منیٰ میں تاریخی اہمیت کا حامل مقام، مسجد عقبہ
بعثت کے 12ویں سال مدینہ منورہ سے 12افراد حج پر آئے، انہوں نے جمرہ عقبہ کے قریب رسول اللہ سے ملاقات کرکے بیعت کی
یہ مستطیل شکل کی مسجد ہے جو پتھر اور گچ سے بنائی گئی ہے،اس میں دودالان ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مسجد جس شکل میں آج کل ہے ویسی ہی قدیم زمانے میں بھی رہی ہوگی۔
یہ مسجد اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں انصار نے نبی کریم نے جمرہ عقبہ کے قریب بیعت کی تھی۔یہ منیٰ سے مکہ مکرمہ جا تے ہوئے دائیں جانب پڑتی ہے۔
ابوجعفرالمنصورنے144ھ میں تعمیر کرائی تھی۔ یہ مکہ مکرمہ کی طرف جانیوالے کے لحاظ سے جمرہ عقبہ کے عقب میں اور منیٰ جانیوالے کے بائیں جانب پڑتی ہے۔
اس مسجد کو بیعت عقبہ سے اس وجہ سے موسوم کیا گیا کیونکہ یہ اس دور میں تعمیر کی گئی تھی جب نبی کریم کو اسلامی دعوت اعلانیہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو حکم دیاتھا کہ اب کھلم کھلا اسلام کی دعوت پیش کرو۔ یہ حکم ملتے ہی نبی کریم نے حج کیلئے مکہ مکرمہ آنیوالے قبائل کو اسلام کی دعوت دینا شرو ع کردی تھی۔ بعثت کے10ویں سال مطابق 619ء کو رسول اللہ کی ملاقات مدینہ منورہ کے 6افراد سے ہوئی۔یہ ملاقات جمرہ عقبہ کے قریب جبل ثبیر کی ایک گھاٹی میں ہوئی تھی۔ اس موقع پر رسول اللہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ ان لوگوں نے مدینہ منورہ کے قبائل اوس و خزرج کو اسلامی دعوت سے مطلع کیا، اس پر بعثت کے 12ویں سال مدینہ منورہ سے 12افراد حج پر آئے۔ انہوں نے جمرہ عقبہ کے قریب رسول اللہ سے ملاقات کرکے بیعت کی، یہ بیعتِ عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔
بعثت کے 13ویں سال عقبہ میں دوسری بیعت ہوئی۔اس موقع پر مدینہ منورہ سے 75خواتین و مرد آئے تھے۔ ان لوگوں نے رسول اللہ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ ہر حال میں پیغمبر اسلام کے احکام کی اطاعت کرینگے اور دکھ سکھ ہر حال میں ساتھ رہیں گے، اچھائی کی تلقین کرینگے اوربرائی سے روکیں گے۔
عقبہ کی دوسری بیعت رسول اللہ کی مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت اور بیرون مکہ اسلامی دعوت کی اشاعت کی سوچ کی محرک بنی تھی۔
ازرقی نے تیسری صدی ہجری اور الفاسی نے9ویں صدی ہجری میں جو کچھ دیکھا اس کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے:
مسجد عقبہ اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں بیعت عقبہ ہوئی تھی۔ یہ اتنے ہی رقبے پر تعمیرہے جتنے رقبے میں مدینہ منورہ کا قافلہ لنگر انداز تھا۔
الفاسی نے9ویں صدی ہجری میں اس مسجد کی حالت کی بابت تحریر کیاہے کہ:
مسجدعقبہ مستطیل شکل کی ہے جو 2دالانوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے ہر ایک پر چھت پڑی ہوئی ہے، 4حصوں پر 3گنبد بنے ہوئے ہیں، ان کے عقب میں ایک کشادہ جگہ ہے۔ شمال کی طرف مسجد کے 2دروازے اور جنوب کی طرف بھی اتنے ہی دروازے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ المستنصر العباسی کے عہد میں 629ھ میں یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ یہاں مسجد کے برابر سے جو سنگی کتبہ ملا ہے اس پر یہی مضمون تحریر ہے۔
الفاسی کے بعد القطبی نے تحریر کیاہے کہ:
مسجد عقبہ کی ایک اور عمارت بنائی گئی جو امین عرفات کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے مسجد اور اسکی دیواریں بنوائیں البتہ مسجد مکمل ہونے سے قبل ہی وہ وفات پا گئے۔
مستطیل شکل کی یہ عمارت 2دالانوں کا مجموعہ ہے۔ پہلے دالان میں 4ستون ہیں،قبلے کی دیوار کے وسط میں محراب ہے۔ دوسرا دالان شمال مشرقی دیوار کے بالمقابل واقع ہے۔ مسجد کا موجودہ دروازہ شمال مغرب کے گوشے میں ہے، یہ قبلے کی دیوار کے بالمقابل دالان کی طرف لے جاتا ہے،یہ اس کے اصلی دروازے سے الگ ہے۔
استاد سید عبدالمجید بکر لکھتے ہیں کہ:
شمال مغربی حصے اور جنوب مشرقی حصے میں2دروازے ہیں، ماضی میں یہی مسجد کے اصل دروازے تھے۔ موجودہ دروازہ ان میں سے ایک ہے،قبلے کی دیوار کے اوپر سادہ مگر گل بوٹوں سے آراستہ چھجے ہیں۔
ان خصوصیات کے تذکرے سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد البیعہ (عقبہ )کا نقشہ وہی ہے جو تیسری صدی ہجری میں تھا۔ غالب گمان یہ ہے کہ موجودہ عمارت نویں صدی ہجری میںالفاسی کے ان مشاہدات کا عکس ہے جو انہوں نے اپنے سفر نامے میں قلمبند کئے تھے۔