عورت خواہ کتنی ہی تعلیم یا فتہ یا بہادر کیوں نہ ہو،شوہر کی مصروفیت کولاپروائی کا نام دیتی ہے ، کبھی بے وفائی کا
* * * * تسنیم امجد۔ریاض* * * *
گھر معاشرے کی بنیا دی اکائی ہے جس کی اساس عو رت اور مرد کے متوازن رشتے سے مضبوط ہو تی ہے۔انسانی مزاج کے بے شمار رنگ ہیں جو مختلف مو سمو ں کے مر ہو ن منت ہیں۔خوشنما رنگو ں کی بہار گھر کو پھو لو ں سے بھر دیتی ہے جس کے حصول کے لئے ازدواجی زندگی کی کتاب کے ہر ورق کو مختلف انداز سے سجا نا پڑ تا ہے ۔اس کتاب کا ہر صفحہ اپنے اندر ایک داستان سمو ئے ہو ئے ہو تا ہے ۔کبھی کبھی رنگوں کا پھیکا پن زندگی کے بے رنگ ہونے کا پتا دیتا ہے۔خواتین اس سلسلے میں حساس ہوتی ہیں جو جلد ہی ان صفحو ں پر آڑی تر چھی لکیر یں کھینچ کر دل ہار بیٹھتی ہیں۔انہیں اپنے غیر محفوظ ہو نے کا احساس ہو نے لگتا ہے۔وہ قدم قدم پر تجدید محبت اوروفا کے چند بو لو ں کی طالب رہتی ہیں۔ آج ’’صبح ا لکا فیہ گیدرنگ‘‘ میں کچھ خواتین کی شکایات سننے کو ملیں تو سوچا کہ اصل صورت حال کی تہہ تک پہنچا جائے کیو نکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ:
*رواں تھا پیار نس نس میں ، بہت قربت تھی آپس میں
*اسے کچھ اور سننا تھا ، مجھے کچھ اور کہنا تھا
*غلط فہمی نے باتو ں کو بڑ ھا ڈالا یو نہی ورنہ
*کہا کچھ تھا ،وہ کچھ سمجھا ،مجھے کچھ اور کہنا تھا
٭٭
مسز جیم کے شوہرکاروبار کے حوالے سے زیادہ تر غیر ملکی دوروں پر رہتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ مہینہ مہینہ بھر باہر رہتے ہیں ۔کبھی تو وہ روزانہ فون پر را بطہ رکھتے ہیں اور کبھی کئی کئی دن غائب رہتے ہیں، کوئی رابطہ نہیں کرتے اوران کا فون بھی بند ملتا ہے ۔اس طرح وسوسے جنم لیتے ہیں۔مجھے کمزور بنانے میں میڈیا کا زیادہ ہا تھ ہے۔میں ٹی وی کھو لتی ہو ں تو ہر ڈرامہ مرد کی بے وفائی کی داستان بیان کرتا رکھائی دیتا ہے ۔ میں اللہ کریم سے بہت دعائیں کرتی ہو ں لیکن پھر بھی بے سکون ہی رہتی ہو ں۔
* *مسز شین کہنے لگیں کہ اسی لئے ہم نے پہلے دن سے ہی یہ روگ نہیں پا لا۔میں اپنا گھر دیکھتی ہو ں ،کھانے پینے کا خیال رکھتی ہوںاور بس ۔میں نہ زیادہ امید باندھتی ہوں اور نہ ہی بے وفا ئی کے زخم کی پروا کرتی ہو ں۔ارے بھئی بے وفائی سے انہی کا ہی نقصان ہے۔کسی اور مصنوعی رشتے سے جو پا نا ہے وہ پا لیں، الفاظ تو بہت ہیں میری محبت بیان کرنے کے لئے ۔وہ میری خاموشی نہیں سمجھے تو میرے الفاظ کہاں سمجھیں گے ؟
٭٭مسز میم ۔ج کے شوہر بھی دفتر سے آنے کے بعد صرف کھا نا کھانے کے لئے بمشکل ہی گھر آ تے ہیں اور پھر رات گئے تک دوستو ں کے ساتھ رہتے ہیں۔شروع شروع میں تومیں بہت کڑھتی تھی لیکن اب حالات سے سمجھو تہ کر لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ شاید میرے شوہر مجھے پسند نہیں کرتے ۔ ویسے بعض اوقات یہ امائیں بھی بیٹو ں سے پسند پوچھے بغیر ہی انکی شادی رچا دیتی ہیں ۔ اس طرح 2زندگیا ں خراب کردیتی ہیں۔لڑکا تو پھر کو ئی مو قع ڈھو نڈ سکتا ہے لیکن لڑ کی بے چا ری کہا ں جائے ؟ میں تو کہتی ہوں کہ سلامت رہیں یہ کافی مارننگز جن سے دل بہل جا تا ہے۔
٭٭ ایک خاتون نے کہا کہ میرے شوہر میری مرضی کے بغیر گھر کا سودا سلف لاتے ہیں۔میں کہتی ہوں کہ مجھ سے پوچھ لیں، میری رائے لے لیں۔کیا میری کو ئی حیثیت نہیں؟اس پر دوسری خاتون بولیں کہ ہائے کتنے اچھے ہیں۔میرے شوہر توکچھ لا کر دینے کی پروا ہی نہیں کرتے۔سودہ لکھ لکھ کر جیب میں ڈالتی ہو ں لیکن شام کو آ کرکہتے ہیں کہ ’’ اوہ ! میں بالکل ہی بھول گیا ۔کل سہی، آج کسی طرح گزارہ کر لو۔ اس مختصر گفتگو کے پس پردہ ہمیں دونوں فریقو ں کا قصور نظر آیا ۔ایسا لگا کہ دونوں اپنی ہی بنا ئی ہو ئی دنیا میں گم ہیں۔انہوں نے اس سے باہر جھا نکنے کی کبھی کو شش ہی نہیں کی ۔کاش اس سلسلے میں کو ئی بیورو ہو یا والدین کی تربیت ہو تا کہ ازدواجی زندگی کی پیچیدگیو ں کی سو جھ بوجھ پیدا ہو جائے۔عورت خواہ کتنی ہی تعلیم یا فتہ یا بہادر کیوں نے ہو،فطری طور پر لطیف اور نرم و نازک شخصیت کی مالک ہوتی ہے۔ اسے ہر لمحہ شو ہر کی جانب سے کسی خوبصورت لفظ کا انتظار رہتا ہے ۔
اس کی مصروفیت کو وہ لا پروائی کا نام دیتی ہے اور کبھی بے وفائی کا ۔ ازدواجی زندگی کو اس تمام اونچ نیچ سے پاک کرنے کے لئے باقاعدہ حکمت عملی اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔طرفین میں تبادلۂ خیال بہت ضروری ہے۔ضروری نہیںکہ زن و شو کی طبیعتو ں میں یکسا نیت ہو۔اختلافی صورت حال کے بارے میں اظہار خیال ضروری ہے۔کوئی بھی بات دل میں رکھنا اور کڑ ھتے رہنا عقلمندی نہیں۔شوہرکو چاہئے کہ وہ بھی دن بھر کی کا ر کر دگی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ بیوی کے گوش گزار ضرورکرے ۔اسی طرح دلجو ئی کے سے انداز میں حال چال پو چھے۔کوئی ٹی وی پروگرام مل کردیکھنا بھی دوستانہ ماحول پیدا کرے گا ۔ یاد رہے کہ بند دروازے اسی وقت کھلتے ہیں جب باہمی گفتگو میں سچائی ہو۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ زن و شو کا بندھن ایک عہد کی بنیاد ہوتا ہے۔دونوں جانب سے اس عہد کی پاسداری ضروری ہے۔دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے ، اس طرح محبت و شادمانی کی ایسی فضا پیدا ہو گی جو نہ صرف ان کے لئے مژدۂ جانفزا ہو گی بلکہ ان کی اولاد پر بھی مثبت اثرات مر تب کرے گی۔ ایک دوسرے کو معاف اور عفو و درگزرکرنے کے جذ بات پیدا کرنے سے باہمی قربت پروان چڑ ھتی ہے۔گھریلو ماحول کو خوشگوار بنانے کی چابی دو نوں کے پاس ہے۔اس کے استعمال کا طریقہ آنا ضروری ہے۔
انسانی مزاج میں قدرت نے بہت لچک رکھی ہے۔اپنی غلطیو ں پر ندامت اور دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا بہترین اطوار ہیں۔بچے ما حول سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ان کی پرورش اور تر بیت پر دونوں کو تو جہ دینی چا ہئے گھریلو چپقلش کا اثر بچو ں پر پڑ تا ہے۔در گزردرحقیقت صحت مند رہنے کا راز ہے۔اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کی وقت ایک ایسا ’’ہما‘‘ہے جس سے ہمیں خاطر خواہ اندار میں مستفید ہو نا چا ہئے۔تفر قو ں کا فوری قلع قمع انتہائی ضروری ہے۔ عورت پر گھر داری کی ذمہ داری مرد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔رونے پیٹنے اور کوسنے میں وقت ضائع کر نے کی بجائے اس کا فوری حل تلاش کرنا چاہئے۔انفرادی مصروفیت کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے ساتھی کی دل جوئی اور حواہش کا احترام بھی ضروری ہے۔ ذرا سی لا پر وائی سے چلتی گا ڑی ڈگمگا سکتی ہے ۔ یاد رکھئے کہ دوسرو ں کو اہمیت دے کر اور ان کی ذات میں دلچسپی لینے میں انسان کو خود اپنے وجود کا ادراک ہو تا ہے :
* خوبصورت ہو ں در و دیوار چاہے جس قدر
ہے محبت سے ،اگر خالی ، تو گھر اچھا نہیں