طوافِ افاضہ اور صفا ومروہ کے مابین سعی کرکے پھر منیٰ کی طرف ہی لوٹ جائیں اورایام تشریق 11،12 ،13 ذ ی الحجہ کے شب و روز وہیں رہیں کیونکہ ابودائود، مسنداحمد، ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر کے بعد طوافِ افاضہ کیا پھر منیٰ کی طرف تشریف لے گئے اور ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں ہی گزاریں۔‘‘ ان 3 ایام کے دوران یہ جائز ہے کہ ہر روز رات کو مکہ مکرمہ جائے اور (زیارتِ کعبہ کے علاوہ) طواف بھی کرلے۔ یہ چیز خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملِ مبارک سے ثابت ہے چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقا ً اور طبرانی کبیر و بیہقی اور مشکل الآثار طحاوی میں موصولاً مروی ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں سے ہر رات کو بیت اللہ کی زیارت و طواف کیلئے تشریف لایا کرتے تھے۔‘‘ منیٰ میں قیام کا عرصہ ذکر وعبادت میں گزاریں کیونکہ سور ۃالبقرہ، آیت203 میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’اِن گنتی کے دنوں (ایام منیٰ) کو ذکر الٰہی میں بسر کریں۔‘‘ ممکن ہو تو بہتر یہ ہے کہ ان ایام کی نمازیں منیٰ میں واقع’’مسجد خیف‘‘ میں ادا کی جائیں کیونکہ طبرانی کبیر واوسط اور المختارۃ للضیاء المقدسی میں حضرت ابن عباسؓ سے مرفوعاً مروی ہے جسے امام منذریؒ نے حسن قرار دیاہے اور شیخ البانی نے ان کی تائید کی ہے اور’’اخبار مکہ‘‘ للازرقی سے ایک دوسرا موقوف طریق بھی ذکر کیاہے جس میں ہے :
’’مسجد خیف میں70 انبیائے کرام ؑ نے نماز پڑھی ہے۔‘‘ منیٰ میں قیام کے دوران نمازِ ظہروعصر اور عشاء قصر کرکے (دوگانہ) پڑھنا مسنون ہے کیونکہ صحیحین، ابودائو و نسائی اور مسند احمد میں حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ منیٰ میں2،2 رکعتیں پڑھیں۔‘‘ افضل تویہ ہے کہ ذ ی الحجہ کے ایام تشریق (11،12،13) منیٰ میں گزارے اور تینوں دن ہی تینوں جمرات پر رمی کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں دن ہی رمی کی تھی جیسا کہ ابودائود، مسند احمد، صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ ؓسے مروی حدیث کے الفاظ سے پتہ چلتاہے چنانچہ وہ فرماتی ہیں: ’’(طوافِ افاضہ کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ لوٹ آئے اور ایام تشریق کی راتیں وہیں رہے۔‘‘ اس حدیث میں ’’لیالی‘‘ اور ’’ایام‘‘ دونوں ہی جمع کے صیغے ہیں جو 3 یا 3 سے زیادہ کے عدد پر بولے جاتے ہیںلیکن اگر کسی وجہ سے صرف پہلے 2 دن(11 ،12 ذ ی الحجہ) منیٰ میں گزار کر اور صرف 2ہی دنوں کی رمی پر کفایت کرتے ہوئے مکہ مکرمہ چلا جائے تو اسے اس کی اجازت ہے کیونکہ خود قرآن کریم میں سورۃ البقرہ کی آیت203 میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’جو شخص جلدی کرکے 2ہی دنوں (کی رمی کے) بعد واپس آگیا، اسے کوئی گناہ نہیں۔‘‘ البتہ جو شخص 2 دنوں کی رمی کرکے12ذ ی الحجہ کو لوٹنا چاہے اُسے مغرب سے پہلے پہلے منیٰ سے نکل جانا چاہئے اور اگر وہیںمغرب ہوگئی تو پھر ضروری ہے کہ وہیں رک جائے اور اگلے دن کی رمی کرکے لوٹے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور جمہور علماء کا یہی مسلک ہے۔ امام نوویؒ نے’’ المجموع شرح المہذب‘‘ میں مذکورہ آیت کے لفظ’’ یومین‘‘ سے استدلال کیاہے کہ یوم کا اطلاق دن پر ہوتاہے نہ کہ رات پر (لہٰذا رات ہونے سے پہلے پہلے نکلے تو ٹھیک ورنہ نہیں) اِسی طرح انہوں نے حضرت عمرؓ اور ان کے فرزند عبداللہؓ کا قول بھی نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’جسے منیٰ میں ہی شام ہوجائے وہ صبح (تیسرے دن) تک رک جائے اور (رمی کرکے ہی ) لوگوں کے ساتھ منیٰ سے روانہ ہو‘‘ جبکہ مؤطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے الفاظ یہ ہیں: ’’اگلے دن (13 ذ ی الحجہ) کی رمیٔ جمار کئے بغیر واپس نہ لوٹے۔‘‘ یہی اثر مؤطا امام محمد میں بھی ہے اور امام محمدؒ نے کہا ہے کہ ہم بھی اِسے ہی اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہؒ اور عام فقہاء کا قول ہے۔ ام المومنین صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ ؓ سے مروی مذکورہ سابقہ حدیث کی شرح میں امام شوکانیؒنے لکھا ہے: اس حدیث کے الفاظ سے جمہور علمائے امت نے یہ دلیل لی ہے کہ منیٰ میں ان دنوں قیام کرنا واجب ہے اور یہ جملہ مناسکِ حج میں سے ایک ہے۔ جمہور کی دوسری دلیل حضرت عاصم بن عدوی ؒ سے مروی حدیث ہے جسے اصحابِ سنن،
ابنِ حبان،احمد اور حاکم نے روایت کیاہے جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں اور اونٹ چرانے والوں کو منیٰ میں یہ راتیں گزارنے سے رخصت دے دی۔‘‘ رخصت کا مقابل عزیمت ووجوب ہے اور یہ اجازت واِذن ایک خاص علتِ مذکورہ کی وجہ سے حاصل ہوا اور اگر ایسا کوئی سبب نہ ہو تو ترکِ قیامِ منیٰ کی اجازت بھی نہیں ۔ تیسری دلیل صحیح بخاری ومسلم میں مذکور حضرت ابن عباسؓ سے مروی حدیث ہے جو حضرت ابن عمرؓ سے بھی مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں: ’’حضرت عباس ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایامِ منیٰ کی راتیں مکہ مکرمہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی جو ان کی ذمہ داری سقایۃ الحاج (حاجیوں کو پانی پلانے) کی وجہ سے تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔‘‘ البتہ قیامِ منیٰ کے ترک کرنے پر وجوب دَم (فدیہ) پر اختلاف رائے ہے۔ مالکیہ کے نزدیک ہر رات کے بدلے میں ایک دم ہے۔ (یعنی کم از کم2 جانور ذبح کرے) بعض فقہاء نے ہر رات کے بدلے بطورِ کفارہ ایک درہم صدقہ کرنے اور بعض نے ہر رات کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانے کا کہا ہے جبکہ امام شافعیؒ اور ایک روایت میں امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک تینوں راتوں کے عوض صرف ایک دم ہے، ایسے ہی حنفیہ کے نزدیک ترکِ قیامِ منیٰ پر کوئی فدیہ نہیں۔
******