وی وی آئی پی وہ ہوتا ہے جسے اپنی بلٹ پروف گاڑیوں کے ذخیرے کی گنتی نہ کرنی پڑے
وسعت اللہ خان
دنیا کے سب قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو تم سے پہلے اسی زمین پر اکڑ کے چلتے تھے ، وہی دیکھتے تھے جو دیکھنا چاہتے تھے، وہی سنتے تھے جو سننا چاہتے تھے ، وہی سوچتے تھے جو سوچنا چاہتے تھے، آنکھیں تھیں پر نابینا ، کان تھے پر بہرے ، دماغ تھا پر سکڑا ہوا اور آج وہ سب فرعون صفت انہی کے برابر میں گڑے پڑے ہیں جن کو وہ زمین کے اوپر جوتوں کی گرد کے برابر بھی نہیں سمجھتے تھے۔
اشیا ءمیں جانے کیسا خوفناک سحر ہوتا ہے کہ اللہ والوں تک نے اس سحر میں گرفتاری سے اپنے لئے پناہ مانگی۔مجھے یاد ہے جب زندگی میں پہلی مرتبہ ایک رئیس کی ٹھنڈی پراڈو میں صرف 20 منٹ کےلئے بیٹھا تو میری دنیا ہی بدل گئی۔چلچلاتی دھوپ کی چبھن پراڈو کے ٹنٹڈ گلاس پی گئے اور باہر کی ہر شے سہانی سہانی دکھنے لگی۔
چھٹے منٹ میں ہی میں اس پراڈوانہ ماحول کا یوں عادی ہوگیا گویا ہمیشہ سے اسی میں سفر کرتا ہوں۔فٹ پاتھ پر گزرتے لوگ گھٹیا ہیولے لگنے لگے۔ ایک شخص اچانک سڑک پار کرنے لگا تو میرے دل سے گالی نکلی ” جاہل سالا ، سڑک پار کرنا بھی نہیں آتا ان جانوروں کو ”۔
مجھے یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ فٹ پاتھ پر پیدل جا رہی عورت کی انگلی پکڑے چلنے والا بچہ بار بار اپنی آستین سے ماتھے کا پسینہ کیوں پونچھ رہا ہے حالانکہ پراڈو میں تو موسم یخ ہے۔
ایک سگنل پر جب کانسٹیبل نے سبز بتی کے باوجود آگے بڑھنے والی ٹریفک روک کر ” ہماری پراڈو” کو راستہ دیا تو جانے کیوں میں نے اپنے پیر ذرا سے اور آگے پھیلا لئے۔پھر میرا دفتر آ گیا۔رئیس نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور میں زمین پر اتر آیا۔سورج کی تیز کرنیں سیدھی آنکھوں میں پڑ رہی تھیں۔ جانے کیوں گرمی اچانک بے پناہ بڑھ گئی تھی ۔میں اپنی آستین سے پسینہ پونچھتے ہوئے دفتر میں داخل ہوگیا۔
جب مجھ ٹچے کی پراڈو میں پہلی بار 20 منٹ کا ادھاری سفر کر کے کایا کلپ ہوگئی تو سوچئے ان کا دماغ کہاں ہوتا ہوگا جو دن رات رہتے ہی من پسند ٹھنڈی جنت میں ہیں۔
تو اے میرے غصیلے کنگلو ! کبھی تمہاری گاڑی کے آگے ہوٹر بجا ہے ؟ کبھی ایسی گاڑی میں بیٹھے ہو جس کا روٹ لگتا ہے۔کبھی تمہارے پھٹیچر بونیٹ پر جھنڈا پھڑ پھڑایا ہے ؟ کبھی وی آئی پی لاﺅنج سے گزر کر ” آیئے سر آئیے سر ” سنتے سنتے سیدھے طیارے کی سیڑھیوں کے ساتھ جڑی گاڑی سے نیچے اتر کے اوپر جانا نصیب ہوا ہے ؟ کبھی سوچا کہ بریف کیس پکڑ کے پیچھے پیچھے چلنے والے کو کن انکھیوں سے دیکھ کے دل میں پیدا ہونے والی سرشاری کیا ہوتی ہے ؟ کبھی ان کے بارے میں بھی سوچا ہے جو برسہا برس سے ” اوکے سر ، بالکل سر ، بالکل ٹھیک ، واہ واہ سر ، کمال کردیا میڈم ، کیا بات ہے میڈم ، حاضر ہوں مائی باپ ” کے سوا کوئی اور فقرہ سننا جانتے ہی نہ نہیں۔
اگر تم ان معمولی معمولی وی آئی پی نعمتوں کا بھی ادراک نہیں رکھتے تو پھر تو تمہیں یہ بات بھی ہرگز پلے نہیں پڑ سکتی کہ وی وی وی آئی پیز کسے کہتے ہیں۔چلو ذرا آسان کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ تم کند ذہنوں کو ذہن نشین ہو جائے۔
وی وی وی آئی پی وہ ہوتا ہے جو الفاظ کا سہارا تب ہی لیتا ہے جب انگلی کے اشارے ، جنبشِ ابرو یا آنکھ کی پتلی کی حرکت سے بھی خواہش یا پیغام سامنے والے تک نہ پہنچے۔وی وی آئی پی پل بھر میں وزیر کو فقیر اور فقیرکو وزیر کردینے پر قادر ہوتا ہے۔اگر اس نے ڈنر میں بھنڈی کی فرمائش کی اور بھنڈی کا سیزن نہیں تب بھی بھنڈی آنی چاہئے بھلے جنوبی افریقہ سے چارٹرڈ طیارہ کروا کے ہی کیوں نہ منگوانی پڑے۔ اسے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے کہ کون سا بوئنگ ، کس کریو کے ساتھ بھنڈی لائے گا اور کب تک خالی کھڑا کھڑا انجن سٹارٹ کرکے اونگھتا رہے گا۔
وی وی آئی پی وہ ہوتا ہے جسے اپنی بلٹ پروف گاڑیوں کے ذخیرے کی گنتی نہ کرنی پڑے۔ اگر اس کے پھوپھی زاد بھائی کے چچا کے سسر کے بیٹے کے داماد کو کسی شادی میں بروقت پہنچنے کے لئے ہیلی کاپٹر کی ضرورت پڑ جائے تو بندوبست پہلے کیا جائے۔بعد میں نوکر پیشہ کاغذی کاروائی کا پیٹ بھی بھر لیں۔
وی وی آئی پی اسے کہتے ہلیں جس سے لوگ اس کے چہرے کا اتار چڑھاء دیکھ کے بات کریں مگر لجلجاتی مسکراہٹ چہرے پر سجا کے۔ بھلے 3 دن کے فاقے سے ہی کیوں نہ ہوں۔وی وی وی آئی پی جو چشمہ پہنتا ہے اس میں یہ خوبی لازماً ہوتی ہے کہ جو بھی نظر آئے ہرا ہرا ہی نظر آئے۔
وی وی آئی پی کے کانوں میں وہ فلٹر نصب ہوتا ہے جو ” نہیں ، مگر ، یہ ایسا نہیں ، میری تجویز ہے ۔ذرا غور کیجئے ، سب ٹھیک نہیں ، بحث ، یہ کام مشکل ہے ، شاید ایسا نہیں ” جیسے الفاظ اور جملے اس کے دماغ تک پہنچنے سے پہلے ہی سنسر کردیتا ہے۔ اے بھولے لوگو تم اسی پر خوش ہوتے رہنا کہ تم وی آئی پی کلچر کے خلاف کبھی کوئی ٹویٹ کردی ، فیس بک پر تصویر ٹیگ کردی یا کوئی مذمتی اداریہ یا مضمون لکھ دیا۔
چینی کہاوت ہے کہ ہزار میل کا سفر پہلے قدم سے ہی شروع ہوتا ہے۔یہ سفر تب شروع ہوگا جب تم میں سے ہر ایک خود سے پوچھے گا کہ ہم 70 سال سے یہ سب برداشت کرتے آ رہے ہیں کیا 2017-18ءبھی ایسے ہی گزرے گا۔
٭٭٭٭٭٭