Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاحتی ویزے پر تھائی لینڈ جانے والے پاکستانی نوجوان کیسے اغواکاروں کے جال میں پھنس رہے ہیں؟

تھائی لینڈ کی حکومت ٹورسٹ ویزے پر کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان حماد الرحمان تین ماہ قبل ایک خلیجی ملک سے پاکستان پہنچے، اُنہوں نے کچھ دن اپنی فیملی کے ساتھ گزارے اور پھر سیاحتی ویزے پر تھائی لینڈ جانے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ 10 دسمبر کو اسلام آباد سے تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک کے لیے روانہ ہوئے۔ بینکاک پہنچنے کے بعد اُنہوں نے ایئرپورٹ کے باہر سے ایک ٹیکسی بُک کروائی اور اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ تاہم ٹیکسی ڈرائیور حماد الرحمان کو گن پوائنٹ پر ہوٹل کی بجائے میانمار اور تھائی لینڈ کی سرحد پر لے گیا۔
یوں سیاحتی ویزے پر تھائی لینڈ جانے والے حماد الرحمان جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ گئے، جو گزشتہ دو ماہ سے میانمار اور تھائی لینڈ کے سرحدی علاقے میں ہی موجود ہیں۔
اُنہوں نے یہ روداد پاکستان میں اپنے خاندان کو فون کال پر سنائی جو اغواکاروں نے اُنہیں اپنے آبائی ملک سے چار ہزار  ڈالر منگوانے کے لیے ملا کر دی تھی۔
حمادالرحمان کے چھوٹے بھائی فرحاد الرحمان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایف آئی اے اور وزارت خارجہ سے میانمار میں قید پاکستانی شہریوں کو بازیاب کروانے کے لیے بارہا درخواست کر چکے ہیں، تاہم اُن کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
حالیہ دنوں پاکستان سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جانے والے شہریوں کے ساتھ اسی طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
اس وقت درجنوں پاکستانی میانمار، کمبوڈیا اور دیگر ممالک میں غیرقانونی گروہوں کے شکنجے میں ہیں، جو پاکستان سے ان ممالک میں ملازمت کی تلاش کے لیے گئے تھے۔
اس حوالے سے پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’میانمار اور اُس کے پڑوسی ممالک کے کچھ علاقوں میں ریاستی رٹ قائم نہیں ہے، اور انہی علاقوں میں اس طرح کے غیرقانونی گروہ کام کر رہے ہیں جو پاکستان سمیت مختلف ممالک سے نوجوانوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر پھنسا لیتے ہیں۔ تاہم پاکستان نے مقامی حکومتوں کی مدد سے اپنے کچھ شہری بازیاب بھی کروائے ہیں اور اس سلسلے میں مزید کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔‘

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھی ایسے علاقے ہیں جہاں حکومت کی عملداری نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہرین سمجھتے ہیں کہ میانمار سمیت جنوب مشرقی ممالک میں جرائم پیشہ عناصر پاکستان سے نوجوانوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر بلاتے ہیں اور پھر اُن سے غیرقانونی کام لیتے ہیں۔ چونکہ تھائی لینڈ کی حکومت سیاحتی ویزے پر کام کرنے کی اجازت دیتی ہے، اس لیے لوگ ٹورسٹ ویزے پر ہی وہاں چلے جاتے ہیں اور پھر مجرمانہ گروہوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔
مغوی افراد کے اہلِ خانہ کا ایف آئی اے اور وزارت خارجہ کے عدم تعاون کے بعد ہائیکورٹ سے رجوع 
فرحاد الرحمان نے اپنے بھائی کی رہائی کے لیے کئی دنوں تک مختلف سرکاری دفاتر کے چکر لگائے تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے اُنہیں صرف زبانی تسلیاں ہی دی گئیں اور کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔
اس صورتحال کے بعد اُن سمیت دیگر 20 سے 24 افراد نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے، جہاں سے اب ہمیں مدد ملنے کی اُمید ہے۔
‘اغوا کار تاوان طلب کرتے ہیں اور عدم ادائیگی کی صورت میں بھائی کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں‘
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں جب ہم سے رقم کا مطالبہ کیا گیا تو اغوا کاروں کو چار ہزار ڈالر بھیجے گئے، تاہم بعد میں مزید رقم ادا نہیں کی۔

اغواکار حماد الرحمان کے اہل خانہ سے مزید رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم سے مزید رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں بھائی کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہے۔
تھائی لینڈ سے اغوا ہونے والے پاکستانی شہریوں کے معاملے پر وزارت خارجہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ کچھ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے بعض علاقوں میں ریاست کی رٹ قائم نہیں ہے، جہاں غیرقانونی گروہوں کی جانب سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کے شہریوں کو اپنی حراست میں رکھا جاتا ہے۔
وزارت خارجہ نے یہ کہا کہ ان میں سے کچھ پاکستانی ایسے بھی ہیں جو اپنی مرضی سے وہاں کام کرکے معاوضہ حاصل کر رہے ہیں۔
تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل عمر عابد کے مطابق انسانی سمگلر اور جرائم پیشہ گروہ ایسے ممالک کے نوجوانوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر اپنے پاس بلاتے ہیں جہاں روزگار کے مواقع کم ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ نہ صرف پاکستان سے بلکہ دوسرے ممالک میں موجود پاکستانیوں کو بھی زیادہ تنخواہ دینے کی اُمید پر ان ممالک میں بلایا جاتا ہے اور پھر اُن سے اپنی مرضی کے کام کروائے جاتے ہیں۔

وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان نے مقامی حکومتوں کی مدد سے اپنے کچھ شہری بازیاب بھی کروائے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عمر عابد کا کہنا تھا کہ یہ منظم گروہ تھائی لینڈ، میانمار، کمبوڈیا اور ویتنام میں سرگرم ہیں اور وہ دوسرے ممالک سے آنے والے نوجوانوں کو اپنے ساتھ دور دراز کے علاقوں میں لے جاتے ہیں جہاں حکومتوں کی عملداری نہیں۔
اُنہوں نے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی کہ ایسے عناصر کچھ غیرملکی شہریوں کو اپنے کام میں شامل کر لیتے ہیں جو پھر اُن کے لیے اپنے ممالک سے مزید نوجوان بلانے کا کام کرتے ہیں اور اس طرح اپنے غیرقانونی کاموں کا ایک بڑا نیٹ ورک بنا لیتے ہیں۔
عمر عابد نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان بیرون ملک نوکری کے حصول کے لیے جانے سے قبل اچھی طرح چھان بین کر لیں تاکہ اُن کے ساتھ کسی قسم کی دھوکہ دہی نہ ہو۔

 

شیئر: