Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”آپ ہی گو یا مسا فر ،آپ ہی منزل ہو ں میں“

 
آئیے نسل نوکا ہاتھ تھام کر نئی منز لو ں کی جانب گا مزن ہو جائیں
                                   تسنیم امجد۔ریاض
محرومی کسی بھی شے کی ہو، انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔معاشرت روا ں رکھنے کے لئے وطن میں ہر طرح کے ادارے مو جود ہیں۔افسوس کہ ان میں سے بیشتر کو آ ئین و قانون کے تحت فرا ئض کی ادائیگی کا احساس ہی نہیں بلکہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی میں ان کا بڑا پن ہے ۔عروس ا لبلاد چلا چلا کر اپنی بے بسی کا رونا رو رہا ہے کہ:
”کو ئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو“
اس شہر کی بز ر گی سے انکار نہیں۔یہا ں کا سموپو لیٹن سہو لتیں میسر ہیں۔عوام اس قدر مسا ئل کا شکار ہیں کہ ان کے لئے جینا محال ہو رہا ہے۔ہر سیا ستدان اپنے انتخاب سے قبل یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں اسے لندن اور پیرس کے ہم پلہ بنا دو ں گالیکن ان سنہرے خوا بو ں کے عوض جو دِکھائی دیتا ہے وہ بس وہی چوپٹ راج ، اس شہر کے بیشتر علاقے بنیادی سہو لتو ں سے محروم ہیں۔وہا ں کے باسی کبھی کبھار اپنی مدد آپ کے تحت سنوارنے کی کو شش کرتے ہیںلیکن کہا ں تک ؟ 
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر عوام کے جذ بہ حب ا لوطنی کی عکاس ہے ۔خاص طور پرنسل نو کا احساس لا جواب ہے ۔ان کی کا وش را ئگا ں نہیں جائے گی کیو نکہ امید ابھی کچھ باقی ہے۔ دئیے کی روشنی اپنا اثر ضرور رکھتی ہے ۔مسلسل لا پر وائیوں نے مسا ئل کو بے تحاشا بڑ ھا دیا ہے۔یو ں اکثر علاقے شہر کم اور کچرا منڈی زیادہ نظر آتے ہیں۔کا ش ہم اپنی پہچان ،تہذیب و روایات کی ہی حفاظت کریں۔ہم وہ جن سے دوسری قو مو ں نے سیکھا۔دنیا میں بو دو باش کے معیا ی انداز کیا ہیں،ہمارے آبا ءنے اقوام عالم کوسکھا یا ۔دوسروں نے ہماری تعلیمات کو مستعار لیا اور معزز بن گئے ۔ہمارے بعض سیاستدانوں کے لئے کر سی ہی ان کی زندگی کا مقصد بن کر رہ گئی ۔وہ توجہ ہی نہیں دےتے کہ کون چیخ رہا ہے ،کون کراہ رہا ہے۔سچ یہ ہے کہ ہر کسی کواپنی اپنی پڑی ہے ۔شاعر نے انہی حا لات کے لئے کہا گیا ہے کہ :
”مجھ کو سیدھے راستے سے در بدر اس نے کیا“
اس شہر کا نکاسی¿ آب کا نظام اتنا خستہ ہو چکا ہے کہ اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک خاتون کا کہنا ہے کہ آج سے پانچ برس قبل وہ اپنے عزیز کے ہا ں چند دن کے لئے ٹھہر گئے۔صبح وضو کرتے ہوئے پانی کے ہمراہ کیڑے ہاتھ میں آنا معمول تھا۔ایک مرتبہ تو کلی کے دوران کچھ نگلا بھی گیا۔نہ جانے وہ کیا تھا ۔یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی کیچواہی نہ نگل لیا ہو۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کبھی کو ئی تکلیف محسوس ہو تو فوری را بطہ کیجئے ۔بقول ان کے یہ ممکن ہو سکتا ہے ۔اب آ پ ہی سو چئے مےرے احساسات کا کیا حال ہو گا ۔اس شہر کے اہم علاقے بھی لا پروائی کا شکار ہیں۔
لکی اسٹار ، صدر ،کرا چی کا ایک اہم مقام ہے ۔کلفٹن جانے کا راستہ اسی سے ہو کر گزرتا ہے ۔آرام باغ روڈ،پا کستان نیوی فلیٹ کلب وغیرہ کے راستے پر جاتے ہوئے سوا ئے افسوس کے کچھ نہیں ہوتا۔یہ شہر جب دارالحکومت بنا تھا تو اس کی آبادی 4لاکھ تھی اور اب24 ملین ہے۔ان تمام حالات کے باوجود یہ آج بھی وطن کا اقتصا دی پاور ہا ﺅ س ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ رو شنیو ں کا شہر آج اندھیروں کا شہر بن چکا ہے ۔گندگی کے ڈھیروں نے جینا مشکل کر رکھا ہے۔منی پاکستان کہلانے والا شہر دہشتگردی ،بھتہ خوری ،قتل و غارت اور دیگر بےشمار مسائل میں گھرا ہے ۔صفائی ستھرائی کا بھی کو ئی معقول انتظام نہیں ۔گند گی کے ڈھیروں سے اٹھتی ہو ئی بد بو کا کو ئی پرسان حال نہیں۔سیو ریج سسٹم اس قدر خراب ہے کہ بارش کے بعد سڑ کو ں پر مہینو ں پا نی کھڑا رہتا ہے۔لو گو ں کا کہنا ہے کہ با رش میں لطف اندوز ہو نا دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے ۔یو ں لگتا ہے کہ روشنیو ں کے اس شہر کو نظر لگ گئی ہے ۔چیمبر آف کا مرس کا کہنا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لئے احتجاجی ہڑ تا لیں کرتے ہیںتو ایک دن کی ہڑ تال سے کم از کم10 ارب روپے کا کا رو باری نقصان ہو تا ہے ۔اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دل بر دا شتہ لوگ خود اپنے ہی پا ﺅ ں پر کلہا ڑی مارتے ہیںلیکن کیا کریں شاید یہی ان کا مقدر ہے ۔عوام کو یہ شعور کون دلائے کہ کر تا دھرتاﺅ ں پر تکیہ کم سے کم کریں۔خود ہمت سے کام لیں ۔اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے یکجہتی کا دامن تھا میں تو ان شاءاللہ، قدرت کی جانب سے مدد ہو گی۔ شہر کی صفائی کی ذمہ داری عوام پر بھی ہے۔
ایک خاتون سے اس مو ضو ع پر بات ہو ئی تو کہنے لگی کہ اتنا کچرا پہلے سے پڑا ہو تا ہے اگر ہم نے پھینک دیا تو کیا فرق پڑے گا۔ ہمارے علاقے والے تو یہیں پر ڈال دیتے ہیں۔ا صل مو قع یعنی کچرا ڈالنے کی جگہ تو دور ہے۔اسے سمجھانے کی بہتیری کوشش کی لیکن وہ تو ، میں نہ مانوں ، کی رٹ لگائے ہوئے تھی ۔ماحول کو صاف رکھنا ،ہماری بھی ذمہ داری ہے۔یہی سوچ کر کہ اس کا اثر آنے والی نسل پر بھی پڑے گا۔شخصیت کی نشو نما میں ماحول کا بہت اہم حصہ ہے ۔
وطن ہزا روں بلکہ لاکھوں جا نوں کی قر با نیوں سے حا صل ہوا۔ان کی قربا نیاں کیا اپنے لئے تھیں؟ انہ جیسا جذ بہ زندہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ وطن بھی گھر ہی ہے۔ جس طرح ہمیںصاف گھر اچھا لگتا ہے اسی طرح صاف ماحول بھی پسند ہو نا چاہئے۔اچھے خاصے ¿خواندہ لوگ بھی چلتی گاڑی سے اکثر آئس کریم یا چپس کے ریپر شیشہ کھول کر باہر پھینک دیتے ہیں۔یہ خیال کئے بغیر کہ باہر سڑک صاف ہے۔
گزشتہ دنوں کچھ لوگ شکایت کر رہے تھے کہ بہادر آباد میںآئس کریم کھانےوالے خالی کو نز اور ریپر جگہ جگہ ڈال دیتے ہیں۔کوئی صفائی کرنے کے لئے نہیں آتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے بعض شہری کسی دوسرے ملک کی حدود میں دا خل ہوتے ہی نہایت منظم ہو جاتے ہیں۔ٹشو کا معمو لی سا ٹکڑا پھینکنے کے لئے بھی ڈسٹ بن ڈھو ندتے ہیں اورنہ ملے تو اسے جیب میں ہی گھسا لیتے ہیں۔رویو ں میں یہ تضاد ،چہ معنی دارد؟ایسے حالات کے لئے ہی کہا گیا ہے:
ڈھو نڈتا پھرتا ہو ں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گو یا مسا فر ،آپ ہی منزل ہو ں میں
کاش! ہم سمجھ سکیں کہ وطن تو ماں کی مانند ہے جس نے اپنے آنچل میں ہمیشہ ہمیں پناہ دی ہے ۔اس کے سر سے چادر کھینچنے کی کو شش سنگین غداری ہے۔شکایتوں سے پہلے اپنے گریبان میں جھا کنا ضروری ہے ۔
انتظا میہ کا کہنا ہے کہ شہر سے کئی ٹن گندگی روزانہ نکلتی ہے جسے گا ڑ یوں میں بھر بھر کر شہر سے باہر لے جایا جاتا ہے ۔اس کے لئے حال ہی میں72 کروڑ کی گا ڑیا ں خریدی گئی ہیں۔جہا ں تک سیوریج کا تعلق ہے ،یہ بہت پرانا ہو چکا ہے۔نئے منصوبے کی شروعات سے قبل ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ضروری ہو جاتی ہے،اس طرح وقت کا بیشتر حصہ اس کی نذر ہو جاتا ہے ۔تب تک کی تا خیر نئے منصوبے کی تا خیر کا سبب بنتی ہے ۔بجٹ تو منظور ہوا نئے منصوبے کے لئے لیکن اس ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کہا ں سے ہو ؟ اس طرح منصوبے میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے ۔شہر میں 3 لاکھ 50 ہزار کے لگ بھگ مین ہول ہیں۔ان کے ڈھکنوں اور دوسری دیکھ بھال کے لئے الگ نگران چاہئے لیکن ایسا ہر گز نہیں۔مین پاور کی کمی سے بھی ذمہ داریوں میں تا خیر ہوتی ہے ۔
یقین کیجئے نسل نو بہت بیدار ہے ۔وہ اپنا تن من دھن وطن پہ قربان کرنے سے دریغ کرنے والی نہیں۔آئیے ان کے ہاتھ تھام کر نئی منز لو ں کی جانب گا مزن ہو جائیں ۔اپنے اپنے حصو ں کے دیئے خود جلانے کے لئے۔
 
 
 
 
 

شیئر: