Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج کا اولین سبق ، اخلاص وللہیت

حج ملت ابراہیمی کی یادگارہے، اللہ نے اس کے ذریعہ نہ صرف سیدنا ابراہیم ؑکا تذکرہ باقی رکھا بلکہ اسے باطن کی صفائی کا ذریعہ بنا دیا
* * * * ڈاکٹر رخسانہ جبین* * * *
سورج ڈھلتے ہی میدان عر فات سے کو چ شروع ہو جا تا ہے۔یہ کو چ کا وقت رِقت آمیز ہو تا ہے جب بندوں کی عا جزی اپنے عر وج پر ہو تی ہے ۔ ایک بے قراری اور آہ و بکا کا عالم ہر طرف طاری ہو تا ہے ۔خو ف اور امید کی کیفیت سارے عا لم پر طاری ہے ۔لو گ چلتے جا رہے ہیں ،دعائیں ما نگتے جا رہے ہیں ۔ اگلا پڑاؤ مزدلفہ ہے ۔ایک کھلا میدان جو عر فات کی سر حد سے لے کر منیٰ کی سر حد تک پھیلا ہو اہے ۔پہاڑی علا قہ،پتھر یلا میدان ،جگہ جگہ چھو ٹے پہاڑٰ ی ٹیلے ہیں اور بیچ بیچ میں میدان ہے ۔یہاں حجاج کو رات گزارنی ہے ۔نبی کر یم نے یہاں آکر مغر ب اور عشاء کی نما زیں ملا کر ادا کی تھیں ۔یہی عمل دہرا یا جا تا ہے۔ اس کے بعد حکم یہ ہے’: ’پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آبا ئو اجداد کا ذِکر کر تے تھے اِس طر ح اب اللہ کا ذِکر کروبلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔‘‘(البقر ہ 200) ۔
عر فات اور منیٰ کی طر ح کو ئی جگہ کسی کیلئے مخصوص نہیں ۔معلمین کی ذمہ داری ختم ہے ،کو ئی خیمہ ہے نہ کو ئی اور چھت ۔یہاں را ت کھلے آسمان تلے گزارنی ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ عورتوں اور مردوں لئے کو ئی جگہیں مخصوص نہیں ،جس کو جہاں جگہ ملے لیٹ جا ئیں ۔ عجب عبادت ہے مزد لفہ میں ۔پتھر ہیں، گند گی ہے، کھلی جگہ ہے مگر یہیں سو نا ہے اور رات گزارنی ہے گو یا عبا دت کی اصل رو ح اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ اس کچی زمین پر سو نے کا بھی ویسا ہی ثواب ہے جیسا کہ نما زپڑ ھنے اور ذکر کر نے کا ۔حج ایک ایسی طو یل تر بیت گاہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے خواتین کو کہیں بھی استثنا ء نہیں دیا ۔ را ت مز دلفہ میں گزار کر طلو عِ فجر کے ساتھ ہی منیٰ وا پسی کا سفر شروع ہو جا تا ہے۔ رمی جمار : حج کا اگلا اہم ر کن رمی جمار ہے یعنی شیطان کو کنکر یاں مار نا ۔کنکر یاں مزدلفہ سے چن لی گئی ہو تی ہیں اور گرو پس کی صورت میں حجاج ایک مخصوص علا قے کی جا نب چل پڑ تے ہیں ۔ یہ علا متی شیطان3جگہوں پر بنے ہیں جوچھو ٹا ،درمیانہ اور بڑا شیطان کہلواتے ہیں۔ ہر ایک کو 7 کنکر یاں ما رنی ہو تی ہیں۔ما رتے ہو ئے ’’ اللہ اکبر رغماً للشیطان وحز بہ ‘‘ اور’’ اللھم تصدیقاًبکتا بک واتبا عاً لسنۃ نبیک‘‘ پڑ ھا جا تا ہے، یعنی سعی شیطان اور اس کے لشکروں کے مقا بلے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی سر بلندی کا اعلان اور کتاب وسنت کی تصدیق کا عہد کیاجا تا ہے۔ گو یا ایک نئی زند گی کے آغا ز کا اعلان ہے ۔
حج سے سا بقہ گناہ معاف کرا کے لو ٹ ر ہے ہیں اور بقیہ زند گی اے اللہ! تیری کبر یائی کے اظہاراور اعتراف میں گزرے گی اور شیطانِ مردود پر سنگ زنی کر تے ہو ئے گزرے گی ۔گو یا ایک ایک حا جی زبانِ حال سے کہہ رہا ہو تا ہے کہ ا ے شیطان! تو اب میری زند گی سے نکل جا ۔ نہ معلوم کتنے لو گ ر می جمار کر تے ہو ئے جا ئزہ لیتے ہیں کہ زند گی کے کس کس حصے پر طا غوت کا قبضہ ہے ۔کس کس مو قع پر ہم شیطان سے ہا ر ما ن لیتے ہیں ۔یہاں جس جو ش اور جذبے سے ہم رمی کر رہے ہیں کیا عملی زند گی میں بھی وہ جو ش با قی رہتا ہے ؟ کتنی مر تبہ ہم اپنے نفس کے با طل مطا لبے مان لیتے ہیں ؟ کتنی مر تبہ خا ندان سے ہا رجا تے ہیں خصوصاًرسومات کے مو قع پر۔عورت سسرال والوں کی نا را ضگی کی وجہ سے شادی میں کتنی خرا فات میں شا مل ہو جا تی ہیں ۔برا دریوں کی نا را ضگی کے ڈر سے ہم کہاں کہاں شیطان کی بجائے اپنے دین اسلام پر ہی پتھر بر سا رہے ہو تے ہیں ! رزق کماتے ہوئے ،رزق خر چ کر تے ہوئے ۔
اگر حلال و حرام کی فکر نہیں ہو تی تو پتھر کس پر بر ستے ہیں ۔جب ہماری نسلیں مغر ب کی رو میںبہتی چلی جا تی ہیں ،بیٹیوں کا حجاب اتر کر پتلو نیں اور کیپر یز پہنی جا تی ہیں اور ان کے لباس لو نڈیوں کو بھی مات کر تے ہیں، اُس وقت کس کے قوانین کی ر می ہو رہی ہو تی ہے ۔کاش ہر حا جی اپنی اپنی زند گی کا جائزہ لے۔ حا جی جس طا غوت کو کنکر یاں مارنے کیلئے اس میدان میں جمع ہو تے ہیں اور 3 دن اسکی مشق کر تے ہیں، اس کے حواری جمع ہو کر امت مسلمہ پر یو ں ٹو ٹ پڑے ہیں جیسے بھوکے دسترخوان پر ۔ا ن کے پاس ڈالروں کی چمک ہے جس سے انہوں نے امت کے حکمرانوںکو خر ید لیا ہے ۔! اے حا جی ! کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیوں پلٹ پلٹ کے ’رمی جمار ‘ کیلئے لے جا تا ہے ! ایک بار ،دو بار ،سہ بار ۔ذرا اس کلمے پر دوبارہ غور کر یں جو رمی کر تے ہوئے پڑ ھنا ہے ۔
اللہ اکبر رغماً للشیطان وحز بہ ‘‘اور’’اللھم تصدیقاً بکتا بک واتبا عاً لسنۃ نبیک‘‘۔ بقول مو لا نا مو دودی ؒ ’’ کنکر یوں کی اس جان ماری کا مطلب یہ ہے کہ جو تیرے دین کو مٹا نے اور تیرا بول نیچا کر نے اٹھے گا میں اس کے مقا بلے میں تیرا بو ل بالا کر نے کیلئے یو ں لڑو ں گا ! ‘‘ اگر 40,35لا کھ میں سے10 بیس لا کھ ہی اس جذ بے کے ساتھ یہ عبادت کر یں اور یہ عہد جو وہ کنکر یاں مارتے ہوئے کرتے ہیں اس کو وفا کر دکھا ئیں تو دین اسلام چند سالوں میں غا لب ہو جائے،امت پر طاری ذلت و نکبت ،عزت و سر بلندی میں بد ل جائے ،کاش حجاج، حج کے ان منا سک کی رو ح کو پا جا ئیں ۔ طواف زیارہ: طواف ِ زیارہ حج کا اہم تر ین ر کن ہے۔ ر می کے بعد اگلے 3دن کے اندر اندر یہ طواف کر نا ہے جو فرض ہے۔ یہ مشکل تر ین طواف ہو تا ہے جب لا کھوں حجاج بیک وقت طواف کو چل پڑ تے ہیں ۔حر م شر یف میں تل دھر نے کو جگہ نہیں ہو تی ۔عام حا لات میں جو طواف15سے 20 منٹ میں مکمل ہو تا ہے اُس وقت ایک گھنٹے سے زیادہ وقت میں مکمل ہو تا ہے ۔
اُسوقت ہم کہتے ہیں: اے اللہ !ہم حا ضر ہیں جو مشقت تُوما نگے جو قر بانی ما نگے ،جیسا چلنا ما نگے ،ہم تیرے عشاق چلے آتے ہیں ،دیوانہ وار آتے ہیں تیرے انبیاء ؑ کی سنت کو پورا کر تے ہوئے نبی رحمت کے نقش قد م پر چلتے ہوئے۔ کیا واقعی !زند گی اسو ہ ٔحسنہ کے نقش قدم پر ہی ہے ؟کیا واقعی جہاں اللہ تعالیٰ نے پکارا ہم حا ضر ہو گئے ؟ جہاں اللہ تعالیٰ کے دین کو ضرورت پڑی ہم دیوانہ وار آگئے ؟ کوئی عذر ،کو ئی معذرت ہماری راہ کی رکاوٹ نہ بنا ؟ کوئی مصرو فیت ،کو ئی کام ہمیں اللہ تعالیٰ کے دین کے کام سے رو ک نہ سکا؟ کبھی اے حجاج جائزہ لیا ہو تا !جیسے دیوانہ وار اتنے رش میں اتنی مشقت سے یہ طواف زیارہ کر رہے ہیں ،جتنی والہیت کا اظہار کررہے ہیں ،جتنی فدو یت آج طاری ہے ،اُس کا عشر عشیر بھی عملی زند گی میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے جدو جہد میں لگا یا ہو تا تو اسلامی معا شرے اس زمین پر ،اللہ کی دنیا میں ما ڈل معاشرے ہوتے !پھر کیا ہو تا ہے کہ عملی زند گی میں یہ تعاون کہاں جا تا ہے؟یہ دین کی خا طر مشقت کہاںجا تی ہے ؟اے مسلمانو ! آج مسجدیں کیوں ویران ہیں ؟ کن کن مصرو فیات نے قدموں کو روک لیا ہے ؟کیوں نماز جمعہ کے وقت با زاروں میں رش بر قرار رہتا ہے ؟ کیوں فجر کی نماز میں ایک صف بھی مکمل نہیں ہو تی ؟ واہے ،شادی ہال بھرے ہوئے اوردرس گا ہیں ویران نظر آتی ہیں! نفس تو مز دلفہ ،منیٰ ،رمی جمار کی مشقت کے بعد بہت تھکا ہوا ہو تا ہے ،آرام ما نگتا ہے لیکن یہاں اس کی نہیں سنی جا تی ۔نفس کے تقاضوں کو دبا یا جا تا ہے اور حجاج جو ق در جوق طوافِ زیارہ کیلئے حرم شر یف میں پہنچتے ہیں ۔
پیدل آنے والوں کے پا ئوں سو جے ہوئے اور زخمی بھی ہو تے ہیں لیکن پہنچتے ہیں !پھر یہ سبق زند گی بھر یاد کیوں نہیں رہتا کہ زند گی کی اصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔زند گی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے ،زند گی محنت و مشقت سے عبارت ہے ۔نہ نفس ان مقاصد کی راہ میں رکا وٹ بنناچاہیے، نہ راہوں کا مشکل ہو نا ،نہ بیمار ہو نا ، نہ معذور ہو نا !ہر حال میں اللہ تعا لیٰ کو راضی ر کھنا ہے ۔ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا ہے ،ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر نی ہے، ہاں مہر بان اللہ آسا نیاں کر دیتا ہے ،فرا مین میں تخفیف کر دیتا ہے لیکن قد م اٹھا نا تو شر ط ہے ،چل پڑ نا تو شر ط ہے ،عہد کر لینا تو ضرورت ہے ! وفا مقدور بھر ہی ہو گی ،اجر دینے والا رئوف با لعباد ہے ! قر با نی و عید : طواف زیارہ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کا ایک اور اسوہ مکمل کر نا ہے اور وہ ہے ’’قر با نی ‘‘۔یوں تو حج سارے کا سارا ہی کسی نہ کسی طور پر ایثار اور قر با نی کا نام ہے لیکن یہ رسمِ قر بانی بھی خو ب ہے ! حضرت ابراہیم ؑ نے کیا قر بان کیا اور کیسے ؟ اللہ اللہ اسکا تصور بھی ہمارے لئے مشکل ہے ۔
بیا ن تو ہم بہت جذبے سے کر تے ہیں (وعظ کیا مشکل ہے ،واعظین کی تو امت میں کمی نہیں )لیکن عملاًبیٹے کو لِٹا لینا ،گر دن پر چھری چلا دینا ! کو ئی مداہنت ،کوئی عذر ،کوئی فتویٰ آڑے نہ آیا ۔آج (حا لات حا ضرہ میں )جہاد اور بہت سے دیگر احکام دین سے استثناء کے لئے فتوے ما نگے جا تے ہیں (اب تو خواتین گر می کے ڈر سے پتلے کپڑوں کے جا ئز ہو نے لئے بھی فتوے کی متلا شی نظر آتی ہیں اور مرد کفار کے ڈر سے داڑھی سے استثناء تک کے فتوے چا ہتے ہیں اور فتوے مل بھی جا تے ہیں )لیکن حضر ت ابر اہیم ؑ نے کوئی فتویٰ نہ ما نگا ،نہ کوئی عذر ترا شا کہ وہ تو خواب تھا ۔وہ تو بس ایک کام جا نتے تھے…اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فر ما نبر داری آخری حد تک ،جنون کی حد تک ، مثال کی حد تک،جو اللہ تعالیٰ نے کہا کر گزرے !! ’’ یہ کہتے ہیںکہ یہودونصاریٰ بن جائو تو ہدایت پائو گے، تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے۔‘‘(البقرہ135) وہ اللہ کے سوا اور کسی کی اطاعت نہ جا نتے تھے ،با پ کی بھی نہیں نمروداور انکی قوم کی بھی نہیں ،برادری کی اور اولا د کی محبت نہیں ، بیوی کی محبت نہیں ۔اللہ اور بس اللہ ان کی زند گی کا منتہائے مقصود تھا۔
اے لا کھوں حجاج، انکی پیروی کا دعویٰ کر نے والو ! کیا یہودو نصاریٰ کی پیروی کر رہے ہو یا ابراہیم ِحنیف کی؟قر با نی تو انکی اقتداء میں ،عملی زند گی یہود و نصاریٰ کی اقتداء میں ! تمہارے ملکوں پر انکا قبضہ ! تمہارے حکمران ان کے با جگزار ، تمہاری قومیں ان کی غلام ،تمہاری نسلیں وہ تیار کر رہے ہیں !تمہاری عورتیں انکی طر ح بے حجاب ،تمہاری خواب گاہیں انکی تہذیب کا نمو نہ ! تمہاری زند گی کی دوڑ اُن کے نقش قد م پر ! یہاں کیا قر بان کر کے جارہے ہو ؟ یہاں اللہ تعالیٰ کے حضور کیا پیش کر رہے ہو ؟ سیدنا ابراہیم ؑنے تو ہر رو شن خیالی کو لات ماری تھی ! با دشاہِ وقت کے آگے کلمۂ حق ایسے انداز میں کہا تھا ،ان دلا ئل کے ساتھ کہا تھا کہ وہ مبہوت ہو گیا ’’فبھت الذی کفر‘‘ اس کے آگے کلمئہ تو حید پیش کیا، اس کی سزا کے ڈر سے دین حنیف نہ چھوڑا ۔ تم فر عونِ وقت کے ڈر سے کیا کیا چھوڑ رہے ہو ؟ اے حاجیو ! دین کو کہاں کہاں قر بان کر دیا گیا ہے ؟ کبھی سو چا ! ! اے حاجیو! تم کس قر با نی کے جذبے کو ساتھ لے کر جا رہے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کو کو نسی قر بانی پسند ہے ؟ پتہ نہیںکتنے حجاج سو چتے ہوں گے ۔ سر منڈوانا : حج کا اگلا اور اہم فعل حلق یا تقصیر ہے ۔مر دوں کیلئے سر منڈوانا ،عورتوں کے لئے بال کٹوانا ۔
یہاں بھی اصل رو ح تو اللہ تعالیٰ کی غیر مشرو ط اطاعت ہے اور خواہش کی قر با نی بھی ! اللہ تعالیٰ تر بیت کرتے کر تے اس مقام پر لا تا ہے کہ چھو ٹی سی چھو ٹی چیز بھی میری راہ میں قر با ن کر نے سے دریغ نہ کرو ۔چا ہے وہ سر کے بال ہوں ۔ مو منا نہ زند گی ! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نام ہے ۔ اب ا حرام اتر گیا، اچھے کپڑے پہنیں ،خو شبو لگا ئیں ،عید منائیں ،خو شی منائیں کہ حج کرلیا ۔گنا ہ معاف ہو گئے ۔اللہ را ضی ہو گیا۔یہ عیدکیا صرف اسی بات کا جشن ہے ؟تو پھر وہ سب کیوں منا تے ہیں جو حج پر نہیں آئے !علما ئے کرام کہتے ہیںکہ یہ اسوۂ ابر اہیمی تو ضرور ہے لیکن اس آیت کے نزول کا جشن بھی ہے جو میدان عرفات میں عین دوران حج نبی کریم پر نا زل ہوئی : ’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘( المائدہ 3) ۔ پورے ادیانِ عالم میں سے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فر ما یا ۔اپنے سارے بندوں کیلئے پسندکیا ۔ اس دین کا امین اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو بنا یا ہے اور یوم عر فہ میں یہ آیت نازل ہو ئی ۔
یہ ’’دینِ تو حید‘‘ اس کا ہم پر احسان ہے اور اس احسان کا جشن یہ عید ہے گو یا اس بات کی خو شی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا مکمل دین عطا فر مانے کیلئے چن لیا ہے ۔اب اس دین کے تقا ضے پورے کر نے کیلئے جس محنت ،ایثار و قر با نی کی ضرورت ہے ا سکو اسوۂ ابرا ہیمی ؑ کے ساتھ جو ڑ دیا کہ اس کی تکمیل اس طر ح ہو سکتی ہے کہ جن پر اللہ تعالیٰ نے یہ عنا یت کی اور انبیا ء کا وارث بنا یا۔ وہ اس دین کی اقامت اور دنیا میں اس کا بو ل بالا کرنے کیلئے اللہ کی راہ میں نکلیں ،وقت لگا ئیں ،مال خر چ کریں ،اپنی صلا حیتیں اس کی سر بلندی کیلئے استعمال کر یں ۔جس جس قر با نی کا تقا ضا یہ مشن اور نصب العین کر ے اسے سنت ِ ابراہیمی کے مطا بق کر تے چلے جا ئیں یہاں تک کہ دنیا سے شیطان کی عملد اری ختم ہو کر اللہ تعالیٰ کا نظام غا لب آجا ئے ،اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کا مشن مکمل ہو جا ئے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کاایک مرکز پر اتنا بڑا اجتماع وہ بھی تقویٰ اورپاکیزگی کے عالیشان جذبوں کے ساتھ،رضائے الٰہی کے اعلیٰ اور یکساں نصب العین کے تحت دنیا میںاور کہیںمنعقد نہیں ہوتا۔2دن منیٰ میں قیام کے بعد حاجی واپس آکرطوافِ وداع کرتے ہیں گویااللہ تعالیٰ کی فوج اپنی ٹریننگ پوری کرکے ہیڈ کوارٹر کی طرف واپس آرہی ہے اور اب یہاں سے اپنی اپنی بیرکوں ،مورچوںاور میدانوں کی طرف اپنی مستقل ڈیوٹی ادا کرنے چلی جائیگی۔ جس روحانی قوت وتربیت کی اسے ضرورت تھی جو شارٹ کورس اسکی تازگی کے لئے مطلوب تھا وہ اس نے پورا کرلیا۔اب میدانوں کا رخ ہوگا اور معرکے سر کئے جائیں گے۔!کاش ایسا ہوجائے!!

شیئر: