ویمنزورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی ناکامی، پی سی بی انتظامیہ کی کارکردگی بھی دیکھنا ہوگی، تجزیہ
لاہور: ویمنز ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی ناکامی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے روایتی انداز میں کپتان ثنا ءمیر پر ملبہ گرا کر ناکامیوں کی اصل وجوہ اور اس کے ذمہ داروں کو بچانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔اس تناظر میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بورڈ انتظامیہ صرف کپتان ثناءمیر پر الزامات کا ڈھیر لاد کر اور کوچ کو برخاست کرکے اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل نہیں کر سکتی۔ پی سی بی کی اعلیٰ انتظامیہ نجم سیٹھی، شہریار خان، ایزد سید اور شمسہ ہاشمی کو سب سے پہلے اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔کیا پی سی بی نے تمام کھلاڑیوں کو اتنے وسائل، سہولیات، کوچنگ، تربیت اور دیگر مدد فراہم کی ہے کہ جس کی بنا پر وہ ٹیم سے ورلڈ کپ جیتنے کی توقع کر سکے؟اس لیے کپتان اور ٹیم نہیں بلکہ پی سی بی کے اعلیٰ عہدیدار ہی شکست کے اصل ذمہ دار ہیں۔تجزیہ نگار کے مطابق ثنا میر پر الزام ہے کہ انہوں نے ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی پیش کی اس لئے وہ قیادت اور ٹیم میں اپنی جگہ سے محروم ہو سکتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ کے کرتا دھرتا صرف مینز ٹیم کی کامیابی کو کیش کرانے کے چکر میں رہے اور انہوں نے و یمنز ٹیم کے میچز دیکھے ہی نہیں۔ اس لئے ثنا میر کی کارکردگی کو خراب کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ پاکستانی ٹیم اس ورلڈ کپ کی سب سے کم عمر اور کم تجربہ کار ٹیموں میں سے ایک تھی، مگر اس کے باجود ٹیم نے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا۔ عالمی مقابلے کے لیے کوالیفائی کرنا ہی ہماری ٹیم کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ہماری ٹیم ان ٹیموں کے خلاف میدان میں اتری جو پاکستانی ٹیم کی تشکیل سے بھی دہائیوں قبل سے کرکٹ کھیلتی آ رہی ہیں اور ان ٹیموں کو پاکستانی ٹیم سے کئی گنا زیادہ وسائل اور سہولیات بھی حاصل ہیں۔ اس کے باوجود بھی پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کو شکست کے کافی قریب لے آئی، ہندوستانی ٹیم کو ٹورنامنٹ میں اس کے سب سے کم ترین اسکور 169 رنز تک محدود کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ وہ ٹیمیں جو پاکستان کے ہم پلہ کہی جا سکتی ہیں، ان کے ہاتھوں اگر پاکستان نے شکست بھی کھائی ہے تو کسی بڑے مارجن سے نہیں ۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف (ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت) صرف 19 رنز اور سری لنکا کے خلاف صرف 15 رنز سے میچ ہاری تھی۔ کئی میچز میں پاکستان کی بولنگ اور فیلڈنگ کہیں شاندار تھی تو کہیں بہتر، البتہ بلے بازی کمزور تھی اور بسمہ معروف کے زخمی ہونے سے مزید متاثر بھی ہوئی۔بسمہ معروف کی انجری اور ان کی تبدیلی نے واضح کر دیا کہ ہمارے اضافی کھلاڑیوں میں کھیل کا معیار اتنا بہتر نہیں ہے جتنا بہتر ٹاپ ٹیموں کے اضافی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ بلے بازی نے بھی یہ آشکار کر دیا کہ ٹیم کی کوچنگ کس قدر غیر مو¿ثر رہی تھی۔ڈیانا بیگ کا یہ پہلا ٹورنامنٹ تھا، وہ اپنی بولنگ اور زبردست فیلڈنگ کے ساتھ دیگر نوجوان کھلاڑیوں میں ممتاز نظر آئیں لیکن تمام میچوں میں ناکامی کے باوجود بھی ٹورنامنٹ کی پاکستانی اسٹار، ٹیم کی کپتان ثنا میر ہی ثابت ہوئیں۔ 30 سے زائد رنز کی اوسط کے ساتھ ثنا سب سے زیادہ بلے بازی اوسط رکھنے والی کھلاڑی ہیں جبکہ انہوں نے بولنگ اور بلے بازی میں ٹیم کو سہارا دیا، حتیٰ کہ ان میچوں میں بھی جن میں ٹیم کی بیٹنگ ریت کی دیوار ثابت ہوئی تھی۔انہوںنے 6 کیچ پکڑے، ان میں سے ایک کیچ کو” کیچ آف دی ڈے“ بھی قرار دیا گیا۔ انہوں نے سب سے زیادہ وکٹیں لیں، دو کیچ پکڑے اور عالمی نمبر ایک ٹیم آسٹریلیا کے خلاف میچ میں سب سے بڑا اسکور بنایا۔جبکہ اس میچ میں پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا اسکور 21 تھا۔ ثناءمیر نے کرکٹ کے تمام شعبوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ زبردست کارکردگی پیش کی۔ آئی سی سی کے اعداد و شمار بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔وہ واحد پاکستانی خاتون کھلاڑی ہیں جو آل راو¿نڈرز کی عالمی رینکنگ میں 10 ویں نمبر پر اور بولنگ کی عالمی رینکنگ میں 12 ویں نمبر پر ہیں۔ ثناءمیر دنیا کی چھٹی اور واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جو 100 وکٹ لینے اور 1000 رنز بنانے کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ ورلڈ کپ کے دوران کمنٹیٹر نے بھی ثناءمیر کی کارکردگی پر کئی بار داد دی۔ ان کے مطابق تمام کپتانوں میں سے ثناءنے اپنی ٹیم کی بہترین انداز میں رہنمائی کی ہے۔اس پر کرکٹ بورڈ کا یہ عندیہ دینا کہ ثناءمیر کو کپتانی اور ٹیم چھوڑ دینی چاہیے، سوائے ایک بھونڈے مذاق کے اور کچھ نہیں۔تجزیہ نگار نے سوال کیا کہ کون صرف ایک ناکامی کے بعد بہترین کارکردگی پیش کرنے والی اور سب سے زیادہ رینکنگ رکھنے والی کھلاڑی کو ٹیم سے باہر کرنا چاہے گا؟ اگر تمام میچوں میں ناکامی کا بوجھ صرف اکلوتی کپتان پر ڈالا جا رہا ہے تو پھر ذرا یہ بھی بتا یا جائے کہ نجم سیٹھی کس کام کے لیے بیٹھے ہیں؟ چیئرمین شہریار خان کا کردار کیا ہے؟ سیکریٹری وومن ونگ شمسہ ہاشمی کیا کر رہی ہے؟ کوچ کی کیا ذمہ داری ہے؟ ٹیم انتظامیہ کس بات کی تنخواہ لے رہی ہے۔بلاشبہ ٹیم کی کارکردگی کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام کھلاڑیوں، بشمول کپتان کو اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے اندر مزید بہتری اور پختگی پیدا کر سکیں لیکن صرف کپتان کو تمام صورتحال کا ذمہ دار قرار دے کر نشانہ بنانا کوئی انصاف نہیں۔