ایامِ تشریق کی رمی جمار کا وقت زوالِ آفتاب کے بعد ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ سے مروی حدیث میں ہے: ’’آپ زوالِ آفتاب کے بعد رمی جمار کرتے تھے۔‘‘ اس کی تائید بعض دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً ترمذی وابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’نبی نے زوالِ آفتاب کے بعد رمیٔ جمار کی۔‘‘ صحیح بخاری وابودائود میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں: ’’ہم انتظار کرتے اور جب آفتاب سر سے ڈھل جاتا تو رمی کرتے تھے۔‘‘ ان احادیث کی بنا پر جمہور اہل علم کاتویہی مسلک ہے جبکہ احناف اور امام اسحاق بن راہویہ کے نزدیک تیسرے دن کی رمی سورج ڈھلنے سے پہلے بھی جائز ہے مگر یہ احادیث ان کی تردید کررہی ہیں البتہ یومِ نحر (10ذوالحجہ) کی رمی کا وقت طلوع آفتاب سے شروع ہوجاتاہے نیز حضرت جابرؓ سے صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے: ’’نبی نے یومِ نحر کو صبح کے وقت رمی کی اوراس کے بعد (ایامِ تشریق میں) زوالِ آفتاب کے بعد۔‘‘ جو شخص یومِ نحر کے علاوہ 3 دن ایامِ تشریق میں جمرات پر رمی کرے گا اس کی کل 70 کنکریاں بنیں گی۔ ایام منیٰ کے دوران ہر روز تینوں جمرات پر رمی کریں کیونکہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور صحیح مسلم میں موصولاً حضرت جابرؓ سے مروی حدیث سے یہی ثابت ہوتاہے۔ ہر جمرے پر7،7 کنکریوں سے رمی کرنا ضروری ہے اور وہ بھی بالترتیب، پہلے جمرئہ اولیٰ (یا صغریٰ) پھر جمرئہ وسطیٰ اور پھر جمرئہ کبریٰ (یا عقبہ) پراور اس کا طریقہ وآداب متعدد احادیث میں یوں آئے ہیں: صحیح بخاری و بیہقی اور مسنداحمد میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی جب جمرئہ اولیٰ پر رمی کرتے (جو کہ مسجد خیف کے قریب ہے) تو اس پر 7 کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے پھر تھوڑا سا بائیں جانب ہوجاتے اور قبلہ رو کھڑے ہو کر طویل وقت تک ہاتھوں کو اُٹھائے دعاء فرماتے۔ پھر دوسرے (یعنی جمرئہ وسطیٰ) پر بھی اسی طرح رمی اور دعاء کرتے پھر تیسرے جمرے پر آتے جو کہ عقبہ کے پاس ہے (اور جمرئہ عقبہ یا کبریٰ کہلاتاہے)اس پر بھی 7 ہی کنکریوں سے رمی فرماتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر بھی کہتے مگر: ’’وہاں (دعا کیلئے) کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ چلے جاتے تھے۔‘‘ ایسے ہی یہی طریقہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں بھی ہے جو ابودائود، مسنداحمد، صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم کے حوالے سے گزری ہے۔ اس کے مذکورۂ سابقہ الفاظ کے آگے یہ بھی ہے کہ آپ نے پہلے اور دوسرے جمرے کو7،7 کنکریوں سے رمی کی اور دونوں کی رمی کے بعد ایک طرف کھڑے ہوکر طویل وقت تک دعاء فرمائی مگر تیسرے پر رمی کے بعد کھڑے نہیں ہوئے اور نہ دعاء کی۔ جمرات کی رمی کیلئے جاتے وقت سواری پر بیٹھنا جائز ہے اور پیدل جانا بھی البتہ مستحب وافضل یہ ہے کہ یوم نحر کی رمی کے وقت تو چاہے سواری استعمال کرلی جائے مگر باقی دنوں (ایام تشریق) میں پیدل جایا جائے کیونکہ ابودائود اور مسنداحمد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ملتے جلتے الفاظ سے مروی ہے کہ نبی یومِ نحر میں جمرئہ عقبیٰ کی رمی کیلئے تو سوار ہوکر گئے مگر ایامِ تشریق میں پیدل ہی آتے اور جاتے تھے۔ یومِ نحر اور ایامِ تشریق میں جمرات پر اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ کمزوروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کا وہاں خود جا کر رمی کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ ایسے میں بعض لوگ اپنے کسی ضعیف یا بوڑھے رشتے دار کو جمرات پر پہنچانے کیلئے بڑا عجیب طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ اس ایک شخص یا بعض خواتین کی خاطر وہ ہزاروں لوگوں کو دھکیلتے اور پھینکتے جاتے ہیں حالانکہ یہ رویہ نہ توحجرِ اسود کے بوسہ کیلئے ہی درست ہے اور نہ ہی یہ طریقہ جمرات پرمناسب ہے بلکہ امام ترمذی ؒ نے تو اِسے مکروہ قرار دیتے ہوئے ترمذی شریف میں ایک باب منعقد کیاہے جس کے تحت وہ حضرت قدامہ بن عبداللہ ؓ سے مروی وہ حدیث لائے ہیں جو نسائی وابن ماجہ میں بھی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے نبی کو اپنی اونٹنی پر بیٹھے(یومِ نحر کی) رمی کرتے ہوئے دیکھامگر وہاں کوئی ماردھاڑ، دھکم پیل اور ہٹ جائو ہٹ جائو کا شور نہیں تھا۔‘‘ اس صورتِ حال سے بچنے کیلئے کمزوروں، بوڑھوں، ضعیف عورتوں اور بچوں کی اپنی طرف سے رمی کرنے کیلئے انہیں کسی کو اپنا وکیل مقرر کردینا چاہئے اور خود اپنے خیموں میں ہی رہنا چاہئے۔ وکیل کو چاہئے کہ وہ جس جمرے پر جائے وہاں پہلے ایک ایک کرکے اپنی کنکریاں مارے اور پھر اُسی طرح ہی اپنے موکلوں کی کنکریاں بھی مارے۔ یہاںیہ بات پیش نظر رہے کہ تمام کنکریاں ایک ایک کرکے مارنا ضروری ہے اور اگر کسی نے مٹھی بھر کر اکٹھی ہی کنکریاں ماردیں تو یہ رمی شمار نہیں ہوگی۔رمی میں وکیل مقرر کرنے کے سلسلہ میں بعض روایات بھی ہیں مگر ان کی اسناد متکلم فیہ ہیں مثلاً ابن ماجہ، مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک روایت ہے جس کی سند کے ایک راوی اشعث بن سوار کو محدثین نے ضعیف کہاہے۔ اس روایت میں حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: ’’ہم نے نبی کے ساتھ حج کیا اور ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے، ہم نے بچوں کی طرف سے تلبیہ بھی کہا اور ان کی طرف سے رمی بھی کی۔‘‘
******