حرم مکی شریف میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر
مکہ مکرمہ میں ایک نماز پڑھے تو اس کےلئے ایک لاکھ نمازیں لکھی جاتی ہیں ، جو وہاں ایک دن روزہ رکھے ، اس کےلئے ایک لاکھ روزے لکھے جاتے ہیں
مولانا محمدعابد ندوی۔ جدہ
حرم کی بے شمار خصوصیات اور فضائل ہیں جن میں ایک اہم خصوصیت اور فضیلت حرم محترم میں ادا کی جانے والی نمازوں یا دیگر نیکیوں کے ثواب کا زیادہ ہونا اور کسی بھی عمل خیر پر زیادہ اجر کا ملنا ہے۔ نماز کے اجر و ثواب کی زیادتی کے سلسلے میں جو روایات ہیں وہ تو تواتر کی حد تک ہیں ۔ تقریباً 20 صحابہ کرامؓ سے حرم میں نماز کی فضیلت اور کئی گنا اجر و ثواب زیادہ پانے کی روایات منقول ہیں جو صحیحین کے علاوہ دیگر کئی کتب احادیث میں موجود ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے وایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا :
”میری اس مسجد میں نماز اس کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ہزار نمازوں سے بہتر ہے ، ہاں سوائے مسجد حرام کے۔“
اس میں مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی کہ مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی نماز دیگر مساجد کے مقابلہ میں ہزار گنا زیادہ فضیلت اور اجر و ثواب کی حامل ہے ، سوائے مسجد حرام کے ۔یہ وضاحت نہیں کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب کتنا ہے ؟ جبکہ بعض دیگر روایات میں یہ صراحت اور تفصیل مذکور ہے کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب مسجد نبوی کے علاوہ عام دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا زیادہ ہوگا۔ بعض روایات میں مزید صراحت اس طرح مروی ہے :
سیدنا جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا :
”میری مسجد میں نماز اس کے علاوہ مساجد میں ہزار نمازوں سے افضل ہے ، سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں نماز اس کے علاوہ مساجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔ “
اسی طرح سیدنا ابوالدرداءؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا :
”مسجد حرام میں نماز کی فضیلت اس کے علاوہ میں ایک لاکھ نمازوں کی طرح ہے اور میری مسجد میں نماز ایک ہزار نمازوں کے برابر
ہے اور بیت المقدس کی مسجد میں5 سو نمازوں کے برابر۔“
مسجد حرام اور مسجد نبوی میں باہم نماز کی افضلیت اور پھر اس کے اجر و ثواب کی تعیین کے سلسلے میں اگرچہ اہل علم سے مختلف آراءمنقول ہیں تاہم جمہور اہل علم کا رجحان یہی ہے کہ سب سے زیادہ ثواب مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ہے اور وہ ایک لاکھ گنا ہے ، پھر مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار گنا اور پھر مسجد بیت المقدس میں نماز کا ثواب 5 سو گنا زیادہ ہے لیکن کتب احادیث میں بعض روایات ایسی بھی ہیں جن سے مسجد حرام میں ایک لاکھ گنا سے بھی زیادہ اجر و ثواب ملنے کا اشارہ ملتا ہے ، مثلاً سیدنا عبد اﷲ بن زبیرؓ ہی سے ایک روایت اس طرح مروی ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا :
”میری مسجد میں نماز اس کے علاوہ میں ہزار نمازوں سے افضل ہے ، سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں نماز میری مسجد میں ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ “
اس روایت کا مقتضا یہ ہے کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب مسجد نبوی کے علاوہ عام دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک لاکھ نہیں بلکہ 10 لاکھ گنا زیادہ ہو جبکہ ان ہی صحابی سے بعض راوی اس طرح روایت نقل کرتے ہیں کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب مسجد نبوی کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا زیادہ ہے تاہم اکثر روایاتِ حدیث اسی معنیٰ پردلالت کرتی ہیں ، جو جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ مسجد حرام میں نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا ، مسجد نبوی میں ایک ہزار گنا اور بیت المقدس میں5 سو گنا زیادہ ہے ، پھر روایت میں ” مسجد حرام “ کے لفظ سے بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ خصوصیت صرف مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی ہے ، جس طرح مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار گناہ زیادہ ہے ، اسی طرح مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔ مسجد حرام کے علاوہ پورے حدودِ حرم یا مکہ مکرمہ کی یہ خصوصیت نہیں جبکہ اس مسئلہ میں بھی اکثر اہل علم کا رجحان یہی ہے کہ یہ خصوصیت صرف مسجد حرام کی نہیں بلکہ پورے حدود ِحرم کی ہے گویا ” مسجد حرام “ کہہ کر پورا ”حدود ِحرم “ مراد لیا گیا اور قرآن و حدیث میں ” مسجد حرام “ کہہ کر پورا حرم مراد لینے کی مثالیں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ایک صراحت مشہور تابعی حضرت عطاءبن ابی رباحؒ سے اس طرح منقول ہے کہ ان سے ان کے شاگرد ربیع بن صبیح نے سوال کیا :
”اے ابو محمد ! یہ فضیلت جو بیان کی جاتی ہے تنہا مسجد حرام میں ہے یا پورے حرم میں ؟ “
تو اس کے جواب میں حضرت عطاءؒنے کہا
”بلکہ یہ فضیلت پورے حرم میں ہے کیوںکہ پورا حرم مسجد ہے۔“
تاہم اس میں شک نہیں کہ حرم کی یہ خصوصیت و فضیلت کعبة اﷲ شریف کی وجہ سے ہے لہٰذا کعبة اﷲ سے جتنا قرب ہوگا ، اتنا زیادہ بہتر و افضل ہوگا۔ اس طرح مسجد حرام میں نماز باقی حرم کے مقابلے میں یقینا زیادہ شرف و سعادت اور دیگر وجوہ کے سبب زیادہ افضلیت والی بات ہوگی اگرچہ پورے حرم میں نماز کا ثواب غیر حرم کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو نیز یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ یہ ثواب انفرادی نماز کا ہے جیساکہ بعض اہل علم نے صراحت کی ہے، بعض صحیح روایات سے ثابت ہے کہ جماعت سے پڑھی جانے والی نماز تنہا نماز کے مقابلے میں25 درجہ اور بعض روایات کے اعتبار سے27 درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ یہی فضیلت مسجد حر ام یا پورے حرم کے سلسلے میں بھی ہوگی کہ تنہا نماز کے مقابلے میں جماعت سے ادا کی جانے والی نماز کا درجہ مزید 25 گنا یا 27 گناہ بڑھ جائے گا ۔ اس طرح جن لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں قیام کی سعادت بخشی ہو اور وہ مسجد حرام میں جماعت سے نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہوں یا جو لوگ حج و عمرہ کی ادائیگی اور بیت اﷲ شریف کی زیارت کے لئے یہاں پہنچیں اور وہ مختصر قیام ہی کے دوران مسجد حرام میں جماعت سے نمازوں کی ادائیگی کا خاص اہتمام کریں تو ان کی نمازوں کے اجر و ثواب کا حساب اور شمار کرنا ماہر سے ماہر ریاضی دان کے لئے بھی ممکن نہ ہوگا اور حساب و کتاب میں اعداد اور ہندسے اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ اس نکتے کی طرف بھی بعض اہل علم نے اشارہ کیا ہے ۔
بیت المقدس ، مسجد نبوی اورمسجد حرام ( حرم مکی شریف) میں نمازوں کے اجر و ثواب کے سلسلے میں اﷲ تعالیٰ کا یہ ایسا عظیم فضل اور انعام ہے کہ اس کے حصول کے لئے آدمی دنیا کے آخری کونے سے بھی سفر کرے ، اپنی دولت کے انبار خرچ کر ڈالے ، سفر کی بے انتہا مشقتیں برداشت کرے بلکہ اپنی جان کو خطرہ میں ڈالے ( جیساکہ گزشتہ زمانوں میں خصوصاً سفر کی صعوبتیں آج کل کے لحاظ سے ناقابل تصور ہی ہوا کرتی تھیں ، جس کا اندازہ مختلف ادوار میںاہل قلم کے لکھے گئے ” سفرنامہ¿ حج “ سے ہوتا ہے، تب بھی یہ سودا خسارے کا سودا نہیں بلکہ اُخروی لحاظ سے بے انتہا منفعت بخش سودا ہے۔ اسی خصوصیت کے پیش نظر حدیث رسول اﷲ میں صراحت ہے کہ مسجد حرام ، مسجد نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ دنیا میں کوئی مسجد ایسی نہیں ، جہاں خاص طورپر سفر کرنا جائز ہو ۔
اکثر اہل علم کا رجحان یہ ہے کہ حرم میں انجام دی جانے والی کسی بھی نیکی کا ثواب غیر حرم کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ملتا ہے اور یہ اس جگہ کی عظمت و شرف ہی کے سبب ہے۔ بعض اہل علم کی یہ رائے ایک تو نماز پر قیاس کرتے ہوئے ہے ، جس کے بارے میں بعض صحیح و صریح روایات اوپر ذکر کی گئیں۔ اس کے علاوہ اس سلسلے میں بعض صریح روایات بھی مروی ہیں جو اگرچہ ضعیف اور سند کے لحاظ سے کم درجہ کی ہیں تاہم ان کے مجموعے سے اور ایک دوسرے کے شواہد سے ضعف میںکمی ہوکر وہ درجہ حسن کا مرتبہ پالیتی ہیں ۔ امام غزالیؒ نے احیاءعلوم الدین میں لکھاہے کہ مکہ مکرمہ کے بعد مدینة الرسول سے زیادہ فضیلت والا کوئی مقام نہیں جہاں کہ اعمال کا ثواب کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔ پھر مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت والی حدیث ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ یہی معاملہ مدینہ منورہ میں ہر عملِ خیر کا ہے کہ وہ ثواب کے لحاظ سے ہزار گنا بڑھ کر ہے ، یہی صراحت مکہ مکرمہ کے بارے میں کی ہے ۔
اسی طرح حضرت حسن بصریؒ نے بھی اہل مکہ کے نام اپنے ایک پیغام ” فضائل مکہ “ میں لکھا ہے کہ ” روئے زمین پر مکہ مکرمہ کے علاوہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر شمار ہوتی ہو۔جو کوئی وہاں ( مکہ مکرمہ میں ) ایک نماز پڑھے تو اس کے لئے ایک لاکھ نمازیں لکھی جاتی ہیں ، جو وہاں ایک دن روزہ رکھے ، اس کے لئے ایک لاکھ روزے لکھے جاتے ہیں ، جو ایک درہم صدقہ کرے تو ایک لاکھ درہم صدقہ لکھا جاتا ہے ، جو وہاں ایک قرآن ختم کرے تو ایک لاکھ مرتبہ قرآن کا ختم لکھا جاتا ہے ، اسی طرح جو ایک مرتبہ اﷲ کی تسبیح بیان کرے یا تہلیل ( لاالہ الا اﷲ ) یا استغفار پڑھے تو ہر ایک نیکی وہاں ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے ۔
اس سلسلے کی صریح روایات میں ایک روایت سیدنا عبد اﷲ بن عمر ؓ سے اس طرح مروی ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا :
”مکہ میں رمضان کا روزہ غیر مکہ میں ایک ہزار رمضان سے افضل ہے۔“
حرم میں انجام دی جانے والی نیکیوں کے اجر و ثواب کی زیادتی اور مقدار کی تعین سے قطع نظر اس علاقہ کی حرمت و عظمت کے پیش نظر یہاں اعمالِ صالحہ کی فضیلت سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام نوویؒ بھی حرم میں کسی بھی نیکی کے اجر و ثواب میں اضافہ کے قائل ہیں ، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایک جگہ لکھا کہ :
”نماز وغیرہ عبادات مکہ میں افضل ہیں اور ایسی جگہ قیام جہاں کہ ایمان و تقویٰ میں اضافہ ہو افضل و بہتر ہے ، نیز کسی جگہ یا وقت کی فضیلت کے سبب نیکی اور برائی کا دو چند ہونا ( یعنی نیکی کے ثواب اور برائی کے وبال میں اضافہ ہونا ) اس بات کو قاضی اورابن الجوزی نے بھی ذکر کیا ہے ۔
عبد اﷲ بن شیخ محمد بن عبد الوہاب ؒ سے مکہ مکرمہ میں صدقہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا ” جگہ کی فضیلت کے سبب مکہ میں صدقہ کی بھی فضیلت اور خصوصیت ہے۔ “مشہور صاحب علم شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ فضیلت والی جگہ اور وقت میں نیکیوں اور برائیوں میں اضافہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ” نیکی کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے بڑھتی ہے جبکہ برائی کیفیت کے لحاظ سے بڑھتی ہے نہ کہ کمیت ( مقدار ) کے اعتبار سے۔ “ اسی طرح مشہور صاحب علم اور سعودی عرب کے سابق صدر مفتی¿ اعلیٰ شیخ ابن بازؒ کی صراحت اس سلسلے میں یوں ہے :
”اور حرم میں دیگر اعمالِ صالحہ( یعنی نماز کے علاوہ دیگر نیکیوں ) کا بھی ثواب بڑھتا اور اس میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی متعین حد منقول نہیں جو حد اور صراحت منقول ہے ، وہ نماز کے بارے میں ہے ، جہاں تک باقی اعمال کا تعلق ہے ، جیسے روزہ ، اذکار ، قرا¿تِ قرآن ، صدقات ، تو اس سلسلے میں میرے علم میں کوئی ایسی نص نہیں جو متعین طورپر اضافی حد پر دلالت کرے۔“ الغرض بعض اہل علم روایات کے ضعف کے سبب حرم میں نیکیوں کے ثواب میںاضافہ اور زیادتی کے سلسلے میں کسی تعیین یعنی متعین مقدار کے قائل نہیں ۔