Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترقی پذ یر ممالک میں سیاسی رسہ کشی عام وتیرہ

عوام کا معاشی طور پر مضبوط ہونا جمہوری نظام کے لئے ضروری ہے
 تسنیم امجد ۔ریاض
آجکل معاشی و سماجی شعور کے باعث شہریوں کے مفادات کے مختلف پہلواکثر لوگوں کے اذہان میں نمایاں ہیں۔وہ اپنے مفادات محفوظ رکھنا چاہتے ہیںلیکن اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک فرد کی کاوش نا کافی ہوتی ہے۔جب وہ محسوس کرتا ہے کہ کسی خاص معاملہ میںاس کے اور دوست یا شہری بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ ایک گروہ کی صورت میں منظم ہو جاتے ہیں۔کچھ گروہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے بنتے ہیں۔ ان کے درجات اور اقسام مختلف ہیں۔ یہ غیر شعوری طور پر سر گرم عمل ہوتے ہیں۔جیسے مہنگائی کے خلاف کسی شے کا بائیکا ٹ کر دینا وغیرہ۔کسی کی مدد کرنے کی غرض سے اس قسم کی عارضی گرو ہ بندی اکثر کر لی جاتی ہے ۔
چیرٹی یا خیرات جمع کر نے کی مہم میں بچے بڑے سبھی جُت جاتے ہیں۔خیرات لینے والے کسی قسم کی رسید نہیں دیتے ۔اگرکوئی تنظیم رسیدکی کاپیاں بنا بھی لے تو یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کا والی وارث کون ہے ۔ نہ ہی کوئی اس بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ مبا دا کوئی برا مان جائے ۔اسی طرح کسی مدرسے وغیرہ کی تعمیر کے نام پر چندہ جمع کرنا شروع ہو جائے تو یہ علم نہیں ہو پاتا کہ اس کا انچارج کون ہے یا اس کا حساب کتاب کس کے پاس ہو گا؟
گزشتہ دنوں کسی نے بتایا کہ وہ ہر ماہ کچھ رقم چیرٹی کے نام پر ایک انجمن کو بھجواتے تھے۔ ان کے پاس اس کا اکاﺅ نٹ نمبر بھی تھا۔ انجمن کے اغراض و مقا صد سے متا ثر ہو کر انہوں نے اپنے چند دوستو ں کو بھی اس نیکی کی جا نب را غب کیا ۔ہم پا نچو ں مل کر پیسے بھجوا دیتے تھے۔ کوئی 6ماہ بعدہی اسے وطن جانے کا اتفاق ہوا تو سو چا ان لوگوں کو بھی مل لوں جو اس انجمن کے کرتا دھرتا ہیں۔ملاقات کا وقت لیا اور وہاں پہنچا تو ایک شخص جو حلئے سے چپڑا سی لگ رہا تھا،اس نے بتایا کی صا حب کوآج ایمر جنسی میں اپنے گاﺅ ں جانا پڑا ہے ۔وہ آ پ سے معذرت خواہ تھے۔دو روز بعد آئیے۔خیر2 روز بعد بھی انہیں کسی ایمر جنسی نے آلیا تھا۔ واپسی پر سوچا کچھ باز پرس کی جائے۔ہوا یوں کہ اسی چپڑاسی نے زبان کھول دی کہ صاحب کہیں جاتے واتے نہیں بلکہ آپ سے ملنا ہی نہیں چا ہتے۔خیر یہ لمبی کہانی ہے ،کیا بتاﺅں۔ہمارا چیرٹی کے نام پر لیاگیا پیسہ کسی کے عیش و نشاط کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔مجھے اپنے بھروسے پر بہت غصہ آیا لیکن کس سے ذکر کرتا ؟بینک کے منیجر سے پو چھا تو یہ جان کرحیرت ہوئی کہ 2 روز قبل ہی سارا پیسہ نکلوا کر اکا ﺅ نٹ بند کروا دیا گیا ہے ۔را بطے کے نمبر بھی جعلی نکلے۔
اس قسم کی وارداتوں میں قصور کس کا ہے؟ایسی کتنی ہی خود ساختہ تنظیمیں ملک میں مو جو د ہیںجو دندناتی ہوئی عطیے وصول کر رہی ہیں۔ان کی پشت پناہی میں بعض اوقات ملک دشمن عناصر ملوث پائے جاتے ہیں لیکن اطلاع ملنے پر بھی ایکشن ندارد ،چہ معنی دارد؟ یہ تنظیمیں شاید جمہو ریت کے نام پر اپنا حق جتاتی ہیں۔عوام اپنے حقوق کا نا جا ئز استعمال کرتے ہیں ۔اس لئے کہ انہو ں نے کسی نہ کسی نمائندے کو ووٹ دیکر خریدا ہوتا ہے۔یو ں اس کی قا بلیت کو دیکھے بغیر اپنے تعلقات مد نظر رکھے جاتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ووٹ بیچے جاتے ہیں ۔یہ عادی بھکاریو ں کی ہی ایک قسم ہے۔اکثر ایسے ادارے یا تنظیمیں باہمی چپقلش میں ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالتے ہیں۔ان کے حو صلے دیکھئے کہ یہ تنظیمیں بعض حکو متی منصوبو ں پر بھی احتجاجی پلے کارڈ اٹھا لیتی ہیں۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان کی پشت پناہی ہو رہی ہے ۔جمہوری ملک جہاں خواندگی کی شرح کم ہو تی ہے وہاں کے عوام اسی طرح اپنے حقوق کا غلط استعمال کرتے ہیں۔اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں فیصلے اکثریت سے ہو تے ہیں خواہ اکثریت میں لیاقت ، قا بلیت و صلاحیت سرے سے معدوم کیوں نہ ہو ،تعداد ہی اصل پیمانہ قرار پاتی ہے ۔علا مہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ :
جمہو ریت ایک طرز حکو مت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں ،تو لا نہیں کرتے
اس اصول کے مطابق جو حیثیت ایک احمق اور بے وقوف کی رائے کی ہے، وہی تجر بہ کار سیاست دان کی ہوتی ہے۔عوام کی اکثریت اس قابل نہیں ہوتی کہ اپنی رائے کا صحیح استعمال کر سکے کیو نکہ سیاسی شعور تعلیم کا مر ہو ن منت ہے ۔اسی لئے یو نانی مفکر ارسطو نے کہاتھا کہ ”جمہو ریت، حکومت کی گمراہ کن شکل ہے ۔“ 
عوام کا معاشی طور پر مضبوط ہونا جمہوری نظام کے لئے ضروری ہے ۔صحت مند رائے عامہ کے لئے شہریوں کو معاشی تفکرات سے بالا ترہو کرسوچنا چاہئے۔یہ ترقی پذ یر ملکو ں کے لئے ممکن نہیں کیو نکہ یہاں حکو متیں خود مسائل کا شکار رہتی ہیں ۔سیاسی رسہ کشی بھی ایک عام وتیرہ ہے۔
مغربی ممالک میںاکثر گروہ زندگی کے مختلف شعبوں میںہزاروں کی تعداد میں سر گرم عمل ہیں ۔صنعت وتجارت اور زراعت کے میدان میںیہ اپنے ارکان کے معاشی مفادات کے تحفظ میںفعال ہیں۔عام لوگ ان کی کار کردگی سے واقف ہوتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے بعدان گروہوں کی سر گر میاں عوام کی تو جہ کا مرکز رہتی ہیں۔انہیں ایسو سی ایشنل مفا داتی گروہ کہتے ہیں ۔وہاں نان ایسو سی ایشنل مفاداتی گروہ بھی فعال ہوتے ہیں ۔ان میں مذ ہبی ،علاقائی ،طبقاتی اور برادریوں پر مشتمل گروہ شامل ہیں۔انسٹی ٹیو شنل مفاداتی گروہ ، دہشت پسند مفا داتی گروہ بھی اپنے اپنے مفادات کے پیشِ نظر فعال رہتے ہیں ۔اکثر مادی اور غیر مادی مفادات کی اساس پر تحفظا تی گروہ اور پرو مو شنل گروہ بھی فعال ہوتے ہیں ۔ان مما لک میں ان گروہوں کے بارے میں معلومات حکومتی سطح تک ہو تی ہیں ۔اکثر کسی پا لیسی کی تشکیل میںان گروہوں کی آراءکو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے ۔یہ گروہ ترقی پذ یر ممالک کی طرح پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج نہیں کرتے۔گروہی سیاست اندر ہی اندر رہتی ہے۔اسے منظر عام پر لانے کی مما نعت ہو تی ہے۔عطیہ ،خیرات بغیر کسی اجازت نامے کے لینا جرم ہے۔
کاش ہمارے وطن میں اس حقیقت کا ادراک ہو جائے کہ صلا حیتوں کو بروئے کار لا کر بڑے سے بڑے معرکے سر کئے جا سکتے ہیں۔اس طرح کے حربے ہمارے وقار اورشان کے خلاف ہیں۔علامہ اقبال نے انسان کی عظمت کا اعتراف کس خو بصورت انداز میںکیا ہے :
کھول آنکھ زمیں دیکھ،فلک دیکھ ،فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میںیہ بادل یہ گھٹا ئیں
یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضا ئیں
اور
اے پیکر گل کو شش پیہم کی جزا دیکھ
 
 
 
 
 
 

شیئر: