Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کے ساتھ اتنی ناانصافی کیوں؟

کہنے کو تو یہ سونے کی چڑیا ہے لیکن اس کے ساتھ اوّل دن سے سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا گیا
* ** صلاح الدین حیدر* * *
کراچی صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں، بلکہ اس کی معاشی شہ رگ بھی ہے۔بندرگاہ اور تجارتی مرکز ہونے کے باعث ملک کی 70 فیصد آمدنی یہیں سے ہوتی ہے۔ پورے ملک کا 70 فیصد بجٹ کراچی سے ہونے والی آمدنی اور صو بہ سندھ کا 97 فیصد بجٹ اسی شہر سے پورا کیا جاتا ہے۔کہنے کو تو یہ سونے کی چڑیا ہے، لیکن اس کے ساتھ اوّل دن سے ہی سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا گیا جو آج تک نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں شدت آگئی ہے۔ آئین پاکستان کے تحت (جسے 1973 میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا) شہری اور دیہی علاقوں میں 60/40 فیصد کا تناسب رکھنا لازمی ہے۔ آئین میں پہلے10 سال تک کوٹا سسٹم رکھا گیا تاکہ شہری اور دیہی علاقوں کے لوگوں میں خلیج کم کی جاسکے لیکن بھٹو کی شہادت کے بعد، اُنہی کی پارٹی کے لوگ اس سے منکر ہوگئے۔
یہ کوٹا سسٹم آج تک قائم ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں اس آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی آبادی کسی طرح بھی اس پر تیار نہیں تھی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ایم کیو ایم ظہور پذیر ہوئی۔سندھی مہاجر کا تنازع پیدا ہوا اور وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ میں مقامی آبادی کے حقوق کا مخالف نہیں بلکہ حمایتی ہوں، لیکن رسول اللہ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع (جو آج تک دُنیا کا سب سے پہلا آئین کہلاتا ہے) میں صاف طور پر فرمادیا تھا کہ ریاست کے لوگوں میں امتیاز برتنا غلط ہے۔ آپکے اپنے الفاظ یہ تھے کہ آج سے عربی کو عجمی پر، امیر کو غریب پر، گورے کو کالے پر، کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ ریاست (جس کا تصور مد ینہ منورہ تھا) میں رہنے والے کے حقوق برابر ہوں گے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست 1947 کی تقریر میں فرمایا تھا کہ دُنیا کے نقشے پر اُبھرنے والے نئے ملک، پاکستان میں کوئی عیسائی، کوئی پارسی، کوئی ہندو، کوئی مسلمان نہیں ہوگا سب پاکستانی ہوں گے۔سب کے حقوق برابر ہوں گے۔غیر مسلم اپنی عبادت گاہوں (چرچ ہوں یا مندر) میں بلاخوف و خطر جاسکیں گے۔ان کے راستے میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہوگی۔ سب کے سب پاکستانی ہونے کے ناتے برابر کے حقوق کے مستحق ہوں گے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس ملک کو یکسر بدل دیا گیا۔ حکمراں قائداعظمؒ کے اصول پر عمل درآمد تو کیا کرتے، نوکر شاہی کے افسرانِ بالا کے سردار اُس وقت کے سیکریٹری خزانہ غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ پکڑ لیا، خود ہی قابض ہوگئے۔
بات اگر یہیں تک رہتی تو خیر تھی لیکن اُن پر فالج کا اثر ہوا، بولنے اور چلنے سے قاصر ہوگئے۔ لمبا عرصہ اسی حالت میں رہے، حکومت چلانے کے لائق نہیں تھے۔ آئین کے مطابق اُنہیں اپنے اختیارات اُس وقت کی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل کردینے چاہیے تھے، ایسا نہیں کیا گیا۔ ملک ایک طویل عرصے تک بغیر کسی قانون کے چلتا رہا۔ جنرل ایوب خان جنہوں نے 1958 میں مارشل لا لگایا، وہ بھی 1968 میں دل کا دورہ پڑنے پر مفلوج ہوگئے۔ چل سکتے تھے نہ حکمرانی کے فرائض انجام دے سکتے تھے لیکن اُنہوں نے بھی اختیارات قومی اسمبلی کے اسپیکر کو منتقل نہیں کئے ۔ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہونے لگا۔ پاکستان میں 4 مرتبہ مارشل لا لگا، آئین کی دھجیاں اُڑا دی گئیں لیکن بے چارے عوام خاموش تماشائی ہی بنے سب کچھ بے بسی سے دیکھتے رہے۔اُن کے حقوق کا کوئی رکھوالا نہیں تھا۔
ہاں ایک بات تو بلاشبہ کہی جاسکتی ہے، کہ اگر ایوب خان کے زمانے میں صنعتی انقلاب ملک میں آیا تو پرویز مشرف کے زمانے میں گرتی ہوئی معیشت دوبارہ بحال ہی نہیں ہوئی بلکہ ترقی کی جانب ایک مرتبہ پھر چل پڑی۔ 2008 میں مشرف اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو پیپلز پارٹی کو بے نظیر کی شہادت سے ہمدردی کا ویسے ہی ووٹ ملا جیسے ہند میں اندرا گاندھی کے قتل ہونے پر 1984 میں اُن کے بیٹے راجیو گاندھی کو ملا تھا۔ آصف زرداری صدر مملکت بنے، لیکن اگر اُنہوں نے کچھ اچھے کام کئے وہیں ملک میں بدانتظامی کا بدترین دور 5 سال تک قائم رہا، ترقی رُک ہی نہیں گئی بلکہ ترقیٔ معکوس میں تبدیل ہوگئی۔امریکی ڈالر 108 روپے کا ہوگیا ۔ پٹرول کی قیمتیں دُنیا بھر میں گرنے کے باوجود پاکستان میں 62 روپے فی لٹر سے 108 روپے تک پہنچادی گئیں۔تیل بیچنے والی کمپنیوں سے رشوتوں کے ذریعے اُس وقت کے مشیر پٹرولیم (جو آصف زرداری کے معتمد خاص تھے) نے بے شمار دولت جمع کرلی اور آج وہ ملک سے باہر جارہے ہیں۔ وقت کی ستم ظریفی کے علاوہ اسے اور کیا کہہ سکتے ہیں، چت بھی میری، پٹ بھی میری۔
خدا، خدا کرکے وہ دورِ پشیمانی ختم ہوا لیکن نواز شریف وفاق اور پنجاب میں تو برسراقتدار آگئے مگر سندھ میں پچھلے9 سال سے پی پی برسراقتدار ہے، بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر زندہ ہے۔ صوبائیت بغیر کسی خوف و خطر پروان چڑھائی جارہی ہے۔آرمی پبلک اسکول پشاور کے المناک سانحے کے بعد ایک نیشنل ایکشن پلان بنا۔ تمام صوبوں میں اپیکس کمیٹیاں قائم ہوئیں۔ سندھ میں نواز شریف نے2 ایک دورے کئے اور اُس وقت کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی پیٹھ تھپتھپا کر شاباش بھی دی۔ یہ نہیں پوچھا کہ آخر نظام حکومت کیسا چل رہا ہے؟ صوبے میں اُردو بولنے والوں کی بڑی تعداد (جو 3 کروڑ سے زیادہ ہے) کے ساتھ ناانصافی کیوں ہورہی ہے؟ آج یہ حال ہوگیا ہے کہ سوائے دو ایک کے سارے کے سارے سینیئر پولیس آفیسرز، آئی جی سے لے کر ڈی آئی جیز اور ایس پیز تک سندھی ہیں، اکا دکا مہاجر افسران سینیئر پوزیشنز پر بچ گئے ہیں۔ افسر شاہی میں تو اور بھی بُرا حال ہے۔ 30/32 سیکریٹریز میں صرف 2یا 3 سیکریٹریز اُردو اسپیکنگ ہیں وہ بھی انتہائی غیر اہم جگہ پر، کوئی اُن کا پرسان حال نہیں ۔ چیف سیکریٹری اُن کے، سارے کے سارے افسران اُن کے۔ اور تو اور محکمۂ اطلاعات میں کراچی کے ڈومیسائل رکھنے والے تمام افسران کا تبادلہ اندرون سندھ کردیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک خاتون ڈائریکٹر کو پریس ڈپارٹمنٹ سے ہٹا کر اندرون سندھ پوسٹ کردیا گیا۔یہ قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ کسی غیر شادی شدہ عورت کو آپ اپنے شہر سے بے دخل نہیں کرسکتے لیکن وزیراطلاعات کا حکم ِشاہی تھا، تو فرمان پر عمل تو ہونا ہی تھا جو کہ ہوا۔ کئی ایک اردو بولنے والے افسران اندرون سندھ بھیج د ئیے گئے، وہ اپنی زندگی کی حفاظت کی خاطر کراچی ہی میں بیٹھے ہیں اور تنخواہ لے رہے ہیں۔مُراد علی شاہ وزیراعلیٰ ضرور ہیں لیکن بلاول اور زرداری یا فریال تالپور کے احکامات کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں؟ کہنے کو تو مُراد علی شاہ بہت بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔کراچی میں ترقیاتی کام کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں لیکن بے چارہ ایک منتخب میئر سوائے لاچارگی کی تصویر بننے کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ کراچی کی حالت خراب ہے، کچرے کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پانی کا کال لیکن میئر کو کام نہیں دیا جائے گا، رشوت ستانی عام ہوچکی ہے۔ قومی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹی جارہی ہے۔ہے کوئی پوچھنے والا یا حالات پر رونے والا؟؟ سوال اہم ہے، لیکن جواب کون دے…؟

شیئر: