Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قربانی کا مقصد، تقرب الٰہی اور تقوی

غورکیاجائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتاہے مگر انسان اسے نظرانداز کردیتاہے
* * * محب اللہ قاسمی۔نئی دہلی***
قربانی ایک مختصر لفظ ہے ،لیکن انسانی زندگی میں اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور مختلف انداز میں پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصدہوتاہے۔ انسان جواپنی زندگی کے مختلف مسائل میں الجھا ہوتاہے،اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد چھپا ہوتا ہے اور مقصد جتناعظیم ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ مثلاًانسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جوتقرب الٰہی اور کیفیت تقویٰ کے بغیرممکن نہیں اور یہ تقرب الٰہی ،کیفیت تقویٰ کے بغیرحاصل نہیں ہوتی لہذا اطاعت کیلئے قربانی ضروری ہے۔ارشاد ربانی ہے: ’’نہ اُن (قربانی کے جانوروں )کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون مگراسے تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔ ‘‘ (الحج37)۔
اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مقصودان جانوروں کا خون یا ان کاگوشت نہیں بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کس قدر یقین رکھتے ہیں ؟اس کے احکام کی کس قدرپابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقت ِ ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیاررہتے ہیں ؟ تقویٰ کی صفت اللہ تعالیٰ کوبے حدمحبوب ہے ، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کوترجیح دے کرانھیں اختیا ر کرتاہے۔ اگرکوئی شخص کسی عمل کو تقویٰ کی صفت کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ خالصۃً للہ ہوتاہے۔ اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو ہی روزے جیسی اہم ترین عبادت کا مقصدقراردیاہے۔ اس طرح ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتاہے‘‘(المائدہ27)۔
عیدالاضحی کا مقصدبھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیزسے عزیزترچیز کوحکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیداکرنا یہی قربانی ہے۔ اس سے ان کو یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد ِزندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔ یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اسکے اندرنکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے: عندالامتحان یکرم الانسان اویہان،یعنی جوشخص جس قدر آزمائش سے دوچارہوگا اور اس میں وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس کا عزیز تربندہ ہوگا۔ قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک ذریعہ ہے جو قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے،قرآن کہتاہے: ’’ہرامت کیلئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقررکردیاہے تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جواس نے ان کو بخشے ہیں۔‘‘(الحج34)۔
اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔ صحابہ کرامؓ نے نبی اکرم سے پوچھا: ’’یارسول اللہ ! یہ قربانی کیاچیز ہے؟‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم( علیہ السلام)چ کی سنت ہے۔ ‘‘ (ترمذی،ابن ماجہ)۔ قربانی کے مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم ؑ کی بے مثال ،قابل رشک زندگی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص کوجس سے جتنی محبت اور لگاؤ ہوتا ہے، وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتاہے۔ اس کرۂ ارضی پررونماہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں توہمیں بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں ، دلفریبیاں اور جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ عقیدت ومحبت ،الفت ومودت کی انگنت کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور عشق کے جنون میں ڈوبے تخت وتاج ، مال واسباب لٹادینے والے ،پتھروں ،چٹانوں سے دودھ کی نہریں جاری کرنے میں اپنی تمام ترجدوجہد صرف کردینے والے عشق کے شہنشاہوں کی ہزاروں داستانیں تاریخ میں ملتی ہیں۔ مگرفدائیت وللہیت ،استقامت وثبات قدمی،ابتلاوآزمائش سے لبریز،دل سوز،سبق آموزاورناقابل فراموش داستان جوخلیل اللہ کی ہے اور جوایثاروقربانی ، اطاعت ِ ربانی اور مشیت الٰہی کی تعمیل کے جذبہ کی کار فرمائی اِس عاشق الٰہی میں ملتی ہے۔ دیگرعشاق کائنات اس سے بالکل خالی وعاری ہیں۔ اس عاشق نے اپنے محبوب کی تلاش میں حسین کائنات اور ا س کی اور گل ا فشانیوں کوچھان مارا۔
اس تلاش وجستجومیں اچانک اس کی نگاہ ایک تاریک شب کی سیاہ چادرمیں لپٹے ہوئے ،ایک ستارے پرپڑی توفرحت و انبساط سے اس کا حسین چہرہ کھل اٹھا۔ اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زبان پر ’’ہٰذاربی‘‘ (یہ میرارب ہے) کے کلمات آگئے،مگرجونہی ستارہ اس کی نگاہ سے اوجھل ہوا فوراً اس کی زبان حرکت میں آئی اور صاف طورپراس نے’’لااحب الافلین‘‘کہہ کر بے زاری کا اظہارکیا ۔اس کے بعد اس نے روشن چاند دیکھا تو ’’ ہٰذاربی‘‘ کہہ کرپکاراٹھا، لیکن جب وہ بادلوں کی اوٹ میں چلاگیا تو اس نے اس کو بھی خداماننے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد جیسے ہی روشن صبح نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب کشائی کی توایک چمکتادمکت آفتاب اپنی تابناکی کے ساتھ رونماہوا،اس کے اس انداز اور بڑے پن کودیکھ وہ ان الفاظ میں گویاہوئے:ہٰذاربی ہذااکبر’’ یہ میرا رب ہے ، یہ بہت بڑا ہے‘‘، مگریہ کیا !سورج بھی غروب ہوگیا۔
یہ دیکھا تو اس نے اس سے بھی بے زاری ظاہر کردیا اور اعلان کردیاکہ یہ میرا رب نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اس عاشق نے اپنے خالق ومالک کو ڈھونڈلیا اور کہا کہ میرا رب تووہ ہے جس نے سورج،چاند ، ستارے اور کائنات کی تمام چیزوں کوپیداکیا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے اور دنیا کی ہرچیز اس کی محتاج ہے۔ جب اس نے اپنے موحدہونے( اللہ کوایک ماننے والا)کا اعلان کیاتو سارے لوگ اس کیخلاف ہوگئے۔ اب اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہواتوہرجگہ آپؑ اپنی قربانی پیش کرتے چلے گئے ،چنانچہ بت پرست گھرانے کاہوتے ہوئے ،بت شکن ہونے کے سبب انھیں بادشاہِ وقت نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالاگیا مگرہوا یہ کہ جو آگ شعلہ اگل رہی تھی وہ آپؑ کیلئے گلشن رحمت بن گئی۔پھراللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کی عمر میں آپ کوایک نیک اور بردباراولادعطاکی لیکن پھر اس کے معاملہ میں بھی آزمائش کی۔ اسے اولاً توغیرذی ذرع وادی میں چھوڑدینے کا حکم ہوا۔ جب اس آزمائش میں بھی آپ ؑ کامیاب ہوگئے اور یہ لڑکاجب دوڑنے کھیلنے کی عمرکوپہنچا تواس کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ہوا۔
قرآن کریم نے کچھ اس انداز سے اس کا نقشہ کھینچاہے: ’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑدھوپ کرنے کی عمرکوپہنچ گیاتو(ایک روز) ابراہیم ؑ نے اس سے کہا’’بیٹا میں خواب میں دیکھتاہو کہ تجھے ذبح کررہاہوں، اب توبتا تیرا کیاخیال ہے؟‘‘اس نے کہا’’اباجان !جوکچھ آپ کوحکم دیاجارہاہے اسے کرڈالئے، آپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ ( الصافات102)۔ آپ ؑاپنے جذبات وخواہشات کو بالائے طاق رکھ اس عظیم قربانی کی انجام دہی کیلئے بھی تیارہوگئے۔ بچے کو ذبح کرنے کیلئے لٹایا اور گردن پر چھری پھیرنے کیلئے تیارہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کی اطاعت کا یہ جذبہ بے حد پسندآیا اور فرمایا: ’’آخرکو جب ان دونوں نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کوماتھے کے بل گرادیا اور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم!تُونے خواب کو سچ کردکھایا،ہم نیکی کرنیوالوں کو ایسی ہی جزادیتے ہیں،یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ ‘‘ (الصافات106-103) ۔
مگراللہ تعالیٰ کا مقصدتواس جذبۂ اطاعت کو دیکھنا تھا۔ بچے کی قربانی مقصودنہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اورہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میںدیکر اس بچے کو چھڑالیا،اور اس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کیلئے بعد کی نسلوں میں چھوڑدی ، سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی جزادیتے ہیں۔ ‘‘ (الصافات110-107)۔ اگر غورکیاجائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتاہے مگرانسان اسے نظراندازکردیتاہے اور وہ بھول جاتاہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم ؑ کو خلیل اللہ کا خطاب ملاتھا۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں گے اور جب بھی عیدالاضحی کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دہرائیں گے اس لئے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں ،وہ اطاعت الٰہی کیلئے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں اور اس راہ میں قربانی دینے پر تیاررہیں کیونکہ آج بھی : آگ ہے، اولاد ہے، ابراہیم ہے، نمبرود ہے کیا کسی کو، پھرکسی کا، امتحان مقصود ہے

شیئر: