Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امدادی سامان کے لیے جمع ہونے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ

پانچ ماہ سے جاری جنگ کے باعث غزہ کے مکینوں کو کھانے پینے کے سامان کی شدید قلت کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیلی فوج نے امدادی سامان کے قافلے سے کھانے پینے کی اشیا نکالنے کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 112 افراد ہلاک ہو گئے۔ واقعے کے بعد غزہ میں اب تک ہونے والے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 30 ہزار سے اوپر چلی گئی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ واقعہ غزہ کے شمالی علاقے میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات اس وقت پیش آیا جب پناہ گزین امدادی سامان لانے والے قافلے کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے کھانے پینے کی اشیا نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی جس میں 100 سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والے زیادہ تر وہ لوگ تھے جو بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور فوج نے تب ہی ان پر فائرنگ شروع کی جب ان کو ہجوم کی جانب سے خطرہ محسوس ہوا۔
تشدد کی اس کارروائی کی عرب دنیا نے فوری طور پر مذمت کی جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے اس کی وجہ سے پانچ ماہ سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے ہونے والے مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔
غزہ شہر ان علاقوں میں شامل ہے جس کو جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیل فضائی، زمینی اور سمندری راستے سے نشانہ بناتا آ رہا ہے۔
اسرائیل نے پچھلے برس حماس کی جانب سے حملے کے بعد ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کر دیا تھا جس کے باعث بڑی تعداد میں فلسطینی شمالی علاقے کی طرف چلے گئے تھے۔
خیال ظاہر کیا جاتا ہے بڑے پیمانے پر تباہی سے دوچار ہونے والے شہر غزہ میں صرف چند لاکھ لوگ ہی موجود ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ امدادی سامان کی کھیپ اسی ہفتے علاقے میں پہنچی ہے۔
 ایک امدادی گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے عدم تعاون، دشمنی اور امن عامہ کی خراب صورت حال کی وجہ سے غزہ کے زیادہ تر علاقوں میں سامان کی فراہمی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے جبکہ مایوس ہجوم بھی امدادی قافلوں کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے ایک چوتھائی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور 80 فیصد کے قریب اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں۔
واقعے کے حوالے سے اسرائیل فوج کے چیف ترجمان ڈینیئل ہیگاری نے بتایا کہ علی الصبح غزہ کی طرف جانے والے 30 ٹرکوں کے ساتھ لوگوں نے دوڑنا شروع کیا اور کھانے پینے کی اشیا نکالنے کی کوشش کی۔
درجنوں فلسطینی بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوئے جبکہ کچھ گاڑیوں کے نیچے بھی آئے کیونکہ ڈرائیوروں نے گاڑیاں تیزی سے بھگانے کی کوشش کی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’علاقے کی نگرانی پر مامور اہلکاروں نے ہجوم کو خبردار کرنے کے لیے ہوائی فائر بھی کیے تاہم انہیں ہجوم کی طرف سے خطرے کا احساس ہوا۔‘
’ہم نے امدادی سامان لینے کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ کی اور نہ ہی امدادی سامان کے قافلے پر، ہم اس کی حفاظت کر رہے تھے تاکہ وہ غزہ کے علاقے تک پہنچ سکے۔‘
گولی سے زخمی ہونے والے کامل ابو ناہل کا کہنا ہے کہ انہیں آدھی رات کو معلوم ہوا کہ امدادی سامان تقسیم کیا جانے والا ہے اس لیے وہ وہاں پہنچے۔
ان کے مطابق ’ہم پچھلے دو ماہ سے جانوروں کا کھانا کھا رہے تھے۔‘

شیئر: