اس عظیم ہستی نے انسانوں کی اتنی خدمت کی کہ وہ تمام انسانیت کو اپنا مقروض کرگئے
* * * * عنبرین فیض احمد۔ ریاض* * * *
عبدالستار ایدھی وطن عزیز کا ایک بہت بڑا نام ، جو شاید دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہی پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے انسانوں کی خدمت کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنائے رکھا۔آج انہیں جہان فانی سے رخصت ہوئے ایک برس بیت چکا ہے مگر پاکستانیوں کے لئے ان کی خدمات آج بھی ہر کسی کے ذہن میں انمٹ نقش کی طرح موجود ہیں۔بلا شبہ عبدالستار ایدھی جیسے انسان دنیا میں خال خال ہی موجود ہوتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی ایک متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص تھے ۔انہوں نے رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر دکھی انسانیت کی مثالی خدمت کی ۔شاید ایسی ہی ہستیوں کے لئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھاکہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ایدھی صاحب ایک ایسے سادہ مزاج انسان تھے ۔ وہ لازوال کردار کے مالک تھے۔ انہوں نے صحیح معنوں میں خود کو غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لئے وقف کر رکھا تھا۔گزشتہ برس جب ان کا جنازہ تدفین کے لئے لے جایاگیا تومیڈیا کے توسط سے دنیا بھر کے لوگوں نے دیکھا کہ ان کے جنازے میں لوگوں کی کتنی بڑی تعداد شریک تھی ۔وہ بلا شبہ تمام پاکستانیوں کیلئے ایک غیر متنازعہ ہستی تھے۔ ہر دل میں ان کی عزت و احترام پایاجاتا ہے۔ ایک جانب ہمارے صاحبان ہیں جنہیں اپنا اور اپنے اہل و اعیال کا پیٹ اور تجوریاں بھرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔دوسری جانب ایدھی تھے کہ جب ہمارے بے حس معاشرے میں بسنے والے بعض سنگدل لاوارث بچوں کو سڑک کے کنارے پھینک رہے تھے توانسانی ہمدردی سے معمور عبدالستار ایدھی ان لاوارثوں کے وارث بن کرانہیں سائبان فراہم کر رہے تھے۔ جب ملک کے طول و عرض میں دہشتگردی کے بل پرلاتعداد افراد سے جینے کا حق چھینا جا رہا تھا ،اس وقت ایدھی صاحب کی نجی ایمبولینس سروس لوگوں کی اکھڑتی سانسیں بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ جب کبھی یتیم بچوں کے لئے یہ دنیا تنگ ہوتا، ان کا جینا دوبھر ہوتا توکہیں نہ کہیں سے ایدھی صاحب کا دست شفقت ان کے سروں پر پہنچ جاتا اور نتیجتاً ان میں جینے کی امنگ پیدا ہو جاتی۔
اسی طرح جب ماں جیسی محبت کرنے والی ہستی کے لئے ممکن نہ رہتا کہ وہ اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکے تو ایدھی صاحب کا لنگر ان یتیموں، غریبوں ، بیواؤں کو کھانا کھلاتا۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں کسی خاتون پر اس کا شوہر ظلم کرتا اور اسے گھر سے نکال دیتا یا ضعیف والدین کو ان کی اولاد اپنے گھر سے نکال باہر کرتی اور ان پر دروازے بند کردیتی تو اس وقت بھی ایدھی کے شیلٹر ہومز کے دروازے ان پر کسی معاوضے کے بغیر وا ہو جاتے ۔
* عبدالستار ایدھی نے 6دہائیوں تک خدمت خلق کی مثالیں قائم کیں اور بالآخر نیکیاں سمیٹتے سمیٹتے 8جولائی 2016ء کو یہ انسانی خدمتگار اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ایسے لوگوں کے لئے ہی کہا جاتا ہے کہ :
’’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘
* ایدھی کی وفات کی شکل میں محبت اور خدمت کا ایک دور ختم ہوگیااور ہمارا ملک، ہمارا وطن پاکستان، ایک بار پھر یتیم ہو گیا۔ ان کی وفات پر بے شمار تحریریں شائع ہوئیں۔ ان کی شخصیت کا کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس کا ذکر نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی میڈیا نے بھی نہ کیا ہو ۔ وہ ایسی شخصیت تھے کہ جب تک زندہ رہے ، انسانی خدمت میں کمال کرتے رہے اور بعداز مرگ دنیا کے لئے مثال بن گئے۔ ان کی عظمت کو پوری قوم نے سلام پیش کیااور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ ایدھی دنیا سے جاتے جاتے پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو گئے۔ ہم پاکستانی خوش نصیب ہیں کہ ہمارے درمیان عبدالستار ایدھی جیسے انسان موجود تھے۔دنیا کی دوسری اقوام میںان جیسی بے لوث شخصیت شاید چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ مل پائے۔ انسانیت کی خدمت کے دوران ایدھی نے جو کارنامے انجام دیئے ، دنیا بھر کے اعزازات یکجا کر کے اگر انہیں پیش کردیئے جائیں تو بھی وہ ان کی عظمت کے سامنے ہیچ رہیں گے۔
عبدالستار ایدھی کے پاس نہ کوئی میڈیا مینجمنٹ سیل تھا اور نہ ریاستی مشیر، پھر بھی لوگ ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ اتنا اعتماد تو لوگ اپنی ریاست پر نہیں کرتے ۔لوگوں کے اعتماد اور بھروسے کا یہ عالم تھا کہ وہ نوٹوں کی گڈیاں،تھیلے اور بوریاں یوں ہی ایدھی سنٹر میں رکھ جاتے تھے۔ یہ اعتماد اور بھروسہ انہوں نے ایک دن میں حاصل نہیں کیا بلکہ یہ اعزاز انہیں60برس تک بے لوث خدمت کرنے کے بعد ملا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ عبدالستار ایدھی اپنی قوام کے ساتھ اعتبار اور اعتماد کاجو رشتہ استوار کرگئے، اسے کسی صورت ٹھیس نہیں لگنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ایدھی کی انسانیت دوستی پر مضامین نصاب میں شامل کئے جائیں تا کہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو سکے کہ ہماری قوم میں کیسے کیسے ہیرو گزرے ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر سال 8جولائی کو ملک بھر میں ایدھی ڈے منایا جائے اور اس دن بچوں اور بڑوں سب پر زور دیاجائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فلاحی کام کریں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں فلاحی اور رضاکارانہ کاموں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کے برعکس مغربی ممالک میں’’رضاکارانہ خدمات‘‘ سال بھر کی سرگرمیوں کا لازمی حصہ تصور کی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک کے بچوں میں بھی یہ جذبہ بیدار کرنے اور انہیں رضاکارانہ خدمات کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچے کے کسی مضمون میں نمبر کم آجائیں تو والدین بڑے فکر مند نظر آتے ہیں مگر اپنے بچوں کے فلاحی اور رضاکارانہ کاموں کے بارے میں بازپرس نہیں کرتے۔ جس طرح ایدھی صاحب کی والدہ نے بچپن سے ہی ان میں لوگوں کی مدد کا جذبہ پیدا کیا ، نتیجتاً وہ ساری دنیا کے سامنے ایک مثال بنے اور دنیا سے چلے گئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال میں قوم، کسی سیاست کی بجائے بابائے خدمت عبدالستار ایدھی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے مسائل حل کرے کیونکہ غریبوں اور خصوصاً متوسط طبقے کے لوگ اس وقت سنگین مالی و معاشرتی مسائل کا شکار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے اس مشن کو جاری و ساری رکھا جائے اور اس میں اپنا حصہ ڈالاجائے ۔ایدھی جیسی ہستی کی یاد ہر دل حساس دل میں کسی کسک کی طرح موجود رہے گی۔
ایدھی صاحب نے انسانوں کی اتنی خدمت کی کہ وہ تمام انسانیت کو اپنا مقروض کرگئے۔اب یہ ہم سب کا فرض ہے کہ وہ جو چراغ روشن کر گئے، اسے روشن رکھیں۔ انہوں نے انسانی خدمت کا جودرس ہمیں دیا ، اسے ہم یاد رکھیںتا کہ ہرکسی کی زندگی آسان ہو جائے ۔
کہا جاتا ہے عبدالستار ایدھی دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی دولت 2400کے قریب ایمبولینسز ، 3ائیر ایمبولینس ،300ایدھی سنٹرز ، 8اسپتالوں اور خدمت خلق کیلئے وقف کر دی تھی۔ اپنی ساری زندگی ، اپنا سکون ، اپنا آرام ، اپنے اہل و عیال سب کچھ خدمت خلق کے لئے قربان کر دیئے او ردنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اپنی آنکھیں انسانیت کی خدمت پر نچھاور کر دیں۔
دیکھا جائے تو ایدھی وہ شخض ہیں جنہوں نے سخاوت کی ایک نئی مثال قائم کی ۔ وہ بلا شبہ فخرِ پاکستان تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ عبدالستار ایدھی کو جنت الفردوس میں بلند ترین مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی انسانیت کی خدمت کی ت وفیق عطا فرمائے،آمین۔