Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کا اتنا غصہ کیوں؟

آثار تو تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ہو گا کیا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے
* * * * صلاح الدین حیدر* * * *
کیا پاکستان کا سیاسی نقشہ تبدیل ہونے والا ہے، حالات و شواہد سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت قائم کی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے قریباً اپنا کام مکمل کرلیا۔ بدھ کو احتساب بیورو کے چیئرمین دوبارہ پیش ہوئے، لیکن سب سے اہم بات تھی وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی۔ وہ وہاں گئیں، سوالات کے جوابات دیے۔ اُن کا اور (ن) لیگ کے دوسرے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مریم کا تو نام ہی نہیں تھا سپریم کورٹ کے اصل کیس میں جس نے2 ووٹ کے مقابلے میں 3 ووٹوں سے نواز شریف کو منصب پر براجمان رکھا۔ یہ نواز شریف کی خوش قسمتی تھی لیکن جب جے آئی ٹی بنی تو (ن) لیگ والوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں کہ اُن کی جیت ہوگئی ہے۔ یہ بھول گئے کہ اس فیصلے پر بڑی تنقید ہوئی اور ظاہر ہے جج صاحبان بھی پریشر میں آگئے ہوں گے اسی لیے اُن 3 ججوںنے جن کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں تھا، یہ سوچا ہوگا کہ عوام النّاس کی نظروں میں اُن کی قدر و قیمت متاثر ہوئی ہے۔
اُنہوں نے پھر مزید انکوائری کا حکم دیا کہ نواز شریف کے اثاثہ جات کی تحقیقات کی جائے۔ یہ صحیح ہے اور میں مانتا ہوں بہت سارے وکلا کی اس دلیل کو کہ دُنیا میں کہیں بھی وزارت عظمیٰ کبھی کوئی انکوائری کمیٹی نہیں بٹھاتی۔ یہ کام انتظامیہ کے سپرد کردیا جاتا ہے، لیکن اب اگر ہوگئی ہے تو کوئی نقصان بھی نہیں۔ پہلے اگر کوئی کام نہیں ہوا ہو اور ایک کام نئے سرے سے شروع کیا جائے تو وہ آنے والی نسلوں کیلئے نظیر بن جاتا ہے۔ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات فخر سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ایک مثال قائم کی ہے، جو دوسروں کیلئے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ مجھے یقین ہے اس بات کا۔ بہرحال جو قصّہ پچھلے ڈیڑھ سال سے چل رہا تھا، اب اختتام کی طرف گامزن ہے۔
آج جب میں یہ سطور تحریر کررہا ہوں تو وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر، غیظ و غضب میں ڈوبی ہوئی نظر آئیں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے۔ بس یہی لگتا ہے کہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ ہے تو پُرانی مثال لیکن حسب حال بھی ہے۔ مریم نواز اتنے غصّے میں کیوں لگ رہی تھیں، وہ کوئی عجوبہ تو نہیں۔ اُن کے والد ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ظاہر ہے اُن کو پورا سرکاری اعزاز ملے گا۔ مریم تو معمولی شہری ہیں، اُن کو پولیس گارڈ اور پروٹوکول نہیں مل سکتا،پھر بھی پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں سپریم کورٹ کے اردگرد جمع ہوگئے تھے جو کہ غلط ہے۔ دُنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ کوریا میں حال ہی میں صدر کو منصب سے اُتار دیا گیا۔
تمام سرکاری اعزازات واپس لے لئے گئے۔ جاپان میں تو کئی وزیر اعظم بدلے، کچھ کرپشن میں کچھ کسی اور قانون کی نافرمانی کی وجہ سے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن کو بے عزتی سے منصب سے الگ کیا گیا، گو بعد میں اُنہیں معاف کردیا گیا۔ اگر پاکستان میں کوئی بداعمالی یا بدعنوانی کا قصہ وزیراعظم یا اُن کے اہل خانہ کے بارے میں مشہور ہوا تو ظاہر ہے کہ اُس کی انکوائری ہوگی لیکن وزیراعظم بذات خود اور اُن کے اہل خانہ حسن، حسین اور مریم نواز اور پھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو غصّے میں غضب ناک نظر آئے، کیا اُن کیخلاف تحقیقات نہیں ہوسکتیں؟ ظاہر ہے (ن) لیگ اور حکمران طبقہ پریشان نظر آرہا ہے، اُنہیں اقتدار کی کشتی ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن کسی بھی مہذب معاشرے میں حکمرانوں کا احتساب تو ہوتا ہی ہے اور لازماً ہونا چاہیے۔ قانون سب کیلئے برابر ہے۔
پھر حسین نواز جو گزشتہ دنوں چھٹی مرتبہ پیش ہوئے، اتنے غضب ناک کیوں نظر آرہے تھے۔ تحمل کا مظاہرہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ عوام کی نظروں میں اُن کی قدر و منزلت بہت بڑھ جاتی۔ اب جے آئی ٹی کے ارکان قطر کے شہزادہ جاسم بن حماد کے انٹرویو کیلئے جائیں گے۔ دیکھیں وہاں کیا ہوتا ہے۔ اگر قطری شہزادے نے نواز شریف کو پیسے دینے کے ثبوت فراہم کردیے تو کھیل اُلٹ بھی ہوسکتا ہے لیکن جے آئی ٹی ارکان اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے صاف انکار کردیا کہ وہ پہلے سے کوئی سوال نامہ قطری شہزادے کو نہیں دِکھائیں گے، اس لئے کہ یہ اصولوں کیخلاف ہوگا۔ پھر اُن کے ساتھ کوئی وکیل یا سیکریٹری وغیرہ نہیں ہوگا۔ وہ عام شہری کی حیثیت میں جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوں گے اور سارے سوالوں کے جواب دینے کے پابند ہوں گے۔ اب مسلم لیگ کی نظریں بلکہ اگر کہا جائے کہ آخری اُمید قطری شہزادے کا انٹرویو ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس بات کی حمایت تو وزیراعظم کے ترجمان آصف کرمانی بھی کرچکے ہیں کہ قطری شہزادے کے انٹرویو میں دیر کیوں کی جارہی ہے۔ اسحاق ڈار نے جس طرح 45 منٹ کی انکوائری کے بعد غیظ و غضب کا اظہار کیا اُس پر اُنہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ حکمرانی کے منصب پر ہوں پھر بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
پکڑ سب کی ہوگی اور ہونی چاہیے۔ اسحاق ڈار سے سوالات کیے گئے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ خدا خدا کرکے، اب وہ گھڑی آن پہنچی ہے، جس کا عوام کو کئی مہینوں سے انتظار تھا۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی اپنی مکمل رپورٹ سپریم کورٹ کی 3رکنی اسپیشل بنچ کے سامنے پیش کردے گی۔ ظاہر ہے وہ اُس کا بغور جائزہ لے کر ہی کوئی طریقۂ کار طے کرے گی۔ پھر جے آئی ٹی نے لندن میں برطانیہ کی 3مشہور کمپنیوں کی وزیراعظم کی اولاد کے دستخطوں کی تصدیق کیلئے خدمات لی ہیں تاکہ انکوائری مزید مکمل ہوسکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی قانون کے تحت بینکس کسی کے ذاتی اکاؤنٹس کے بارے میں کسی اور کو جواب دہ نہیں ہوتے، وہ کیا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی بہت اہم ہوگا تفتیش پوری کرنے کیلئے۔ پھر سپریم کورٹ نواز شریف، اُنکی اولادوں، عمران خان اور دوسروں کوجنہوں نے نواز شریف پر پانامہ لیکس کے الزامات کی حمایت کی تھی، بلائیگی تاکہ اُن کا موقف سنا جائے، بغیر کسی کو سنے تو کوئی بھی عدالت یک طرفہ فیصلہ نہیں سنا سکتی۔ یہ طریقۂ کار کتنی طوالت کھینچتا ہے، یہ بھی غور طلب بات ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں کم از کم 2سے3 مہینے لگ سکتے ہیں۔جرح ہوگی کہ نہیں، مزید انکوائری کی ضرورت پڑے گی یا نہیں، یہ تمام سوالات لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ پھر اگر تمام طریقۂ کار مکمل کرنے کے بعد نواز شریف کیخلاف فیصلہ آتا ہے تو کیا پاکستانی آئین کے تحت اُنہیں اسپیشل بنچ کیخلاف 17 رکنی فل بنچ کو اپیل کا حق حاصل ہوگا یا نہیں۔ وکلا اس پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے سپریم کورٹ خود اپنا طریقۂ کار طے کرے گی جس کا اُسے اختیار ہے۔ فی الحال صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ آثار تو تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن ہوگا کیا یہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔

شیئر: