Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سادہ فیشن کے عبایے کو نئی شکل، عربی ثقافت اور مغربی رنگ

 بیلجیئم کے سفارت خانے میں خلیکی چک کلیکشن پیش کیا گیا ہے( فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کی شہزادی صفیہ حسین اور بیلجیئم کے ڈیزائنر کرسٹوف بیوفیس نے لومار برانڈ کے ساتھ اشتراک کرکے ایک سادہ فیشن کےعبایے کو نئی شکل دی ہے۔
ڈیزائنرز نے بیلجیئم کے سفارت خانے میں سنیچر کو منعقدہ نجی فیشن شو میں خلیکی چک کلیکشن پیش کیا۔
فیشن لائن روایتی عبایہ کو لے کر اسے ایک بین الاقوامی گارمنٹ میں تبدیل کرتی ہے جس میں عربی کے ثقافتی اثر و رسوخ کو متنوع مغربی رنگ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے تاکہ کہیں سے بھی تعلق رکھنے والی تمام خواتین کے لیے عبایا بنایا جا سکے۔

فیشن لائن روایتی عبایہ کو ایک بین الاقوامی گارمنٹ میں تبدیل کرتی ہے(فوٹو عرب نیوز)

کرسٹوف بیوفیس نے عرب نیوز کو بتایا  ’ہم نے شہزادی صفیہ اور لومار کے مابین اشتراک کی نمائش کی ہے تاکہ عبایہ کا ایک مجموعہ دکھایا جا سکے جو سعودی اور مغربی ثقافت، جدیدیت اور روایات دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔
بیلجیئم کے ڈیزائنر نے کہا ’ ہمیں امید ہے کہ صرف سعودی یا عرب خواتین ہی اسے نہ پہنیں بلکہ یہ عبایہ مغربی اور سعودی لباس کے مابین ایک ملاپ ہے جس کی وجہ سے دنیا کی تمام خواتین مختلف مواقع پر اسے پہننا چاہتی ہیں۔
فیشن لائن کے اجرا سے عبایہ کی ایک گلوبل گارمنٹ کی حیثیت سے نئی تعریف کی گئی ہے جو تمام خواتین کے لیے خوبصورتی اور شائستگی کی علامت ہے۔
مغرب میں اب بھی کچھ لوگ عبایہ کو جبر یا آزادی کی کمی کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کی خوبصورتی اور شائستگی کو سمجھتے نہیں ہیں۔ بین الاقوامی اثر و رسوخ اور رنگوں کو ملا کر عبایہ کو قدامت پسند فیشن میں انفرادیت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

عبایہ کی ایک گلوبل گارمنٹ کی حیثیت سے نئی تعریف کی گئی ہے(فوٹو عرب نیوز)

کرسٹوف بیوفیس نے مزید کہا ’ عبایہ کو میڈیا میں قدرے منفی شے کے طور پر دکھایا گیا ہے اور ہم صرف اس کے مثبت پہلو کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ دراصل ایک بہت ہی خوبصورت لباس ہے جس میں لوازمات کا اضافہ کر کے اسے بہت ہی خوبصورت، روایتی بلکہ جدید وضح داری میں بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔‘
’لہذا عبایہ کی منفی شبیہہ کو مثبت، تفریح، خوبصورت اور ایسی چیز میں تبدیل کرنا ہے جسے تمام خواتین ہی پہننا چاہتی ہیں نہ کہ صرف عرب خواتین۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ایسی مخصوص لائن بنانے کے لیے کس طرح حوصلہ افزائی کرتی ہیں تو شہزادی صفیہ نے کہا ’میری ماں، آپ کی ماں، میری بہن، میری بیٹی، ہم خواتین، تمام خواتین، یہ ہم ہیں۔ میں انھیں صرف یہ بتا رہی تھی کہ میں مغرب میںعبایہ اورحجاب کی بدنامی اوراس کے ساتھ رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے اکتا چکی ہوں لہذا میں نے سوچا اگر اس میں کچھ وضع دار، کچھ ٹیلرنگ اور کسی سٹائل کو لاؤں تو اس سے امیج ضرور بدل جائے گا۔‘

عبایہ کو میڈیا میں قدرے منفی شے کے طور پر دکھایا گیا ہے(فوٹو عرب نیوز)

جب خواتین سعودی عرب سے باہر سفر کرتی ہیں تو  وہ عام طور پر اپنی عبایہ اتار دیتی ہیں لیکن لائن کے ڈیزائنرز نے ایک قدامت پسندانہ سٹائل تیار کیا جو کسی بھی ثقافت کے لیے بین الاقوامی اور سجیلا ہے۔
اب جب خواتین سفر کرتی ہیں تو وہ نئی طرز کے عبایہ میں ملبوس ہوں گی چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔
شہزادی صفیہ نے کہا ’جب میں سفر کرتی ہوں،جب میں نیویارک، پیرس یا لاس اینجلس جاتی ہوں تو میں عام طور پر ہوائی جہاز میں عبایہ کو اتار دیتی ہوں لیکن اب میں اسے اتارنا نہیں چاہتی ہوں۔ میں عبایہ کے ساتھ باہر آ کر فخر محسوس کرنا چاہتی ہوں جس طرح آپ نے آج انہیں دیکھا۔ میں چا ہتی ہوں کہ میری بہنیں سعودی یا خلیجی بہنیں اور پوری دنیا میں میری بہنیں فخر کریں کیونکہ ہم فخر کرنا چاہیے۔

میں عبایہ کے ساتھ باہر آ کر فخر محسوس کرنا چاہتی ہوں(فوٹو عرب نیوز)

لومار کے بانی لوئی نسیم اور ان کی اہلیہ مونا الہداد نے عرب نیوز کو بتایا ’ہم اپنی روایت کو بین الاقوامی منڈی میں لے کر عبایا کو مملکت سے باہر منتقل کرنا چاہتے تھے تاکہ لوگوں کو دکھایا جا سکے کہ یہاں سعودی عرب میں ہمارے پاس کیا ہے۔ ہم عبایہ کے رنگ کو سیاہ سے تبدیل کرنا چاہتے تھے اور کچھ رنگ اور تراکیب شامل کرکے اسے جدید فیشن میں منتقل کرنا چاہتے تھے جو آپ نے آج دیکھا ہے۔‘
شہزادی صفیہ نے عبایا کی شائستگی اور روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید موڑ کے ساتھ لائن بنانے کے کام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’عبایہ میری شناخت بن گئی ہے اور مجھے اس کی شائستگی کے پیچھے کا پیغام پسند ہے۔‘
مجھے امید ہے کہ اس کو معمولی سا سٹائل، خلیکی چک‘ دے کر اس کا اثر پڑے گا۔
’یہ میرا خواب ہے کہ اس کا اثر پڑے گا کیونکہ اب عبایہ کے بارے میں مثبت بات آ رہی ہے منفی نہیں۔

شیئر: