Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرائض کے دوران پنجابی کی ’بدتمیزی‘ کیوں؟

پنجابی بولنے پر بدتمیزی کی شاکی خاتون کی ویڈیو پر صارفین کے تبصرے: فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستانی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر ایک ایسی وڈیو کا چرچا ہے جس میں پولیس نے گاڑی چلانے والی خاتون کو روکا تو انہوں نے اس پر عجیب ردعمل دیا۔
اس ویڈیو کلپ میں خاتون کی پولیس اہلکاروں سے گفتگو سنی اور دیکھی جا سکتی ہے۔ خاتون کو شکوہ تھا کہ پولیس اہلکار نے ان سے پنجابی بول کر بدتمیزی کا ارتکاب کیا ہے۔
ان سے مبینہ بدتمیزی کا پوچھا گیا تو خاتون کا کہنا تھا کہ ’پولیس والے نے مجھے کہا، میڈم جی، آپ ذرا آرام سے شیشہ نیچے کر کے بات کریں۔‘
اپنی برہمی کا سبب بیان کرتے ہوئے کار سوار خاتون کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے والا ’وہ کون ہے؟ یہ بدتمیزی ہے اسے معافی مانگنی چاہیے۔‘
خاتون سے پوچھا گیا کہ پولیس اہلکار نے آپ سے کیا مانگا؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’مانگنا نہیں چاہ رہے تھے، انہوں نے پنجابی میں مجھ سے کچھ غلط کہا ہے، انہیں کسی اچھی زبان میں بات کرنا چاہیے تھی‘۔ پھر سوال ہوا کہ آپ بھی تو اتنا چیخ رہی ہیں؟ جس پر انہوں نے موقف اپنایا کہ ’میں چیخوں گی نہیں، ایک لڑکی سے اس طرح  کی زبان میں بات کریں گے تو لڑکی ہائپر نہیں ہو گی؟ کوئی سینس آف ہیومر ہوتا ہے۔‘
پولیس اہلکاروں اور خاتون کی تلخ کلامی کے مناظر سوشل میڈیا تک پہنچے تو صارفین نے ان پر سوالات اور تبصروں کی بوچھاڑ کر دی۔
پاکستانی ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی نے توقع ظاہر کی کہ ’فقط پانچ منٹ مزید مکالمہ جاری رہتا اور پولیس اہلکار قانونی کارروائی جاری رکھتا‘ تو شاید وہ خود پنجابی بولنا شروع کر دیتیں۔

بلاگر اور کرکٹ تجزیہ کار مہوش بھٹی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں باہر جاؤں تو عوامی مقامات پر پنجابی ہی میں بات کرتی ہوں، کیا ایسا کرنا گالی ہے؟‘

 ٹوئٹر صارفین میں سے  کسی نے ویڈیو میں ایک کرائم رپورٹر کی موجودگی کی نشاندہی کی، تو کسی نے ’صحافی پر بھی بدتمیزی کا مقدمہ درج ہونے‘ کی خبر دے ڈالی۔ گلاب جانم نامی ہینڈل نے اقرار کیا کہ وہ ’اپنی ہنسی روک نہیں پا رہیں‘۔

کچھ صارف ایسے بھی تھے جو اپنے جملوں کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بننے والی خاتون کو خوش قسمت قرار دیتے رہے۔
مریم ملک نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’وہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر بات بھی کر سکتی ہیں، پھر وہ پولیس اہلکار پر چلا بھی سکتی ہیں۔ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ اگر وہ یہاں مقیم ہوتیں تو فون کے استعمال پر 220 ڈالر کا چالان ہوتا اور فرمانبرداری کا مظاہرہ نہ کرنے پر 500 ڈالر مزید یا ہفتے بھر کی پروبیشن بھگتنا ہوتی۔

ویڈیو مناظر اور خاتون کار سوار کا ردعمل پاکستانی ٹائم لائنز کی سرحد عبور کر کے پڑوسی ملک بھی جا پہنچا۔ ایک صارف نے ’اچھی پنجابی سیکھنے کے لیے‘ خاتون کو انڈین پنجاب مدعو کیا، تو ایک اور نے انہیں ذہنی صدمے کی وجہ سے قابل معافی قرار دیا۔
کچھ صارفین ویڈیو میں اسلام آباد پولیس کی جگہ پنجاب پولیس کی موجودگی کے خواہاں دکھائی دیے۔ شعیب نامی ہینڈل نے لکھا کہ ’کاش پنجاب پولیس ہوتی‘ جس پر ارم چوہدری نامی صارف نے پوچھا کہ کیا ’پنجاب پولیس کا سینس آف ہیومر زیادہ اچھا ہوتا ہے؟‘

  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: