والدین اور اساتذہ کے طرزِ عمل میں انقلاب
آج کے دور میں بیٹے باپ کے دوست اور بیٹیاں ماں کی سہیلیاں بن کررہتی ہیں
ابوغانیہ۔جدہ
گزشتہ 50برسوں کے دوران والدین اور اساتذہ جیسی ہستیوں کے اطوار اور اولاد کے اذہان میں ان کی شبیہ دونوں ہی یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسے ہم معاشرتی سطح پر آنے والا خاموش انقلاب کہہ سکتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی ہمارے اولاد ہونے سے لے کر والدین بننے تک کے درمیانی عرصے میں آئی ہے۔ہمیں خوب یاد ہے کہ اسکول جانے میں اگر 2منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو اسکول کے گیٹ پرہی لٹھ بردار ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملاقات ہوتی۔ ایسالگتا تھا کہ رحم نام کی چیز ان کے خمیر میں موجود ہی نہیں۔ لاہور کی سرد ترین صبح میں ہمارے ہاتھ برف اور انگلیاں قلفی بنی ہوئی ہوتی تھیں مگر 2منٹ کی تاخیر پر ہمارے دونوں ہاتھوں کو 10چھڑیاں فی ہاتھ کی شرح سے گرمایا جاتا تھا۔ اس سزا میں صرف تنبیہ ہی نہیں بلکہ ہیڈماسٹر صاحب کا غصہ بھی شامل ہوتا تھا جو شاید وہ اپنی نصف بہتر سے مقابلے کی سکت نہ رکھنے کے باعث دل میں سمیٹے ہوئے ہوتے تھے کیونکہ وہ ہمیں یہ بیسوں چھڑیاں خوب دانت پیس پیس کر مارا کرتے تھے۔ ہمارے ہاتھ سُن ہوجاتے اور ہم رورو کر دہائی دیتے کہ ”سر! امی جان کی آنکھ دیر سے کھلی تھی، ناشتہ بنانے میں دیر ہوگئی، ہم بھاگتے ہوئے اسکول آئے ہیں، برائے مہربانی ہمیں معاف کردیں“ مگروہ ہمیں معاف کرنا تو درکنار، چھڑیاں برسانے میں کم طاقت کے استعمال کو بھی انصاف، قانون اور اخلاقیات سے کھلواڑ کے مترادف تصور کرتے تھے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ لٹھ بردار ہیڈ ماسٹر اگر کبھی ہمارے والد صاحب سے سرِ راہ مل جاتے تو وہ شکایت کرتے کہ آپ کا بیٹا تاخیر سے اسکول آیا تھا۔ انجام یہ ہوتا کہ اسکول کے بعد گھر میں والد صاحب ہماری ”دھُنائی“ کرتے۔
پھر ایسا ہوا کہ خاموش انقلاب آنا شروع ہوا۔ ہم میٹرک میں تھے۔ وہی ہیڈ ماسٹر صاحب ایک روز ہماری جماعت میں آئے اور ایک لڑکے کو کام نہ کرنے پر بینچ سے اٹھ کر کھڑا ہونے کے لئے کہا۔ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے دریافت کیا کہ کام کیوں نہیں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ سر!رات کو امی ابو کے ساتھ شادی میں گیا تھا، واپسی میں بہت دیر ہوگئی اس لئے نہیں کر سکا۔ یہ سن کر ہیڈ ماسٹر نے آنکھیں بند کر کے لڑکے کے گال پرزناٹے دار طمانچہ رسید کر دیا اور بولے کہ جھوٹ بولتے ہو، ہمیں بے وقوف بناتے ہو، یہ کہہ کر انہوں نے دوسرا تھپڑ رسید کرنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس لڑکے نے ان کی کلائی اپنے طاقتور ہاتھ میں دبوچ لی اور ہیڈ ماسٹر صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ ”بڑے میاں!عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔میں نے آپ سے جو کہا، سچ کہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو گھر فون کر کے پوچھ لیں۔دوسری بات یہ کہ اگر آپ نے اب طمانچہ رسید کرنے کی کوشش کی تو بدلے میں 10 ٹکاوں گا اور ایک گنوں گا۔“اس کا یہ انداز دیکھ کرجماعت کے سبھی لڑکے انتہائی خوش ہوئے جیسے ان کے دل کی مراد پوری ہوگئی ہو۔اسکے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے ریٹائرمنٹ لے لی۔چند برسوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اس عرصے میں کوئی ان سے ملنے بھی نہیں گیا۔
یہی حال والدین کا ہوا کرتا تھا۔17برس کی عمر کو پہنچنے والا ہر نوجوان ماں سے کم از کم 1000بار اور باپ سے170مرتبہ تاریخی مار کھا چکا ہوتا تھا۔یہ مار بھی ایسی باتوں پر پٹتی تھی کہ پلنگ کی پائینتی کیوں نہیں کسی۔ چھوٹی بہن کے ساتھ سخت لہجے میں کیوں بولا۔ دوست کے ساتھ اتنی دیر تک گلی کے نکڑ پر کیوں کھڑا رہا، بازار سے سودا لانے میں دیر کیوں کی،چھت پر چڑھ کر پتنگ کیوں اڑائی وغیرہ وغیرہ۔ ایسی ٹوکم ٹاکی کے باعث بچے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجاتے تھے۔ ماں اگر اتنا کہہ دیتیں کہ ”آنے دو اپنے باوا کو، ان سے شکایت کر کے تمہیں پٹواوں گی۔ تم نے بہت پَر نکال لئے ہیں“ یہ سن کر بچہ پریشان ہوجاتا اور منہ چھپا کر روتا رہتا کہ اب اباجان آئیں گے اور مجھے ماریں گے۔
وقت گزرتا گیا، خاموش انقلاب کی جڑیں گہری ہوتی چلی گئیں اور آج یہ عالم ہے کہ جب ماں بیٹے کو ڈراتی ہے کہ میں تمہارے پاپا سے شکایت کروں گی تو بچہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ ”پاپا تو میرے دوست ہیں، وہ مجھے نہیںڈانٹیں گے۔“باپ جب یہ جملہ سنتا ہے تو وہ بیٹے یا بیٹی کے اس اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں اس کاا دوست بن کر رہتا ہے۔اس انقلاب کاایک واضح اثر یہ ہوا ہے کہ بیٹے باپ کے دوست اور بیٹیاں ماں کی سہیلیاں بن کررہتی ہیں یوں انہیں غیروں کو دوست یا سہیلی بنانابڑی حد تک ترک کر دیا ہے۔ یوں نصف صدی کے اس عرصے میں آنے والی اس تبدیلی کے اثرات مثبت ہیں یا منفی، اس کے بارے میں جاننے ، پرکھنے، مشاہدہ کرنے یا کسی تجربے سے گزرنے میں وقت درکار ہوگا۔ آپ کی کیا رائے ہے، والدین اور اساتذہ کا50سال پہلے والاطرزِ عمل بہتر تھا یا آج کی صورتحال بہتر ہے؟