بیت اللہ کا حج نہ ہو تو آسمان زمین پرآگریں
احرام کی چادریں اوڑھنے کے بعد ضروری ہے کہ تقویٰ کا لباس زیب تن کیا جائے کہ اس کے بغیریہ سفر بے مقصد ہوجاتا ہے
عبد الستارخان
حج اسلام کا عظیم رکن ہے جسے مسلمانوں پر فرض کرنے کی کئی حکمتیں ہیں،ارشاد ربانی ہے ”اللہ نے مکانِ محترم ، کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے ) قیام کا ذریعہ بنایا۔ “(المائدہ97)۔
شیخ عوض القرنی کا کہنا ہے کہ”اجتماعی زندگی کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ جب تک مسلمان اس کعبہ کی تعظیم کرتے رہیں گے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نگہبانی ان کی ساتھ رہے گی۔“حضرت ابن عباس ؓ کا کہنا ہے کہ ”اگر لوگ اس گھر کا حج کرنا چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ آسمانوں کو زمین پر گرانے کا حکم دے دے گا۔“اس گھر کو اللہ تعالیٰ نے معظم بنایا ہے اور اس کی تعظیم اس گھر کے بانی حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تعظیم کی وجہ سے ہے۔امام شوکانی ؒ کا کہناہے کہ”قیام کا مطلب یہ ہے کہ ان کی معیشت اور تجارت، ان کے دین اور ان کی عبادت کا دار ومدار اس گھر سے ہے۔“
نفس انسانی کو شرک و گناہوں سے پاک رکھنے کے لئے حج ایک عظیم تربیت گاہ ہے جو انسان کو مادیت اور دنیاوی اسباب وسامان کی پستیوں سے اٹھاکر اطاعت کی رفعتوں اور بلندیوں تک لے جاتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی ملکوت میں سیاحت ہے۔یہ لوگوں کو اس دن کی یاد دلاتا ہے کہ پوری انسانیت رب کے حضور پیش ہوگی۔اس تربیت گاہ میں انسان صبر وتحمل اور انکساری سیکھتا ہے۔امت کے افراد کو سال میں ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں جمع کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اپنے قضیوں اور مسائل کا باہم مشورے سے حل تلاش کریں،اس اجتماع میں امت کے تمام گروہوں سے لوگ شریک ہوتے ہیں۔اس میں ممتاز مفکرا ور دانش وروں کو بھی،سیاستدانوں کو بھی،علماءکو بھی اور عوام کو بھی بلایا جاتا ہے ۔سب دنیاوی امتیازات سے پاک ہوکر ایک مقصد کی خاطر جمع ہوتے ہیں۔
حج کا عالمگیر اجتماع دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ یہ امت ایک عظیم مقصد کے لئے برپا ہوئی تھی۔دنیا کو امن کا پیغام دیا جاتا ہے ، یکجہتی اور عدل وانصاف اور برابری سکھاتا ہے۔حج کے کچھ اجتماعی فوائد ہیں اور کچھ انفرادی ۔اجتماعی فوائد کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ”اس میں تمہارے لئے فائدے ہیں۔“ان متعدد فائدوں میں ایک فائدہ یہ ہے کہ حج میں اسلامی اخوت اور بھائی چارگی کا مظہر نمایاں نظر آتا ہے۔مسلمان جہاں کہیں بھی رہتا ہو، جس قومیت اور نسل سے اس کا تعلق ہو حج میں وہ ان تفرقوں سے بالاتر ہوکر فرمان الہٰی کا نمونہ پیش کرتا ہے کہ مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیںنیز رسول اکرم کے اس ارشادِ مذکور پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ اخوت اور بھائی چارگی کی مثال ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہےں۔دعوت الہٰی پر لبیک کہتے ہوئے کرہ ¿ارض کے مشارق ومغارب سے آنے والے مسلمان یہاں پہنچ کرایک دوسرے کے ساتھ تعارف حاصل کریں اور اپنے مشترکہ قضیوں پر غور وخوض کریں ۔یہ اور اس کے علاوہ کئی اجتماعی فائدے حج میں پنہاں ہیں۔
حج کے انفرادی فائدوں میں ایک فائدے کا ذکر حدیث شریف میں ملتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ” جس نے حج کیا اور اس میں فسق و فجور اور لغو سے اجتناب کیا تو اس کے گناہ اس طرح مٹ جاتے ہیں گویا وہ آج ہی پیدا ہوا ہو۔“ایک اور حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ” اگر تم حاجی کو دیکھو تو اسے سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو اور اس سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے کیونکہ حاجی کی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔“
جب حاجی حج کا ارادہ کرتا ہے تو اخلاص نیت کے ساتھ وہ اصحاب حقوق کا حق ادا کرتا ہے، لوگوں سے کہا سنا معاف کراتا ہے۔وہ شعوری طورپر محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے سفر پر جارہا ہے جہاں اسے رب کے حضور حاضر ہونا ہے اور جس میں اگر وہ شرائط پوری کرے گا تو اس کی زندگی کے تمام گناہ دھل جائیں گے،وہ لوگوں کے بوجھ اپنی گردن سے اتاردیتا ہے ۔جب حاجی اپنی زیب وزینت اورلباسِ فاخرہ اتار کر احرام کی چادریں اوڑھ کر درویشانہ صفت اختیار کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ حج پر آنے والے ہر امیر وکبیر ،ہر گدا وفقیر ایک لباس میں ہیں تو دنیاکی زیب و زینت اس کی نظروں میں حقیر ہوجاتی ہے اور اسے اپنی مبتدا اور معاد یاد آتی ہے۔احرام کی چادریں اوڑھنے کے بعد اس کے لئے ضروری ہے کہ تقویٰ کا لباس زیب تن کرے کہ اس کے بغیر اس کا سفر بے مقصد ہوجاتا ہے۔
مشاعر مقدسہ میں حاجی اپنے دل کو صاف رکھتا ہے،کسی کے لئے بغض وکینہ نہیں رکھتا۔دوسروں کے قصور معاف کرتا ہے اور ان کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے۔جب انسان سفر پر جاتا ہے جہاں اسے کسی اہم شخصیت سے ملاقات کرنی ہوتی ہے تو وہ ذہنی طور پر تیاری کرتا ہے۔ملاقات کے سامان و اسباب تیار کرتا ہے۔اپنی ظاہری شکل و صورت بناتا ہے۔اسی طرح جب وہ حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ جس عظیم ہستی سے ملاقات کرنے وہ جارہا ہے اس کے لئے بھی ذہنی اور قلبی طور پر تیاری کرے۔وہ روحانی طور پر مستعد رہے کہ اسے اس سفر میں زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کرنا ہے اور کم سے کم غلطیاں کرنی ہیں۔
حج ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں چیزیں گنی نہیں جاتیں بلکہ تولی جاتی ہیں۔لبیک کا نعرہ کتنی مرتبہ بلند کیا اس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ لبیک کا نعرہ کس قدر شعور اور اس کے معانی اور مفہوم کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ کتنی رکعتیں پڑھی گئیں یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ،کتنے شعور اور خشوع اور خضوع سے پڑھی گئیں ، اس کا وزن ہے۔ایمان ایسی چیز ہے جو گھٹتا اور بڑھتا ہے۔جب ایمان بڑھتا ہے تو واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔حاجی خود محسوس کرے گا کہ مناسک حج کی ادائیگی میں اس کے ایمان میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ایک آیت کا مفہوم ہے کہ” نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔“ مگر کوئی شخص نماز بھی پڑھتا رہے اور فحش اور برے کاموں سے اجتناب نہ کرے تو اس نے نماز سے کوئی چیز حاصل ہی نہیں کی۔اس میں قصور نماز کا نہیں بلکہ نماز پڑھنے والے کا ہے ۔ اسی طرح حج گناہوں سے پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔جب حج کرنے والا حج کرکے بھی اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی محسوس نہ کرے تو قصور حج کا نہیں بلکہ حاجی کا ہے جس نے اس سے وہ فائدہ حاصل نہیں کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔