مواقع دیے۔ عبداللہ شفیق کو ناکام ہونے کے باوجود مسلسل کھلایا گیا۔ عبداللہ شفیق جس طرح ناکام ہوئے، اس سے لگتا ہے کہ انہیں چند ماہ صرف ڈومیسٹک کرکٹ کھلائی جائے تاکہ ان کی فارم بہتر ہو اور تکنیکی کمزوریاں دور ہوں۔
شاہین شاہ کو ٹیسٹ سیریز نہیں کھلائی گئی۔ اس پر تنقید ہو سکتی ہے کیونکہ سنچورین میں شاہین شاہ کا عامر جمال کی جگہ پر ہونا مفید ہو سکتا تھا، تاہم آگے وائٹ بال کرکٹ خاصی ہے تو شاہین کو لمبی کرکٹ نہ کھلانا قابل فہم ہے۔ یہ اور بات کہ پھر انہیں بنگلہ دیش ٹی20 لیگ میں بھی نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔
