اس میں تو کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ حج وعمرہ پرجانے کے لئے حلال وپاکیزہ مال استعمال کیاجائے گا جس میں حرام کی آمیزش تک نہ ہو۔
مسلم ترمذی اوربعض دیگر کتب کی ایک صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’اے لوگو!اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف حلال وپاک مال کو ہی قبول کرتا ہے اوراللہ نے مومنوں کو بھی وہی حکم فرمایا ہے جو انبیاء ورسل ؑ کوفرمایا ہے چنانچہ ارشاد الٰہی ہے (اے میرے رسولو!پاکیزہ وحلال چیزیں کھائو اوراچھے عمل کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو، میں جانتا ہوں) اورارشاد الٰہی ہے (اے ایمان والو!جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو دی ہیں وہ تم کھائو)
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جس کے اوصاف یوں تھے ’’وہ لمبا سفر کر کے آتا ہے ، اس کے بال پراگندہ ہوتے ہیں وہ گرد وغبار سے آٹا ہواہوتا ہے، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر یا رب یارب کہتا ہے جب کہ اس کا کھانا حرام ہے اس کا پینا حرام ، اس کا پہننا حرام اور اس کی ساری غذابھی حرام سے ہے ۔ بھلا ایسے شخص کی دعائیں کہاں سنی جائیں گی ؟‘‘(مسلم،ترمذی ) اس ارشاد گرامی کو پیش نظر رکھ کر وہ لوگ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر سوچیں جن کے ذرائع روزگار ہی سراسر غیر شرعی ، غیر قانونی اورناجائز وممنوع کاروبار ہیں ۔
ایسے کاروبار سے حاصل شدہ مال خرچ کر کے اس سے حج بھی کیا اور بعد میں زندگی کی دیگر ضروریات بھی ایسے مال سے ہی پوری کرتے رہے وہ اس حدیث شریف میں مذکور شخص کے واقعہ سے درس عبرت حاصل کریں جو سودپر ہی ہر کام کرتے ہیں، رشوت لیتے ہیں ، ناجائز روز گار سے پیسہ جمع کرتے ہیں ،کاروبار میںدھوکہ دہی کرتے ہیں بیگانے مال میں خورد برد کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اوریا د رکھنا چاہیے کہ یہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے تازیانہ ٔ عبرت ہے اورسود کی قباحت وشناعت ،اس کاگناہ اورانجام، رشوت اور دیگر ناجائز ذرائع روزگار ، ممنوع کاروبار اورحرام اشیاء کی تفصیل ذکر کرنے کا یہ موقع نہیں۔
ممنوع زیب وزینت : ۔ بعض حجاج کرام زیب وزینت کے زعم میں داڑھی کو خوب صاف کر کے (منڈواکر)احرام باندھتے اورلبیک اللھم لبیک پکارتے ہیں حالانکہ حج سے قبل کیا اور حج کے بعد کیا ہر حال میں داڑھی منڈوانا یا مونڈنا فسق وگناہ ہے اوراس بات کا غالباًہر مسلمان کو علم ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ سنت انبیاء علیہم السلام داڑھی بڑھانا ہے۔
صحیح بخاری ومسلم اور نسائی شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے ’’مشرکین کی مخالفت کرو (اس طرح کہ) مونچھیں کٹوائو اورداڑھیاں بڑھائو‘‘ آرائش وزیبائش کے گمان سے ہی بعض حجاج سونے کی انگوٹھی یا چین پہن لیتے ہیں جبکہ سونے کااستعمال مردوں کے لئے ہر حال میں حرام قراردیا گیا ہے جس کی تفصیل کتب حدیث میں مذکور ہے اورخاص انگوٹھی کے بارے میں توصحیح بخاری ومسلم میںایک حدیث موجود ہے جس میں ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے (مردوں کو)منع فرمایا ہے ‘‘لڑکوں یا مردوں کا گلے میں سونے کی چین ڈالنا بھی اسی طرح ممنوع ہے ۔
یہ دونوں کام (مردوں کے لئے انگوٹھی یا چین پہننا اورداڑھی منڈوانا )تو عام حالات میں بھی ممنوع ہیں چہ جائیکہ حجاج کرام اورزائرین حرمین شریفین روانگی کے وقت اوربرو تقویٰ کے اس سفر کے دوران ان کا ارتکاب کریں ؟ اگر اس نیک سفر کو بھی ایسے امور سے پاک نہ رکھا گیا ہوگا توحج وعمرہ کے مبرور ہونے کامعاملہ مخدوش ہوجائے گا۔
شرک سے اجتناب :۔ اس سلسلہ کی اہم ترین بات یہ ہے کہ نہ صرف حج و عمرہ کے اس سفر مبارک کو شرک وبدعات کی تمام انواع واقسام اورالائشوں سے محفوط رکھاجائے بلکہ یہ حج سے پہلے ، حج کے دوران اور حج کے بعد ہر حال میں سخت منع ہیں کیونکہ شرک وہ مرض ہے جو انسان کے تمام اعمال کو اکارت وضائع کردیتا ہے ۔ سورہ انعام کے دسویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے18جلیل القدر انبیاء ورسل علیہم السلام کے نام لے لے کر ان کے مقام ومرتبہ کوبیان فرمایا اورآیت89میں ارشاد فرمایا ’’اگر ان (انبیاء )نے بھی شرک کیا ہوتا توان کے بھی تمام اعمال اکارت وضائع ہوجاتے‘‘اورخاص امام الانبیاء والرسل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر سورہ زمر ،آیت65میں فرمایا ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اورآپ سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف وحی کی جاچکی ہے کہ اگر آپ بھی شرک کریں تو یقینا آپ کا سارا عمل بھی ضائع ہوجائے گا اورآپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ‘‘ اندازہ فرمائیں !شرک کے معاملہ میںجب انبیاء ورسل علیہم السلام کو اس طرح خطاب فرمایا گیا ہے تو ان کے سامنے ہماری حیثیت ہی کیا ہے ؟ہمیں تو اوربھی اپنی ساری زندگی کو اس مرضِ خطیر سے محفوظ رکھنا چاہیے اور خصوصا ًزائرین دیار مقدسہ کو اس سفر سعادت میں اپنے آپ کو شرک سے بچاکر رکھنا چاہیے ۔
بدعات سے پرہیز :۔ شرک کی طرح ہی اپنے آپ کو انواع واقسامِ بدعت سے بھی بچانا چاہیے اورہر اس کام سے اجتناب کرنا چاہیے جوبظاہر کتنا ہی بھلا معلوم کیوں نہ ہوتا ہو مگر اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ بتایا ہو اورنہ ہی خود کیا ہو ، خلفاءؓ وصحابہ کرامؓ کے تعامل سے بھی جس کا ثبوت نہ ملتا ہو کیونکہ ہر ایسا کام ’’ایجاد نو‘‘یا بالفاظ دیگر ’’بدعت ‘‘شمار ہوگا بشرطیکہ اسے دین اورنیکی وثواب سمجھ کر اختیار کیاجائے کیونکہ بدعات کی نہ صرف یہ کہ عنداللہ کوئی حیثیت وقیمت نہیں بلکہ یہ صاحب بدعت کے لئے باعث وبال ہیں ۔ ارشاد الٰہی ہے ’’جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پرکوئی مصیبت یادردناک عذاب نہ آجائے ‘‘ (النور63)اسی طرح صحیح مسلم میں ارشاد نبوی ہے ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا وہ مردود ہے‘‘جبکہ صحیح بخاری و مسلم میں ایک دوسری حدیث میں ہے ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں وہ مردود ہے ‘‘ صحیح مسلم اوردیگر کتب حدیث میں معروف خطبہ مسنونہ میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’اوربدترین امور وہ ہیں جو دین میں نئے ایجا د کردہ ہیں اوردین میں ہر ایجاد نو بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی ہے (اورنسائی و ابن خذیمہ میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ)ہر گمراہی کاانجام جہنم ہے ‘‘
٭٭٭٭٭٭