Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بوٹوں کی دھمک قریب سے آرہی ہے،عاصمہ جہانگیر

کوئٹہ ...معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ پانامہ کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدذہنوں میں کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ کیا کسی وزیراعظم کو تاحیات نا اہل کرنے کی آئین اجازت دیتا ہے۔جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے اہلکاروں کو کس آئین کے تحت رکھا گیا؟کسی کو بھی بغیر ٹرائل کے نا اہل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔فیصلے کے بعد جس طرح ججوں کی تصاویر سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا پر شکریہ کے پیغامات کےساتھ چلائی گئیں کیا یہ انصاف کے تقاضے تھے۔ جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ بوٹوں کی دھمک بہت قریب سے آرہی ہے۔یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب کے پروگرام ”حال و احوال “میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ بھی موجود تھے۔ عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ بوٹ والے دور نہیں۔ وہ ہمارے آس پاس ہی ہیں۔ سپریم کورٹ کی آن بان شان جمہوریت سے ہی ہے۔ مارشل لاءمیں اسکی حیثیت کسی لیفٹیننٹ کرنل سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ملک کے حالات ٹھیک نہیں۔ سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے۔ سیاست کو کیچڑ بنادیا گیا ہے جس سے اب کسی کا دامن محفوظ نہیں رہا ۔پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ ذاتی حملے ہورہے ہیں ۔ایک سوال پرعاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایک شخص کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ قانون ،جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہئے۔ پانامہ کیس میں نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔عدلیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ نا اہلی کے فیصلے کو قبول کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوگیا لیکن بعض حلقوں کی چیخ و پکار سے لگتا ہے کہ انہیں ایک نا اہل شخص کی عوام میں واپسی بھی قبول نہیں۔ یہ فاشزم ہے ملک کو تباہی کی طرف لے جایا جارہا ہے ۔ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ججوں کو بھاری رقوم کی آفرز ہوئیں یہ باتیں تشویشناک ہیں۔ اگر یہ جھوٹ تھا تو ججوں کو سختی سے تردید کرنی چاہئے تھی۔اگر سچ تھا تو رشوت آفرکرنے والوں کو سختی سے سزا ملنی چاہئے تھی۔ ججوں میں وزڈم کی کمی نظرآتی ہے۔ 1992ءمیں بھی نواز شریف کے خلاف کرپشن کے کیسز تھے اس وقت کے 11رکنی بنچ نے انہیں کیوں بری کیا ۔کیا وہ فیصلہ درست تھا یا یہ فیصلہ درست ہے ؟۔
 

 

شیئر: