Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلم کھو گئے ہم کہاں: سوشل میڈیا کی ’فریبی دنیا کا رئیلٹی چیک‘

فلم کیا کہانی یہ پیغام دیتی ہے کہ زندگی کو ’فلٹر‘ لگائے بغیر جینا سیکھیں (فوٹو:سکرین فریب)
سوشل میڈیا کی دنیا بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ اگر کسی کا پیج یا پروفائل آپ کو پسند ہے تو آپ اسے فالو کرتے ہیں لیکن اکثر لوگ ان شخصیات کے پروفائل کو بھی فالو کرتے ہیں جو انہیں پسند نہیں ہوتیں۔
انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُن کی طرح نہیں بن سکتے لیکن وہ روز ان کی پوسٹ دیکھتے ہیں اور کڑھتے رہتے ہیں، پھر حسد میں مبتلا ہو کر کسی کی پوسٹ پر غیر اخلاقی کمنٹ کرنے لگتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسی سوال کے جواب کا کھوج لگاتی ہے حال ہی میں نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے والی یہ فلم ’کھو گئے ہم کہاں۔‘
فیس بک، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ اور اسی طرح کی دوسری سوشل میڈیا ایپس نے انسان کی حقیقی دنیا کے متوازی ایک اور دنیا لا کھڑی کی ہے جس کے فریب سے بچنا روز بہ روز ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
رہی سہی کسر سوشل میڈیا ’انفلوئنسر‘ نامی ’مہا فریبی‘ ٹولے نے پوری کر دی ہے جو خود تو کسی کمپنی کے سپانسر شدہ ہوتے ہیں لیکن عام لوگ ان کی دیکھا دیکھی اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ایسے انفلوئنسرز کی زندگی کی حقیقت سے بھی یہ فلم پردہ اٹھاتی ہے۔ 
فلم کی کہانی تین بچپن کے دوستوں آہانا (اننیا پانڈے)، عماد (سدھانت چترویدی) اور نیل (آدرش گورو) پر مبنی ہے جو  عمر کے پچیسویں حصے میں زندگی، رشتوں اور ایک محفوظ مستقبل یقینی بنانے کی گُتھیوں کو سلجھا رہے ہیں جس میں سوشل میڈیا قدم قدم پر ان کی راہ میں حائل ہو رہا ہے۔
آہانا ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے منسلک ہے جبکہ عماد ایک ابھرتا ہوا سٹینڈ اپ کامیڈین ہے اور نیل ایک جم ٹرینر۔ 
آہانا اپنے بوائے فرینڈ سے بریک اپ کے بعد اُسے دوبارہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے جس کے لیے وہ سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔
اس کے برعکس عماد کوئی بھی رشتہ بنانے اور نبھانے سے گھبراتا ہے جس کی وجہ بچپن میں پیش آنے والے کچھ واقعات ہیں۔ نیل اپنا ذاتی جم بنانے کے لیے کوشش کر رہا ہے جس میں باقی دونوں دوست اس کا ساتھ دینے کی ہامی بھر لیتے ہیں۔
آہانا اپنی نوکری چھوڑ دیتی ہے اور عماد اپنا جمع شدہ سرمایہ نیل کے بزنس میں لگانے کو تیار ہے لیکن پھر عماد سے ایک ایسی حرکت سرزد ہو جاتی ہے کہ دوستی کے اس رشتے میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔

اس فلم میں آپ کو ’دل چاہتا ہے‘ اور ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ جیسی فلموں کی جھلک بھی نظر آئے گی (سکرین گریب)

یہ تینوں دوست اس کا کیا حل نکالتے ہیں اور سوشل میڈیا کا اس بارے میں کیا کردار رہتا ہے یہ جاننے کے لیے فلم ملاحظہ فرمائیں۔
اس فلم میں آپ کو ’دل چاہتا ہے‘ اور ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ جیسی فلموں کی جھلک بھی نظر آئے گی جس کی وجہ فرحان اور زویا اختر کا اس فلم کے ساتھ منسلک ہونا ہے۔ دوستوں کے درمیان زندگی اور رشتوں کے مختلف زاویوں کو کمال انداز میں پردہ سکرین پر دِکھانا ان دونوں بہن بھائی کی خاصیت ہے۔
یہ فلم بنیادی طور پر ’جنریشن زی‘ ( یعنی وہ نسل جو انٹرنیٹ آنے کے بعد پیدا اور جوان ہوئی ہے) کو مخاطب کرتی ہے بلکہ آج کل کی تیز رفتار زندگی میں جوان ہوتے بچوں کی زندگی کے مسائل کا عکس دکھاتی ہے۔
اس فلم کا سبجیکٹ ایک ایسے الارم کے بارے میں ہے جو مسلسل بج رہا ہے لیکن سوشل میڈیا کی تھپکی اتنی خواب آور ہے کہ ہم سب گہری نیند سو رہے ہیں۔ 
ہدایت کار ارجن سنگھ کی یہ پہلی فلم ہے جو اس سے پہلے مشہور فلم ’گلی بوائے‘ میں معاون ہدایت کار کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
زویا اختر اور ریما کاگٹی کے ساتھ وہ خود بھی اس فلم کو لکھنے والوں میں شامل ہیں جبکہ یہ فلم فرحان اختر کی کمپنی ایکسل انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کی ہے۔ فلم میں کچھ بولڈ مناظر کی وجہ سے اس کی ریٹنگ 16+ رکھی گئی ہے۔
آئی ایم ڈی بی پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 8.4 ہے اور تنقید نگاروں کی جانب سے بھی اس فلم کی ریٹنگ 5 میں سے 3.5 پر قائم ہے۔ نیٹ فلیکس پاکستان پر اس وقت یہ فلم نمبر1 پر موجود ہے۔
اگر آپ بھی خود فریبی کی اس دنیا میں اپنے آپ کو چاروں طرف سے گِھرا ہوا محسوس کر رہے ہیں تو اس فلم آہانا کا کردار آپ کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ زندگی کو ’فلٹر‘ لگائے بغیر جینا سیکھیں کیونکہ جب آپ اپنی حقیقت کے قریب آئیں گے تو تب ہی لوگ بھی آپ کے قریب آئیں گے۔‘

شیئر: