Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’نون‘‘ نے صحیح فیصلے نہ کئے تو خدا حافظ کہہ دیں گے، ارباب غلام رحیم

میثاق جمہوریت مفادات کا معاہدہ تھا کہ تم میری پیٹھ کھجلاؤ میں تمہاری پیٹھ کھجلاتا ہوں ،سابق وزیر اعلیٰ سندھ
* * * * * جاوید اقبال ۔ ریاض* * * * * *
یوں تو دریائے سندھ کے کنارے برسوں سے بنتے مٹتے معاشروں کے شاہد رہے ہیں لیکن گزشتہ 7دہائیاں وادی سندھ میں بے حد ہنگامہ پرور رہی ہیں۔ یہاں کی معاشرتی ، سیاسی اور اقتصادی داستانوں نے سارے ملک پر دامن دراز کیا ہے۔ اپنے 3وزرائے اعظم کی قبریں سینے پر سنبھالے سندھ کی سرزمین سدا بے چین رہی ہے۔
* مدینہ منورہ کے پاکستان ہائوس میں اس صوبے کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم سے ایک طویل نشست رہی۔ انہوں نے بہت کچھ کہا۔ گفتنی ناگفتنی.....قارئین کے لئے توشہ ٔ خاص:
** ۰ ارباب صاحب! اسو قت ملک نازک صورتحال سے گزر رہا
ہے۔ آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
**  اس وقت ملک کے جو حالات ہیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے اندر کے لوگ باہر کی قوتوں سے ملے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی منظر نامے میں بھی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ پہلے اکلوتی سپر پاور تھی اب ایک نیا بلاک بھی بن رہا ہے اور پھر ان حالات میں ہمارے ملک میں لیڈر شپ بھی نہیں ہے جونہی پانامہ لیکس کا مسئلہ اٹھا ایک صحیح اور صاف ہاتھ والی لیڈر شپ اپنے آپ کو پہلے دن ہی احتساب اور تحقیق کیلئے پیش کردیتی استعفیٰ دیتی اور کہتی کہ تحقیق کرو لیکن اس نے وہ بات نہ مانی پھر عدالتو ںکا قضیہ شروع ہوا۔جب 3اور 2کا فیصلہ آیا تو مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ اب وہی لوگ جو سمجھتے تھے کہ انکے حق میں فیصلہ آیا تھا، عدالتوں کے خلاف بول رہے ہیں۔ یہ جو نہال ہاشمی ٹائپ لوگ ہیں، خوشامدی ہیں۔ میں ایک دن میاں صاحب کے ہمراہ سفر کررہا تھا۔
** ۰ یہ کب کی بات ہے؟
**  ان دنوں کا ذکر کررہا ہوں جب تھر میں بچے مر رہے تھے۔میاں نواز شریف صاحب نے مجھے یاد کیا ،میں دبئی میں تھا۔ بھاگا بھاگا ان کے پاس لاہور پہنچا اپنے جہاز میں مجھے سندھڑی ایئر پورٹ پر لے گئے وہاں سے ہیلی کاپٹر میں مٹھی گئے۔ واپسی کے دوران میں نے سوچا کہ ان سے تفصیلی ملاقات کرلوں۔ اس سے پہلے بھی میری ان سے دبئی میں ملاقات ہوچکی تھی جس کا تذکرہ میں بعد میں کرونگا پہلے مٹھی والی ملاقات کی تفصیل دیدوں۔ مٹھی میں بچے مر رہے تھے اس وقت کے چیف منسٹر صاحب نے میاں صاحب کو بتایا تھا کہ مٹھی میں کوئی سڑک نہیں کوئی راستہ نہیں اسلئے امدادی سامان پہنچنے میں رکاوٹیں پیش آرہی ہیں۔ تو میں نے کہاکہ یہ غلط کہہ رہے ہیں۔ میں خود اس علاقے کا وزیراعلیٰ رہا ہوں. میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا ہوں،ابھی تک ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ رہ جائوں تو واپسی پر میں نے میاں صاحب سے کہا کہ ملک میں فیڈریشن ہے ۔ 4صوبے ہیں۔ اگر یہ فیڈریشن ٹھیک نہیں چل رہی تو آپ کی ذمہ داری ہے ہمارا صوبہ صحیح نہیں چل رہا۔ قانون کی عملداری نہیں ہے۔ کرپشن بہت ہے۔ بری گورننس ہے تو اس وقت میاں صاحب کے 2خوشامدی سائرہ افضل تارڑاور پرویز رشید سامنے بیٹھے تھے ۔ اپنی فائلوں کا کام بھی کرانا چاہتے تھے۔ وہ بولے کہ نہیں جی یہ میثاق جمہوریت ہے، سب ٹھیک ہے وغیرہ وغیرہ۔میاں صاحب نے اتنا ضرور کہا کہ ارباب صاحب کی بات میں کچھ وزن ہے۔ اتنی دیر میں یہ نہال ہاشمی صاحب آکر میاں صاحب کی نشست کیساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے۔
** ۰ وہ تو اب سینیٹ سے نکال دیئے گئے ہیں؟
**  کہاں؟ وہ نہ نکلے ہیں اور نہ نکلیں گے۔ دراصل انہیں جاوید
جبار نے متعارف کرایا تھا بانہہ بیلی تنظیم سے۔ خیر تو نہال ہاشمی آکر میاں صاحب کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے۔ شروع شروع میں تو میاں صاحب نے ہاشمی کو لفٹ نہیں کرائی۔ یہ دیکھ کر نہال ہاشمی نے اپنا موبائل نکالا اور اس میں سے اپنی تقاریر میاں صاحب کو سنانا شروع کردیں کہ میں نے ایم کیو ایم اور دوسری جماعتوں کے جلسوں میں آپ کے حق میں یہ تقریریں کی ہیں۔ بس میاں صاحب برف کی طرح پگھل گئے ۔ خوشامد جو ہوئی تھی۔ سندھڑی سے اسلام آباد کے ایئرپورٹ تک نہال ہاشمی ، میاں صاحب کو اپنی تقاریر ہی سنواتا رہا۔ باقی لوگ خاموش بیٹھے رہے تو جب حکمراں خوشامد پسند ہوں تو ایسے خوشامدی لوگ خود ہی راستہ نکال لیتے ہیں۔ ویسے انسان کو سوچنا چاہئے کہ اگر کوئی آدمی ناجائز چاپلوسی کررہا ہے تو دال میں کالا ضرور ہے۔ تو بات یہ ہے کہ میاں صاحب خوشامد پسند ہیں۔ انہی لوگوں کو اپنے قریب رکھتے ہیں جو انکی خوشامد کرتے ہیں۔
** ۰ آپ نے کہا کہ میاں صاحب سے آپ کی دبئی میں بھی ملاقات ہوئی تھی وہ کیسی رہی تھی؟
**  میری ان سے دبئی میں ملاقات انتخابات سے پہلے ہوئی تھی۔ یہ 2012ء کے اواخر یا 2013ء کے آغاز کی بات ہے۔ میں بھی 1990ء سے رکن اسمبلی بنتا آرہا ہوں اور اس سے پہلے 1983ء سے 1990ء تک ضلع کونسل کاچیئرمین رہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ میری اور میاں صاحب کی سیاست تقریباً ایک ہی وقت شروع ہوئی تھی۔ کوئی ایک یا دو سا ل کا فرق ہوگا۔ تو میں نے کہا کہ میاں صاحب ہم ہمعصر سیاستدان ہیں۔ آپ نے 3،4بار حکومت حاصل کی اور ہمیشہ اپنے اقتدار کو جھگڑے کرکے ختم کردیا۔90کی دہائی میں غلام اسحاق خان آپ کو لائے تھے۔ انہی سے آپ کا جھگڑا ہوا۔ پھر جنرل جنجوعہ اور جنرل حمید گل کی مدد سے آپ وزیراعظم بنے اور آپ نے ان دونوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ ابھی تک یہ پانچویں یا چھٹے آرمی چیف ہیں جن کے ساتھ ان بن سی ہونے جا رہی ہے۔ 2صدور فاروق لغاری، غلام اسحاق خان کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ رکھے۔
** ۰ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اب بھی حالات خراب ہونے جارہے ہیں؟
**  اس سے زیادہ اور خراب کیا ہوگا جو اب ہے۔ پچھلے آرمی چیفس سے انکی نہیں بنی۔ جھگڑا نہیں بھی ہے تو حالات کس طرف اشارہ کررہے ہیں؟ عدلیہ؟ خود ہی انہوں نے کہا کہ تحقیق کرالیں میں تیار ہوں۔ اب جب انکوائری شروع ہوئی تو اسے نہال ہاشمی جیسے لوگوں سے متنازعہ کرایا جارہا ہے۔ سارے اداروں کو خراب کررہے ہیں۔ میں 1990ء سے جتنا میاں صاحب کو جانتا ہوں وہ اب تک ٹس سے مس نہیں ہوئے ۔ ان کا وتیرہ ہے ۔ وہ اپنے برابر تو کسی کو سمجھتے نہیں۔ تو میں نے دبئی میں ان سے بات کرنے کی کوشش کی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سے تو ہمارا اختلاف تھا تو ہماری سوچ تھی کہ میاں صاحب تیسری ، چوتھی بار حزب اختلاف میں آئے ہیں تو شاید انکی سوچ تبدیل ہوئی ہو لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ان کے انداز فکر میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ ** ۰ سندھ میں مسلم لیگ’’ن‘‘کی مقبولیت کیسی ہے؟
**  سندھ میں تو مسلم لیگ’’ن‘‘ کا ویسے ہی بیڑا غرق ہورہا ہے۔ کوئی نہیں رہا اس جماعت میں سوائے میرے جیسے اکا دکالوگوں کے اور میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ارکان سے کہتا ہوں کہ اگر میاں صاحب کا یہی رویہ رہا تو پھر مسلم لیگ 1970ء والی جماعت بن جائیگی۔ اسے ان برسوں میں کوئی پہچانتا بھی نہیں تھا تو مسلم لیگ’’ن‘‘ والے کوئی رستہ نکالیں۔ فوج نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ سیاست میںمداخلت نہیں کریگی۔ عدلیہ کی بھی حدود ہیں اور اب جبکہ عدلیہ ان حدود کے اندر رہ کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے بھی کچھ نہیں کرنے دے رہے۔ روزانہ اسکے خلاف بیانات دیتے ہیں تو جیسے شیخ رشید کہتا ہے کہ یا نون رہے گی یا قانون رہے گا تو ایسے ہی یا ملک رہے گا یا نون رہے گی۔ ہم تو نون میں ہیں۔ اگر ’’نون‘‘ والوں نے صحیح فیصلے کئے تو نون میں رہیں گے اور اگر اسی طرح ضد والی حکمت عملی پر قائم رہیں گے تو ہم بھی نون کو خدا حافظ کہہ دیں گے۔
** ۰ آپ کے خیال میں کیا ملک میں اگلے 2، 3ماہ میں کوئی بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف عدالتی فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیں؟
**  فوج تو مارشل نہیں لگائیگی اس نے کہہ دیا ہے میں یہ واضح کردوں کہ جس وقت ملک کو ضرورت ہوتی ہے، فوجی مارشل لا نہیں لگاتے۔ جس وقت جھگڑے ہوتے ہیں پھر مارشل لا لگ جاتا ہے۔ اس وقت بہت لوگ اس چیز کے قائل ہیں کہ 58ٹو بی کو ختم نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ رہنا چاہئے تھا۔ جس دن یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا تھا، میں واحد رکن تھا جس نے ووٹ نہیں دیا۔ اس وجہ سے میاں صاحب میرے پیچھے پڑ گئے۔ میرے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے رہے۔ ابھی تک مجھے پسند نہیں کرتے۔ یہ 58ٹو بی والی بات میں نے میاں صاحب سے دبئی میں بھی کہی تھی۔ میں نے کہا تھا اگر 58ٹو بی نہیں ہوگا تو جمہوریت نہیں چل سکتی۔ پاکستان میں یہ ایک پریشر کم کرنے کا والو ہے۔ طاقتور صدر او راقتدار میں توازن ہونا چاہئے۔ صدر کا تقرر وزیراعظم اپنی مرضی سے نہ کریں۔ صدر کے پاس عدلیہ اور آرمی چیف کا تقرر کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ جس طرح کے حالات اب ہیں تو کوئی نہ کوئی مداخلت کرکے انہیں صحیح خطوط پر ڈالتا۔ جب صدر کے پاس اسمبلیاں توڑنے کا اختیار تھا تو وہ بھی تو جمہوریت تھی اور آج تو کرپشن کے ثبوت بھی ہیں۔ یہ جو ثبوت آرہے ہیں اس زمانے کے ہی تو ہیں۔ میں خاص طور پرپنجاب والوںکو یہ پیغام دے رہا ہوں کہ یہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔
** ۰ آپ کے خیال میں پانامہ کیس صحیح ہے،؟ کیا نواز شریف ملک سے رقوم کی غیر قانونی منتقلی کے ذمہ دار ہیں؟
**  پانامہ لیکس کسی سیاسی آدمی نے تو نہیں نکالا۔ یہ تو میڈیا کی دریافت ہے۔ دو ججوں نے تو فیصلہ دیدیا ہے کیونکہ یہ ثابت ہی نہیں کرپارہے ۔ ایک جگہ ایک بات کہتے ہیں دوسری جگہ دوسری بات کہتے ہیںاور تیسری جگہ ایک اور مختلف بات کہتے ہیں۔ میں تو سوچ رہا ہوں کہ 3جج اب پچھتا رہے ہوں گے کہ کیوں ہم نے ایسا فیصلہ دے کر عذاب اپنے گلے میں ڈالا ہے ورنہ اگر پہلے دن ہی فیصلہ دے دیتے تو معاملہ ختم ہوجاتا۔ ویسے برسراقتدار وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دینا یا تفتیش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب یہ لوگ انہی 3کے فیصلے کو متنازعہ بتا رہے ہیں۔
** ۰ آپ نے صدر پرویز مشرف کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ آپ نے ان کو کیسا پایا؟
** مشرف میرے دوست یا کلاس فیلو نہیں تھے۔ نہ میں انہیں پہلے کبھی جانتا تھا۔ مشرف صاحب کے اقتدار کے پہلے 3برس بھی ہمارے لئے عذاب تھے لیکن میں انہیں الزام نہیں دونگا ۔کچھ ہاتھ اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے مشرف صاحب کے علم میں بھی نہ ہو کہ کیا ہورہا ہے۔ جیسے ہی لوکل باڈیز کے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کے خلاف جیتنے والے اضلاع میں ایک ضلع ہمارا بھی تھا اور وہ انتخاب ہم نے ایسے حالات میں جیتا تھا کہ ایک انتہائی سخت گیر بریگیڈیئر مامور تھا وہاں اور وہ پی پی پی کی حمایت کررہا تھا ۔ وہ الیکشن پی پی پی مخدوم امین فہیم کی حکمت عملی اور صدر مشرف کی حمایت سے جیتی تھی۔ ہم اپوزیشن میں تھے ۔ میں تھرپارکر سے جیتا تھا۔ شیرازی ٹھٹھہ سے اور پیر صاحب پگاڑوکا ایک آدمی جیتا تھا لیکن وہ پیر صاحب کا نہیں بریگیڈیئر کا بندہ تھا۔ ایک غلام مصطفی جتوئی کا بیٹا تھا۔ ایک غوث بخش مہر تھا معلوم نہیں کہ پی پی پی کا تھا یا نہیں میرے خیال میں آزاد تھا۔ علی گوہر مہر والے پی پی پی سے جیتے تھے۔ اس وقت مشرف ، نواز شریف کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اس لئے پی پی پی کے لئے ان کے دل میں نرم گوشہ تھا۔ اس کے بعد جب ریفرنڈم ہوا تو پی پی والے الگ کھڑے ہوگئے۔ تب مشرف کی آنکھیں کھلیں اور ہماری قربت کا آغاز ہوا۔دراصل ہم نے سندھ میں ایس ڈی اے ( سندھ ڈیموکریٹک الائنس ) کے نام سے ا یک اتحاد بنایا تھا۔ بعدمیں وہ گروپ نیشنل الائنس میں ضم ہوا جس میں جتوئی اور لغاری تھے۔ اے این پی کے اجمل خٹک تھے یوں ہم جیت کے آگئے۔ میرا نام شروع میں ہی وزیراعلیٰ کے طور پر جانا جانے لگا مگر علی محمد مہر بن گئے وہ نہیں چل سکے تو ڈیڑھ سال بعد پھر قرعہ میرے نام نکلا۔
** ۰ یہ ذمہ داری آپ کو کیسے ملی؟ کیا مسلم لیگ’’ن‘‘ یا پی
پی پی نے آپ کی حمایت کی تھی؟
**  نہیں میں تو ایس ڈی اے کی طرف سے انتخاب جیتا تھا ۔ میں نے پورا ضلع مکمل طور پر سویپ کیا تھا۔ 4ارکان صوبائی ا سمبلی اور 2قومی اسمبلی کے میری حمایت سے جیتے تھے۔ یہ حیران کن تھا کیونکہ رپورٹ یہ دی گئی تھی کہ اعلیٰ حکام کو یہ صرف ایک نشست وہاں سے جیتے گا تو آئی ایس آئی کے جنرل احسان اور جنرل احتشام ضمیر نے مجھے فون کیا لیکن سازش ہوئی اور علی محمد مہر وزیراعلیٰ بن گئے ۔ ڈیڑھ سال کے بعد وہ ناکام ہوگئے تو ذمہ داری میرے کاندھوں پر آن پڑی۔ میرا دور حکومت انتہائی شفاف تھا۔ کرپشن نہ تھی۔ مختلف جماعتوں کے ارکان نے میری مدد کی۔ وہیں سے میری مشرف سے ملاقاتوںکا آغاز ہوا۔ اسو قت وزیراعظم شوکت عزیز تھے۔ مجھے میرٹ پر وزیراعلیٰ بنایا گیاتھا ہم میں کوئی دوستی نہ تھی میرے متعدد بار مشرف صاحب سے سنگین اختلافات بھی ہوئے۔
** ۰ ایسے کسی اختلاف کی مثال دیں گے؟
**  کالا باغ ڈیم پر میں نہیں مانا لیکن میں اس آمر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اگر کوئی منتخب وزیراعظم ہوتا تو کھڑے کھڑے وزیراعلیٰ کو نکال دیتا۔ میں اسلام پسند تھا، وہ آزاد خیال تھے۔ روشن خیال اعتدال پسند ی کو میں پسند نہیں کرتا تھا۔ مجھے ایک آدھ دفعہ کہا بھی گیا کہ میرا دین اسلام کی تبلیغ کیلئے جانا مشرف صاحب پسند نہیں کرتے لیکن میں نے کوئی پروا نہ کی۔ ان سب چیزوں کے باوجود انہیں میری گڈ گورننس پسند تھی۔ ایم کیو ایم اور پیر پگاڑو چاہتے تھے کہ مجھے ہٹا دیا جائے لیکن مشرف نے انکا مطالبہ نہیں مانا۔ میں نہ تو مشرف کی شام کی محفلوں کا ساتھی تھا نہ میری ان سے کوئی قربت تھی۔مجھے مشرف نے آخر تک برداشت کیا۔ ہم اجلاسوں میں بیٹھتے تھے۔ گھنٹوں بریفنگ چلتی تھی۔ مشرف ہر نقطہ سمجھنے کی کوشش کرتے ۔ پاور پوائنٹ پر دوبارہ چلوا کر دیکھتے تاکہ کوئی سقم نہ رہ جائے۔ کالا باغ ڈیم پر 10اجلاس منعقد ہوئے، ہم نے نہیں مانا ۔میں سمجھتا ہوں کہ کوئی اور وجہ نہیں ہے صرف پنجاب اور سندھ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں اور یہ میاں صاحب کے زمانے میں پیدا ہونا شروع ہوئی تھیں۔چشمہ لنک کینال پر سندھ والوں کی مرضی کے خلاف فیصلہ سنادیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پانی اور برقی توانائی دونوں کے حوالے سے ملک کو ڈیم تعمیر کرنے چاہئیں مگر لوگ نہیں سمجھ رہے۔ سندھ کے لوگوں کو اتنا ورغلایا گیا ہے کہ اب وہ کسی کی بات کا اعتبار نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ ہمارے کچے کے زمیندار جن کی زمینیں سیلاب کی وجہ سے آباد ہوتی ہیں ،اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہیں۔ بیرون ملک بیٹھی ہندوستانی لابی بھی سندھیوں کو رقوم دیکر اس بات پر اکساتی ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کریں۔ ایک اور عنصر ہمارے محکمہ آبپاشی سندھ کا ہے جو سمجھتا ہے کہ پانی کی کمی نہیں ہوگی تو وہ پیسے کس چیز کے لیں گے؟ شخصی طور پر میں کالا باغ ڈیم کا مخالف نہیں ہوں لیکن سندھ کے لوگ اس تعمیر کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مارشل لا یا میاں صاحب کی دو تہائی اکثریت والی حکومت،کیا گیا کوئی بھی فیصلہ تبدیل کردے گی۔
** ۰ بلوچستان کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوپارہا۔ آپ کے خیال میں کیا کیا جانا چاہئے؟
**  کچھ تو ہمارے اداروں کی کمزوری اس مسئلے کا سبب ہے اور کچھ وہاں کا سرداری نظام۔ وہاں کے سردار سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہاں معدنیات زیادہ ہیں اس لئے وہ آزاد ہوکر اپنا الگ ملک چلائیں۔اس میں ہندوستان اور کچھ دوسرے ممالک کا بھی ہاتھ ہے۔
** ۰ کیا اس مسئلے کو بگاڑنے میں ایران پر بھی کچھ ذمہ داری ڈالی جاسکتی ہے؟
**  ایران تو برسوں سے کچھ کرتا آرہا ہے اور پھر وہ ہمارا پڑوسی ملک بھی ہے۔ اس کا بھی ہاتھ ہے۔ اسکے علاوہ بلوچستان کے ہمارے سرداروں کی بھی ایک الگ رائے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب بلوچستان آزاد ہوجائیگا تو انکے اپنے ا پنے ٹکڑے انہیں مل جائیں گے۔ کسی میں کوئلہ ہے ،کسی میں تیل ہے ،کوئی ٹکڑا تانبے کے ذخائر رکھتا ہے۔ کہیں سونے کے ذخائر ہیں، قیمتی پتھر بھی ہیں لیکن اب آہستہ آہستہ بلوچستان کے عوام تبدیل ہورہے ہیں۔ کمیونزم اور سوشلزم کی سوچ ختم ہورہی ہے۔ ذہن اسلامی ہورہا ہے۔ اب وہاں کے عوام گوادر جیسے منصوبوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور احساس کرتے ہیں کہ علیحدگی پسند غلطی پر ہیں۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے سرداروں کی رعایا بھی یہی سوچ رہی ہے۔
** ۰ ان دنوں کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظالم دیکھ کر قوم
محسوس کرتی ہے کہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ میں بات نہیں کی جارہی۔ آپ کو ذوالفقار علی بھٹو رہنما کے طور پر کیسے لگتے تھے؟
**  ہم تو 70کی دہائی سے لیکر بھٹو صاحب کے مخالف رہے ہیں۔ تھوڑا عرصہ ان کے ساتھ بھی رہے۔ بھٹو صاحب بہت ذہین تھے۔ کچھ اقدامات انہوں نے بہت اچھے کئے۔ اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی پھر وہ دستاویز پھاڑ کر آگئے یہ تو پتہ نہیں چلا کہ وہ دستاویز کونسی تھی۔ بنگلہ دیش ٹوٹا، اس کی رپورٹ اب تک منظرعام پر نہیں آئی۔ بنگلہ دیش جاکر آپ لوگوں سے پوچھیں کہ پاکستان کس نے توڑا تو وہ سارا قصہ بتادیتے ہیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہناچاہتا۔ جو بچا کھچا پاکستان تھا اس کیلئے انہوں نے اچھا بھی کیا اور کرپٹ نہیں تھے۔ جس حد تک اب کرپشن ہو چکی ہے ایوب خان کے زمانے میں ایسی نہیں تھی۔ کرپشن اس زمانے میں کچھ ضرور ہوئی میراج طیاروں پر جس حد تک مجھے علم ہے لیکن بھٹو صاحب کی رٹ تھی اپنے وزراء اور حکومت پر۔ اتنی کرپشن نہیں ہوئی جتنی آج ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں کسی نے بینک نہیں بھرے۔ بھٹو کسی کو بخشتے نہیں تھے۔
** ۰ کیا آپ کی بے نظیر بھٹو سے کبھی ملاقات ہوئی تھی؟
**  میں نے 93ء میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور سمجھتا ہوں کہ وہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
** ۰ آپ کو بے نظیر کیسی لگی تھیں؟
** میں ان سے زیادہ قریب نہیں تھا۔ میں نے پی پی پی میں آصف زرداری کی وجہ سے شمولیت اختیار کی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں مگر انہوں نے بھی مجھے مایوس کیا۔ میں بہت جلدی ان سے الگ ہوگیا تھا تاہم وہ جو لوگ کہتے تھے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں ایسی کوئی بات ان میں، میں نے نہیں دیکھی۔ میں یہ سوچ کر پی پی پی میں گیا تھا کہ مل کر اچھا کام کریں گے مگر کوئی اچھا کام تو مجھے وہاں نظر نہیں آیا۔ ** ۰ آپ میثاق جمہوریت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
**  دیکھیں جی یہ مفادات کا معاہدہ تھا کہ تم میری پیٹھ کھجلاؤ میں تمہاری پیٹھ کھجلاتا ہوں اور یہ ابھی تک چل رہا ہے۔ ملک کا خواہ کچھ بھی ہو، ایسا جمہوریت میں ہوتا نہیں ہے۔ کیا ہے میثاق جمہوریت؟ بس غلط او رصحیح کا میثاق جمہوریت ہونا چاہئے۔ یہ عجیب سا میثاق انہوں نے کیا ہوا ہے کہ ایک غلط کرتا رہے ، دوسرا کچھ نہیں کہے گا۔ یہ انہوں نے اس لئے کیا ہے کہ کوئی تیسرا نہ آئے ۔ بھئی آپ غلط کام نہ کرو، کوئی تیسرا نہیں آئیگا۔ مجھ سے میاں صاحب نے پوچھا تھا کہ میں فوجیوں کے ساتھ کیسے چلا تھا۔ میرا جواب تھا کہ2، 4باتیں سخت ہم کرلیتے تھے اور پھر انکی بھی سن لیتے تھے۔ اس باہمی تفہیم سے معاملات حل ہوتے تھے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے ساتھ گزارہ کیا تھا۔
** ۰ کیا آپ کے خیال میں ایم کیوایم ختم ہوچکی ہے؟
**  ابھی تک جو انتخابات ہوئے ہیں ان میں الطاف حسین ہے۔ پارلیمنٹ والی جماعت میں فاروق ستار ہیں۔ یہ اگلے انتخابات کیلئے ٹیسٹ ہونگے۔
** ۰ اور مصطفی کمال بھی اوپر آئے ہیں ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟
**  کمال صاحب باتیں کررہے ہیں ابھی تک انہوں نے کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا۔ انکے ساتھ کچھ اچھے لوگ بھی ہیں۔ باتیں تو وہ بہت اچھی کررہے ہیں۔ وطن کی، عوام کی۔ یہ ضرور ہے کہ وہ الطاف حسین سے الگ الگ رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ووٹ بینک ابھی تک الطاف حسین کیساتھ کھڑا ہے۔
** ۰ تو آپ ابھی تک مسلم لیگ’’ن‘‘کے ساتھ ہی ہیں؟
**  میں انتخابات میں جیتا تھا اپنی سیاسی جماعت بنائی تھی۔ ہم
خیال مسلم لیگ میں ہمایوں اختر ، سلیم سیف اللہ ، حامد ناصر چٹھہ، خورشید محمود قصوری اور کئی دوسرے لوگ تھے پھر الیکشن میں لوگ تتر بتر ہوگئے۔ کوئی میاں صاحب کے ساتھ جانا چاہتا تھا کوئی عمران خان کے ساتھ۔’’ق‘‘ لیگ کے ساتھ کوئی نہیں گیا۔ تو میں نے سندھ میں اپنی جماعت بنائی تھی۔ پیپلز مسلم لیگ جس نے سندھ سے 8لاکھ ووٹ لئے۔ ہمارے جو لوگ ہارے تھے انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا تھا۔ پنجاب میں جتنی دھاندلی ہوئی سندھ میں اس سے زیادہ ہوئی تھی۔
** ۰ عمران خان کا مستقبل کیا ہے؟
** عمران خان کا سیاسی تجربہ نہیں ہے اور وہ اسی کی مار میاں صاحب سے کھا رہے ہیں۔ عمران خان بھی دبئی میں مجھ سے ملے تھے۔ انکا بھی ایک مسئلہ ہے انکا ایک اپنا مزاج ہے اور انہیں سیاست کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ وہ ایک دوست کے ہاں کھانے پر آئے تھے مجھے بھی وہاں مدعو کیا گیا تھا تو وہاں عمران خان اپنے لاہور کے جلسے کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ سونامی آگئی، سونامی آگئی۔ میں 83ء سے ضلع کونسل کے چیئرمین کی نشست پر سے سیاست کررہا ہوں اور عملی سیاست میں یقین رکھتا ہوں۔ میرا خاندان سیاست سے وابستہ رہا ہے تو ہمیں تو علم ہے کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔ تو وہاں کھانے پر بھی خوشامدی لوگ بیٹھے تھے جو واہ واہ کرتے کہہ رہے تھے کہ سونامی آگئی ہے۔ میں نے کہا عمران خان صاحب! آپ اسے سونامی نہ سمجھیں۔ انتخابات کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ یہ ووٹر لسٹ میں نام آنے سے لیکر پولنگ اسٹیشن پر ووٹر کی پرچی کے اجراء اور پولنگ اور پھر نتائج کے فیصلے تک ہے۔ جج کیا نتیجہ بناتا ہے۔ وہ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ امیدوار کے ا پنے اور پھر جماعت کے ووٹ ہوتے ہیں لیکن وہاں خوشامدی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے میری بات نہ سنی تاہم انکی مہربانی کہ مجھے تحریک انصاف میں شمولیت کی دعو ت دیدی۔ میں اسو قت ہم خیال مسلم لیگ میں تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اس جماعت کو چھوڑ کر جائوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی سیاسی جماعت کا اپنا لطف تھا اور آج بھی ہے۔ انکی سیاست میں نوجوان ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں کہ عملی سیاست میں کیا دھاندلیا ں ہوتی ہیں۔ عمران خان جیتے ہوئے ہار گئے اور پھر جب الیکشن کمیشن میں مقدمہ کیا تو وہاں دھاندلی کے ثبوت نہیں دے سکے ۔ ان کے امیدوار غیر تجربہ کار تھے انکے پاس ثبوت ہی نہیں تھے۔ ہمارے ہاں سندھ میں ثبوت تھے بیلٹ پیپر کے ڈھیروں کے ڈھیر تھے لیکن ہمیں کسی نے گھاس ہی نہیں ڈالی۔ پھر پی پی پی نے چالبازی سے ثبوت ہی ضائع کرادیئے۔
آج بھی اگر پیپلزپارٹی عمران خان سے ملتی ہے تو سازشاً ایسا کرتی ہے۔ اس میں میاں صاحب کی مرضی شامل ہوتی ہے۔صرف عمران خان کو غلط راہ پر ڈالنے کیلئے۔ لیکن عمران خان بھی کیا کریں، وہ اپوزیشن میں اکیلے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دیانت دار ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تبدیلی لائے ہیں، وہاں نظام میں تبدیلی لائے ہیں لیکن ترقیاتی کام زیادہ نہیں کراسکے۔ ہمارے نمائندوں کا تو یہی کام رہ گیا ہے کہ کہیں نالی بنوا دی، کہیں رستے کی مرمت کرادی۔ یہ عمران خان کیلئے مسئلہ بنے گا کیونکہ انہوں نے یہ کا م نہیں کرائے۔وہ احتجاج کرتے رہے اور گورننس پر زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ عمران خان نے نظام یقینا بہتر کیا ہے۔پولیس وغیرہ کا ، اسپتال کا اور چونکہ ابھی تک انہیں حکومت نہیں ملی اسلئے ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
** ۰ بلاول بھٹو کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
** ٭ بلاول بھٹو باتیں اچھی کررہے ہیں۔ آصف زرداری سے مختلف باتیں کررہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پاکستانی سیاستدانوں کی طرح جھانسہ دیں گے عوام کو یا نہیں۔ دیکھیں جس پارٹی میں بلاول بھٹو ہیں اسکا ٹریک ریکارڈ کرپشن اور بیڈ گورننس کا ہے۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ وہ اپنی جماعت میں سے ان قباحتوں کو کم کرسکیں گے۔ اگر وہ کر گئے تو ہم ان کو سلام کرینگے۔

شیئر: