دن رات اور مہینوں کے جانے سے ہماری عمریں بھی تمام ہورہی ہیں، دائمی زندگی کا سفر شروع ہونے جارہا ہے، اس سے مسافر کو اتنا ہی لینا ہے کہ جتنا سفری ضروریات پوری ہوسکیں
* * * ڈاکٹر انجم ظہور ۔ جدہ* * *
رب العالمین کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے بہت کم ہے۔ یہ اسکا فضل و احسان ہے کہ خیر و برکت کے ہر موسم کے بعد دوسرا موسم اہل ایمان کو اعمال صالحہ سے آراستہ ہونے کے لئے عطا کرتا رہتا ہے۔ اسلام ہمیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت و تابعداری کی ترغیب اس لئے دیتا ہے کہ ہم اچھے کام کرکے اپنی برائیوں کا کفارہ ادا کردیں۔ اسلام ہمیں اعمال صالحہ کی تلقین اسلئے کرتا ہے تاکہ ہمارے درجات بلندہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فضل و احسان ہے۔تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ رسول اللہ اچھے کاموں میں ہمیشہ سب سے پیش پیش رہے۔ صحابہ کرام ؓ اعمال صالحہ کے شیدائی تھے لیکن تمام صحابہ تمام تر کوشش کے باوجود ہمیشہ رسول کریم سے پیچھے ہی رہتے تھے۔ صحابہ نے اپنی یہ پہچان بنالی تھی کہ کار خیر ہمیشہ کرتے رہیں۔ خود رب العالمین نے سورۃالمومنون کی آیت نمبر 61میں اس حوالے سے صحابہ کرامؓ کی تعریف یہ کہہ کر کی ہے کہ’’وہی بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کرکے انہیں پالینے والے ہیں۔‘‘ حج ایام ختم ہوچکے ہیں۔ اب حجاج کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نئی زندگی کو اعمال صالحہ سے معمور کریں۔
یاد رکھیں کہ باقی ماندہ زندگی کے ایام پلک جھپکتے میں گزر جائیں گے۔ یہ بات پیش نظر رکھیں کہ اچھائیوں اور بھلائیوں کے دن زیادہ تیزی سے گزرتے ہیں۔ خوش بخت ہیں وہ انسان جو اس نکتے کے رمز شناس ہوں۔ قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو اچھے اوقات کو اچھے کاموں میں اچھے انداز سے استعمال کرنے کے ہنر سے واقف ہوچکے ہوں اور اس سے بھرپور استفادہ کررہے ہوں۔ نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ سمجھدار انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے جدوجہد کرے۔ عاجز ہے وہ انسان جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے اوراللہ تعالیٰ سے امیدیں باندھتا رہے۔ حج کے دن بیت چکے ہیں، حج کے ایام ہماری زندگی کی تاریخ بن چکے ہیں۔ ہمیں اس دوران جو کام کرنے تھے وہ کئے جاچکے ہیں۔ اس دوران ہم سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں وہ بھی قصۂ ماضی بن چکے ہیں۔ اب ہمیں ایک تو حج ایام کے حوالے سے اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے تھا اور کن کن کاموں سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ اس تناظر میں ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم نے کیا کچھ کیا اور کیا نہیں کیا۔ اگر ہمارے کام اچھے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ء کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے اعمال صالحہ کی قبولیت اور مزید اعمال صالحہ کی توفیق عطا کرنے کی دعا کرنی چاہئے۔اگر ہم نے برے کام کئے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے اور ایسے اچھے کام کرنے چاہئیں جو ہماری برائیوں کا کفارہ بن جائیں۔ یہ حق اور سچ ہے کہ حج کے بابرکت دن رخصت ہوچکے ہیں۔ وہ دن جن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خانہ خداکی زیارت کی تعلیم دی تھی،سورۃ الحج کی آیت28اور 29 میں ارشادِ الٰہی ہے کہ ’’ تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو انکے لئے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔
خود بھی کھائیں اور تنگدس محتاج کو بھی دیں اور پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نظریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔‘‘ اللہ کے جن بندوں نے رب العالمین کی اس دعوت پر لبیک کہہ کر حج کیا ، اب وہ مقبولِ بارگاہِ حج کی نعمت سے سرفراز ہوکر اپنے اپنے وطن واپس ہورہے ہیں۔ رسول اللہ کے ارشاد کے بموجب’’ حج مبرور کا اجر جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ رسول اللہ کا ارشاد یہ بھی ہے کہ’’ جو شخص بیت اللہ شریف آیا اور اس نے کوئی شہوانی فعل اور بدعملی نہ کی ہو تو وہ یہاں سے ایسا پاک صاف ہوکر لوٹے گا جیسا کہ اُس روز تھا جس دن اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘
حج ایام گزر چکے ہیں، اس دوران بعض مسلمانوں نے فرض حج ادا کیا اور دیگر نے نفلی حج کیا۔ مقبول بارگاہ حج کا اعزاز پانے والے گناہوں سے پاک و صاف ہوکر ایسے واپس ہورہے ہیں جیسے کہ وہ اپنے جنم کے دن تھے۔ ذی الحجہ کا وہ پہلا عشرہ بھی گزر چکا ہے جس کی بابت رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ان ایام کے مقابلے میں کوئی دن ایسا نہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو عمل صالح ان سے زیادہ عزیز ہو۔‘‘ رسول اللہ کا مقصود ذی الحجہ کا پہلاعشرہ تھا۔ صحابہ کرامؓ نے یہ سن کرسوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟رسول اللہ نے فرمایا’’ اور نہ راہ خدا میں جہاد، ہاں وہ شخص اس سے مستثنیٰ ہے کہ وہ اپنی جان اور دولت ہتھیلی پر لیکر نکلا ہو اور ان میں سے کچھ بھی واپس لیکر نہ پہنچا ہو۔‘‘ (بخاری)۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۃ الفجر کی آیت نمبر 2میں قسم کھائی ہے کہ’’ قسم ہے فجر کی اور 10 راتوں کی۔‘‘
ان 10 راتوں میں عرفہ کا دن بھی شامل ہے۔ وہ دن جس میں حجاج کرام وقوف کرتے ہیں اور جسے حج کا سب سے بڑا رکن مانا جاتا ہے۔ خود رسول کریم کا ارشاد ہے کہ’’ حج عرفہ ہی ہے۔‘‘ عرفہ کا دن ایسا دن ہے جب اللہ تعالیٰ بے شمار انسانوں کو دوزخ کے عذاب سے نجات دیتا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم کا ارشاد ہے ’’یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن اللہ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے رہائی نہیں دیتا، وہ اس دن بندوں کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر عرفہ میں بندوں کے تعلق سے فخر کرتا ہے۔‘‘ انہی 10ایام میں عید الاضحی بھی شامل ہے۔ اب یوم عرفہ بھی گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن نہ جانے کتنے لوگوں کو دوزخ کے عذاب سے رہائی بخشی ہوگی۔ عید کے موقع پر لاکھوں مسلمانوں نے تقرب الٰہی کیلئے لاکھوں جانور قربان کئے۔ حاجیوں نے عید کے دن جمرۂ عقبہ کی رمی کی اور پھر باقی ایام میں تینوں جمرات کی رمی کرتے رہے، اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تہلیل کرتے رہے۔
ایام تشریق میں قربانی کے گوشت سے مطلوبہ کھانے تیار کرکے کھاتے پیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ایا م کا تذکرہ سور ۃ البقرہ کی آیت 203میں کیا ہے۔ ’’یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسرکرنے چاہئیں۔‘‘تشریق کے دن 3 ہیں ان دنوں میں مسلمانانِ عالم قربانی کرتے ہیں اور قربانی کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔ حج کے عظیم ایام تمام ہوئے ان کی برکتیں اور نعمتیں انکے ساتھ رخصت ہوئیں۔ سوچنا یہی ہے کہ ہم نے ان سے کس حد تک استفادہ کیا۔ ہمیں اس حوالے سے بار بار اپنا احتساب کرنا ہے،جس نے کوئی اچھا کام کیا ہو وہ اس پر رب کی حمد و ثناء بیان کرے اورکار خیر کے زریں سلسلے کو اپنی زندگی کی شناخت بنالے۔ جس نے ان دنوں کا حق ادا نہ کیا ہو اور اس حوالے سے کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہو برکتیں اور فضیلتیں حاصل کرنی تھیں نہ کی ہوں تو اسے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہئے۔ زندگی کے باقی ایام اچھے کاموں میں گزارنے کا اہتما م کرنا چاہئے اور اپنے مستقبل کے اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے استغفار کا طریقہ ہمارے مفاد میں مقرر کیا ہے۔ مفاد یہ ہے کہ استغفار سے کمی کا تدار ک ہوتا ہے اور خلل کا سدباب ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ چند روز بعد ہم نئے سال کا استقبال کریں گے جس کا پہلا مہینہ محرم کا مہینہ ہے۔ وہ مہینہ جس کی بابت رسول کریم کا ارشاد ہے کہ ’’رمضان المبارک کے مہینے کے بعد اس ماہ کے روزے جسے تم محرم کہتے ہو سب سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔‘‘ (صحیح مسلم )۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم رحمتوں اور برکتوں کی ساعتوں سے کبھی محروم نہیں ہوتے ۔ اگر حج کے ایام تمام ہوچکے ہیں تو ہمارے سامنے برکتو ںکا نیا موسم نئی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔ ہمیں اسکی تیاری کرنی چاہئے اور اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دن رات اور مہینوں کے جانے سے ہماری عمریں بھی تمام ہورہی ہیں۔ دنیا کی زندگی کا قیام قریب الختم اور دائمی زندگی کا سفر شروع ہونے جارہا ہے۔ دنیا دارالامتحان ہے یہ دارالآخر ت کی گزر گاہ ہے۔ اس سے مسافر کو اتنا ہی لینا ہے جتنا کہ سفری ضروریات پوری ہوسکیں۔ ہمیں دنیا کی زندگی سے اعمالِ صالحہ کا توشہ حاصل کرنا ہے۔ سورہ لبقرہ کی آیت 197میں ارشاد الہٰی کا مفہوم ہے کہ ’’سفر کے لئے زاد راہ ساتھ لے جاؤ اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیز گاری ہے۔ ‘‘ سورۃ البقرہ کی آیت 202میں ارشادباری تعالیٰ ہے کہ’’ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق دونوں جگہ حصہ پائیں گے اور اللہ تعالیٰ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔‘‘ ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ آئندہ ایام کو ہمارے لئے بابرکت بنادے او رہمارے اعمال صالحہ کو قبولیت کے شرف سے نواز دے تاکہ جنت کی نعمتوں سے فیض اٹھایا جاسکے،آمین۔