Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرفراز بگٹی کے وزیراعلٰی بننے کے 48 روز بعد بلوچستان کابینہ نے حلف اُٹھا لیا

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ ’سرفراز بگٹی اتنے طاقتور نہیں کہ وہ کسی کو نظرانداز کریں‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
بلوچستان میں عام انتخابات کے 70 دن اور وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے حلف اٹھانے کے 48 دنوں بعد بالآخر صوبائی کابینہ بن گئی۔ 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے چھ چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان اسمبلی کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
حلف برداری کی تقریب جمعے کو گورنر ہاؤس کوئٹہ میں منعقد پوئی جس میں گورنر عبدالولی کاکڑ نے وزراء سے حلف لیا۔
حلف اٹھانے والوں میں پیپلز پارٹی کے صادق عمرانی، علی مدد جتک، ظہور احمد بلیدی، بخت محمد کاکڑ ، فیصل جمالی، سرفراز ڈومکی، ن لیگ کے عاصم کرد گیلو، سردار عبدالرحمان کھیتران، سلیم حمد کھوسہ، شعیب احمد نوشیروانی ،نور محمد دمڑ اور راحیلہ حمید درانی شامل ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ضیاء اللہ لانگو اور طارق حسین مگسی نے بھی حلف اٹھایا۔
وزراء کے قلمدانوں کا اب تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کابینہ میں صرف دو نئے چہرے فیصل جمالی اور بخت محمد شامل ہیں- باقی تمام وزراء اس سے پچھلی حکومتوں میں بھی وزیر رہ چکے ہیں۔
اٹھاریں آئینی ترمیم کے بعد بلوچستان میں کابینہ کا حجم 14 وزراء اور پانچ مشیروں سے زائد نہیں ہو سکتا۔
مخلوط حکومت کی حمایت کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی، حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کا کوئی رکن کابینہ میں شامل نہیں، اے این پی کو مشیر کا عہدہ دیے جانے کا امکان ہے۔
 

’نواب ثنا اللہ زہری جو ابتدا میں کافی فعال تھے اب ناراض ہو کر بیرونِ ملک چلے گئے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی بلوچستان اسمبلی کے قائد ایوان کے طور پر سرفراز بگٹی نے 2 مارچ کو حلف اٹھایا تھا۔اس کے بعد سے اختلافات کے سبب کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی خبریں سامنے آتی رہیں۔
وزیراعلٰی بلوچستان اور صوبائی حکومت کے ترجمان صدارتی اور سینیٹ انتخابات کو کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کے جواز کے طور پر پیش کرتے رہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’صوبائی حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اور ان جماعتوں کے اندرونی اختلافات تاخیر کی اصل وجہ ہیں۔‘
کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار خلیل احمد کا کہنا ہے کہ ’کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے کافی اختلافات اور مسائل تھے۔ حکومت میں شامل دو بڑی اتحادی جماعتیں وزارتوں کی تقسیم کے فارمولے پر متفق نہیں ہو رہی تھیں۔‘
’دونوں جماعتیں زیادہ سے زیادہ حصہ مانگ رہی تھیں۔ ن لیگ کا موقف تھا کہ وزارت اعلٰی پیپلز پارٹی کو ملنے کے بعد 60 فیصد وزارتیں اور مشیروں کے عہدے ن لیگ کو ملنا چاہیے تھے۔‘
خلیل احمد کہتے ہیں کہ ’دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ مرکز میں وزارتیں لیے بغیر ن لیگ کی حمایت کے بعد انہیں بلوچستان کابینہ میں زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔‘

 ’مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو 6، 6 جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کو دو وزارتیں دینے کا فیصلہ ہوا ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر شیخ جعفر مندوخیل نے بھی چند ہفتے قبل اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کو صوبائی کابینہ میں زیادہ حصہ دیا جائے گا۔‘
’پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے بلوچستان میں حکومت سازی کے معاہدے کے وقت طے کیا تھا کہ ن لیگ کو بلوچستان میں 60 فیصد حصہ یعنی کم سےکم آٹھ وزارتیں اور دو مشیر دیے جائیں گے‘، تاہم پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ ایسا کوئی فارمولہ طے نہیں پایا۔
خلیل احمد کہتے ہیں کہ ’اب وزارتوں کی مساوی تقسیم یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو چھ چھ وزارتیں دینے پر اتفاق ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’دو وزارتیں بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی ملیں گی۔ مشیروں کے عہدوں میں شاید باقی اتحادیوں کو بھی ایڈجسٹ کیا جائے۔‘
سیاسی تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ مرکز میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی کے سمجھوتے کے بعد توقعات تھیں کہ بلوچستان میں جلد کابینہ بن جائے گی، تاہم وقت تاخیر سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔
’اس دوران ایسے اشارے ملتے رہے کہ نہ صرف اتحادیوں کے ایک دوسرے سے اختلافات ہیں بلکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اندر بھی تقسیم ہے۔‘

گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ گورنر ہاؤس کوئٹہ میں صوبائی وزرا سے حلف لیں گے (فائل فوٹو: اے پی پی)

ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ تین چار اہم محکمے اور 60 فیصد کوٹہ مانگ رہی تھی۔ وزارتوں کی تقسیم میں بلوچستان عوامی پارٹی بھی گلے کی ہڈی بنی رہی کیونکہ ن لیگ چاہتی تھی کہ پیپلز پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنے کھاتے میں سے وزارتیں دے کر ایڈجسٹ کرے۔
رشید احمد کہتے ہیں کہ صوبائی کابینہ کی تشکیل کے بعد بھی اختلافات ختم ہوتے نظر نہیں آرہے کیونکہ حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کے اندر تقریباً ہر شخص وزارت کا طلب گار تھا۔ جو ارکان صوبائی کابینہ میں شامل نہیں ہو رہے وہ ناراض ہیں۔ مستقبل میں یہ گروہ بندی مزید واضح ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت میں سیاسی لحاظ سے کئی قدآور اور تجربہ کار سیاسی شخصیات شامل ہیں جو ماضی کی حکومتوں میں وزارت اعلٰی اور چیئرمین سینیٹ کے عہدوں پر کام کر چکی ہیں۔
’کابینہ میں ان تجربہ کار شخصیات کے بجائے زیادہ تر نئے نام نظر آرہے ہیں۔نظرانداز ہونے والے سینیئر اور تجربہ کار سیاست دان مستقبل میں سرفراز بگٹی کے لیے پریشانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔‘
خلیل احمد بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نواب ثنا اللہ زہری جو ابتدا میں کافی فعال تھے اب ناراض ہو کر بیرونِ ملک چلے گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’سرفراز بگٹی نے کابینہ کی تشکیل میں وزیراعظم شہباز شریف سے بھی مدد لی ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

ان کا کہنا ہے کہ سرفراز بگٹی نے کابینہ کی تشکیل میں اپنی جماعت کی قیادت کے ساتھ ساتھ ن لیگ کے صدر، وزیراعظم شہباز شریف سے بھی مدد لی ہے۔
’جو کابینہ ڈیڑھ ماہ سے فائنل نہیں ہو رہی تھی وہ شہباز شریف سے ملاقات کے ایک دن بعد ہی بن رہی ہے۔اس ملاقات کے بعد محکموں میں ردوبدل کی اطلاع بھی ہے۔
رشید بلوچ نے کہا کہ صوبائی کابینہ میں شامل کئی افراد ایسے بھی ہیں جو پہلے بلوچستان عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم پر اکٹھے تھے اور اب وہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں۔
’ان کی سیاسی پرورش ایسی نہیں ہوئی کہ وہ جماعتوں کے فیصلوں کے آگے سرِتسلیم خم کریں بلکہ وہ دباؤ ڈال کر زیادہ سے زیادہ مفادات اور مراعات لینا چاہتے ہیں۔‘
رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ یہ شخصیات مستقبل میں بھی وزیراعلٰی میر سرفراز بگٹی کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہیں گی۔
’اگر شروعات ایسی ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں حکومت کے لیے کتنی مشکلات پیدا ہوں گی۔ سرفراز بگٹی بھی اتنے طاقتور نہیں کہ وہ کسی کو نظرانداز کریں بلکہ انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔‘

شیئر: