اے رمضان! تیری عطائیں یاد آئیں گی
رمضان کے اختتام پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم نے پورے ماہ روزے رکھ کر اہم مقصد کو حاصل کیا یا نہیں
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی۔ ریاض
فضیلتوں اور برکتوں کا مہینہ اختتام پذیر ہے۔بہت جلد وہ وقت آئے گا جب ہم آپس میں تذکرہ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔ ہم یاد کریں گے کہ روزہ دار کے منہ کی بو جو بھوک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ نیز روزے داروں کیلئے دریا کی مچھلیوں کا دعائے مغفرت کرنا اور افطار کے وقت تک کرتے رہنا، جنت کا روزے داروں کیلئے سجایا جانا، سرکش شیاطین کو قید کرنے اور افطار کے وقت روزے دار کی دعا کے رد نہ ہونے کو یاد کیا کریں گے۔ ہر رات فرشتوں کی ندا یاد کی جائے گی کہ اے طالب ِخیر! سامنے آ اور متوجہ ہو ۔ اے طالب ِشر! بس کر گناہوں سے، تائب ہوکر طاعت اور نیکی کی زندگی کو اختیار کر۔ ہمارے بعض اسلاف رمضان کے اختتام پر رمضان کی وداعی میں رویا کرتے تھے کہ گناہوں سے مغفرت کا موسم ، اللہ کے فضل وکرم کو حاصل کرنے اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کا اہم وقت جا رہا ہے۔ بعض اسلاف کے متعلق کتابوں میں تحریر ہے کہ وہ6 ماہ تک ماہ رمضان میں کی گئی عبادتوں کی قبولیت کیلئے دعائیں فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مغفرت فرمائے، ہمارے لئے جہنم سے چھٹکارے کا فیصلہ فرمائے نیز روزوں اور رات کے قیام (تراویح اور تہجد) اور تمام نیک اعمال کو قبول فرماکر ہم سب کو اجر عظیم عطا فرمائے،آمین۔
ماہ رمضان میں تراویح اور تہجد کی نماز پڑھنا یاد کیا جائے گا جن کے متعلق رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :
" جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کیلئے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ "
رمضان کی راتوں میں ایک اہم وبرکت والی رات شب قدر کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا کیونکہ اس رات میںعبادت کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل بتایا ہے، گویا اس رات کی عبادت پوری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔ اسی مبارک رات میں قرآن کریم لوح محفوظ سے سمائے دنیا پر نازل ہوا۔ کل قیامت کے دن رمضان اور قرآن کی ہمارے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی ،ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ سے تقرب حاصل کرنے کے اور شب قدر کی عبادت کے حصول کیلئے اعتکاف جیسی نرالی عبادت کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ہمارے نبی اکرم نے2 ہجری میں روزے کی فرضیت کے بعد سے وفات تک ہمیشہ اعتکاف فرمایا۔ پہلے سال آپ نے پورے ماہ کا جبکہ آخری سال آپ نے 20روز کا اعتکاف فرمایا، باقی ہر سال آپ آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
روزہ کے بے شمار فضائل میں سے ایک اہم فضیلت ہمیشہ ہمارے دل ودماغ میں چھائی رہے گی۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا کہ روزہ میرے لئے ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انسان کے ہر (نیک) عمل کا بدلہ10 گنا سے لے کر700 گنا تک دیا جاتا ہے لیکن روزہ کا بدلہ میں خود ہی عطا کروں گا کیونکہ وہ میرے لئے ہے۔دوسری روایت کے مطابق میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ انسان کھانے پینے اور جنسی شہوت سے صرف میری وجہ سے رکا رہتا ہے۔ روزہ دار کو 2 خوشیاں ملتی ہیں، ایک افطار کے وقت (وقتی ) اور دوسری اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت (دائمی) (بخاری ومسلم) ۔
روزہ میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا: روزہ میرے لئے ہے ۔
اپنا محاسبہ:
رمضان کے اختتام پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم نے پورے ماہ روزے رکھ کر روزے کے اہم مقصد کو حاصل کیا یا نہیں۔ قرآن کریم کے اعلان کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد ہماری زندگی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے اندر تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوا یا وہی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوتاہی رمضان کے بعد دوبارہ لوٹ کر آگئی۔ روزے کا دوسرا مقصد گناہوں سے مغفرت ہے، لہذا مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ایک مرتبہ نبی اکرمنے منبر پر چڑھتے ہوئے3مرتبہ کہا: آمین۔ آمین۔ آمین۔ صحابہ کرامؓ کے سوال کرنے پر حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے اور جب میں نے منبر پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا غبار آلود ہو اس شخص کی ناک (یعنی بڑا بدنصیب ہے وہ شخص ) جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے کہا آمین ۔ غور فرمائیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام جیسے مقرب فرشتے کی بد دعا اور پھر نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی کا آمین کہنا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس بد دعا سے حفاظت فرمائے، نیز ہمیں ہمیشہ اپنے نبی کا یہ فرمان ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا (ابن ماجہ، نسائی)۔
رمضان المبارک کے بعد:
عمل کی قبولیت کی جو علامتیں علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائی ہیں ،ان میں سے ایک اہم علامت عمل صالح کے بعد دیگر اعمال صالحہ کی توفیق اور دوسری علامت اطاعت کے بعد نافرمانی کی طرف عدم رجوع ہے،نیز ایک اہم علامت نیک عمل پر قائم رہنا ہے۔ حضور اکرم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب عمل وہ ہے جس میں مداومت یعنی پابندی ہو خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو (بخاری ومسلم) ۔حضرت عائشہ ؓ سے حضور اکرم کے عمل کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا آپ ایام کو کسی خاص عمل کیلئے مخصوص فرمایا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نہیں، بلکہ آپ اپنے عمل میں مداومت (پابندی) فرماتے تھے،اگر کوئی ایسا کرسکتا ہے تو ضرور کرے (مسلم) ۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ان سے ارشاد فرمایا : اے عبداللہ! فلان شخص کی طرح مت بنوجو راتوں کو قیام کرتا تھا لیکن اب چھوڑدیا (بخاری ومسلم) ۔لہذا ماہِ رمضان کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمیں برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کا سلسلہ باقی رکھنا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی مضمر ہے۔ چند اعمال پیش خدمت ہیں، دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ ان کا بھی خاص اہتمام رکھیں۔
فرض نماز کی پابندی:
نماز ایمان کے بعد دین اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے جس کی ادائیگی ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض ہے لیکن انتہائی تشویش وفکر کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اس اہم فریضہ سے بے پرواہ ہے۔ رمضان کے مبارک ماہ میں تو نماز کا اہتمام کرلیتے ہیں مگر رمضان کے بعد پھر کوتاہی اور سستی کرنے لگتے ہیںحالانکہ قرآن وحدیث میں اس فریضہ کی بہت زیادہ اہمیت اور تاکید وارد ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر وقت (رمضان اور غیر رمضان میں) نماز کا پابند بنائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یقینا نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے(النساء103) ۔
دن رات میں کل17 رکعتیں ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں: فجر کی2 رکعت، ظہر کی4 رکعت، عصر کی 4 رکعت، مغرب کی3 رکعت اور عشاء کی4 رکعت۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود ، مسند احمد)۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
اللہ تعالیٰ نے بندوں پر 5نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو ان نمازوں کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائے گا اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اسکو عذاب دے چاہے جنت میں داخل کردے۔ (موطا مالک، ابن ماجہ، ابوداود ، مسند احمد)۔
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز (یعنی نماز کا اہتمام کرو)۔ جس وقت آپ نے یہ وصیت فرمائی آپ کی زبان مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے (مسند احمد) ۔حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نماز کی پابندی کرکے اس کی حفاظت کی اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا (موطا مالک)۔
قرآن کی تلاوت کا اہتمام:
تلاوت قرآن کا روزانہ اہتمام کریں خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ علماء کرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر ان پر عمل کریںاور دوسروں کو پہنچائیں۔ یہ میری ، آپ کی اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر10 نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف (ترمذی)۔
حلال رزق پر اکتفا:
حرام رزق کے تمام وسائل سے بچ کر صرف حلال رزق پر اکتفا کریں خواہ مقدار میں بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا کہ کل قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ 5 سوالوں کے جواب دیدے۔ ان 5 سوالات میں سے2 سوال مال سے متعلق ہیں کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفا کرے، جیساکہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی) اسی طرح حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے(مسند احمد)۔
بچوں کی دینی تعلیم وتربیت:
ہماری یہ کوشش وفکر ہونی چاہئے کہ ہماری اولاد اہم وضروری مسائل شرعیہ سے واقف ہوکر دنیاوی زندگی گزارے اور اخروی امتحان میں کامیاب ہو کیونکہ اخروی امتحان میں ناکامی کی صورت میں دردناک عذاب ہے جس کی تلافی مرنے کے بعد ممکن نہیں۔مرنے کے بعد آنسو کے سمندر بلکہ خون کے آنسو بہانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزاریں گے تو ہمارا بچوں کی تعلیم میں مشغول ہونا، ان کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا اور ہر عمل دنیا وآخرت دونوں جہاں کی کامیابی دلانے والا بنے گا ان شاء اللہ۔
ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے دوری:
معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں، لہذا فحش وعریانیت وبے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں اور اپنی اولاد وگھر والوں کی خاص نگرانی رکھیںتاکہ یہ جدید وسائل آپ کے ماتحتوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں کیونکہ آپ سے ماتحتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
" اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ "( التحریم6) ۔
پاکیزہ اور صاف ستھرے معاشرہ کی تشکیل:
معاشرہ کی عام برائیوں مثلاً ناپ وتول میں کمی، سود، رشوت، جوا ، شراب، جھوٹ، غیبت، فحش کلامی، کسی شخص کو گالی یا دھوکہ دینا، تکبر،
فضول خرچی، زنا اور زنا کے تمام لوازمات مثلاً نامحرم مرد وعورت کا اختلاط، چوری، ڈکیتی یا کسی شخص کے مال کو ناحق لینا اور معاشرہ کے ناسور یعنی جہیز کے لین دین سے محفوظ رہ کر ایک اچھے اور پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل دینے میں اپنا پھرپور تعاون پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحمت والے مہینہ میں کئے گئے ہمارے تمام اعمال صالحہ کو قبول فرمائے اور ہمارے لئے جہنم سے چھٹکارہ کا فیصلہ فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔