Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول اکرمﷺ کی شرف صحابیت ، عطیۂ ربانی

امت مسلمہ کا کوئی فرد اپنے عمل صالح میں اخلاص اور کثرت وریاضت سے نہ صحابی بن سکتاہے نہ اس مقام جلیل تک پہنچ سکتاہے
* * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔مکہ مکرمہ* * *
نبی خاتم حضرت محمد رسول اللہ افضل الرسل بھی ہیں اور خاتم النبیین بھی ۔آپ سید المعصومین بھی ہیں اور آخر المعصومین بھی ،آپ کے بعد تاقیامت نہ رسالت آنی ہے ،نہ نبوت۔اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ ایک طرف مقام نبوت کا تعین کرتاہے تو دوسری طرف مقام صحابہؓ سے بھی متعارف کراتاہے ۔امت محمدیہؐ میں جس جس نے بحالت ایمان خاتم النبیین کی زیارت کا شرف پایا ،یقینا وہ اللہ تعالیٰ کے مختار بندوں میں سے ہیں کیونکہ آخر المعصومین اور خاتم الانبیاء کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے میرا انتخاب فرمایا اور میرے لئے میرے صحابہ کا بھی انتخاب فرمایا ۔‘‘ صحابہ کرام مومنین کی وہ مبارک جماعت ہے جن کا مقام ومنزلت شارع کی طرف سے معین ومقررہے ۔وہ کیا ہے؟یہی آج ہمارا عنوان سخن ہے ۔ ’’صحابی‘‘ جس کی جمع ’’صحابہ‘‘ یا’’ اصحاب‘‘ ہے ۔
لغت میں ’’ساتھی‘‘ کوکہتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ میں امت مسلمہ کے مومنین جنہیں حضرت خاتم النبیین کی بحالت ایمان زیارت نصیب ہوئی وہ اس لقب ’’صحابی ‘‘کے پانے والے اور رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے وصف کے مستحق ہیں ۔امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت خاتم النبیینکے صحابہ امت مسلمہ کے افضل ترین لوگ ہیں ۔ تاقیامت کوئی امتی جو غیر صحابی ہو وہ صحابی کے مقام ومنزلت تک نہیں پہنچ سکتا۔مقام صحابیت عطیۂ ربانی ہے جوکسب وریاضت یاکثرت ِعبادت سے حاصل نہیں ہوسکتا۔کوئی غیر صحابی اعمال کی کمیت میں صحابی سے بڑھ سکتاہے مگر کیفیت عمل اور اللہ کے ہاں مقام ومنزلت میں صحابی کے برابر اور اس پر سبقت حاصل نہیں کرسکتا۔ مقام صحابیت کی شرعی منزلت کے ادراک کیلئے مندرجہ ذیل شرعی حقائق معین مدددگار ہوں گے : نصوص کتاب وسنت سے ذی فضل وشرف موجودات میں سب سے اعلیٰ وارفع مقام ذات باری تعالیٰ کا ہے۔
اللہ جل شانہ جو خالق مطلق ہے ،صرف اسے ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مخلوق کیلئے نظام متعین فرمائے،یہ حق کسی اور کو ہرگز نہیں ۔یہ اسی کی ذات ہے جو جو چاہے کرے اورجیسا چاہے حکم چلائے ۔ کائناتِ ہستی کاحاکم اعلیٰ اور آمر مطلق ہے کہ جسے کوئی پوچھ نہیںسکتااور ہر مخلوق اسے جوابدہ ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے: ’’وہ اپنے کاموں کیلئے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں اور سب(اُسکے آگے) جواب دہ ہیں۔‘‘( الانبیاء23)۔ جملہ مقدسات وموجودات میں اللہ جل شانہ ہی مطاع مطلق ہے ، وہ کسی کا مطیع نہیں جبکہ سبھی اس کے مطاع ہیں ۔ پھر موجودات میں دوسری برگزیدہ ہستی انبیاء اور رسل کی ہوتی ہے ۔نبی وہ معصوم انسان ہیں جن کی عصمت کا محافظ خود اللہ جل شانہ ہوتا ہے ۔
انسانوں میں جماعت انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کوئی دیگر معصوم نہیں ، وہ اپنے دیگر کیلئے مطاع ہوتاہے ۔مقام رسالت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے ، اسی لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘( النساء64)۔ معلوم ہوا کہ نبی اور رسول کی ایک حیثیت اللہ کا مطیع ہونے کی ہے اور دوسری حیثیت اس کی امت کیلئے مطاع ہونے کی ہے ۔ رسول وہ برگزیدہ ہستی ہے جو اللہ کا مطیع اور اس کے حکم سے امت کا مطاع ہونے کے وصف سے مشرف ہے ۔ موجودات میں تیسر ی برگزیدہ ہستیاں وہ لوگ ہیں جو نہ نبی ہیں،نہ رسول اور نہ ہی معصوم،وہ مطیع ہی مطیع ہیں ،اللہ تعالیٰ کے مطیع اور اس کے رسول کے مطیع ہیںمگر ان کا شرف یہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول کے تربیت یافتہ ہیں جن کو رسو ل اللہ نے خود ایمان سکھایا، قرآن کی تعلیم دی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سکھائی ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان کے مقام ومنزلت کو خود یوں معین فرمایا: ’’اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم لوگ لے آئے تو ہدایت یاب ہوجائیں اوراگر منہ پھیرلیں اورنہ مانیں تو وہ سارے گمراہی میں ہیں،پھراللہ تعالیٰ ان کا حساب لے گا۔‘‘(البقرہ137)۔ اس آیت قرآنی نے اصحاب رسول کا مقام معین فرمادیاکہ اصحاب رسول ایمان میں نمونہ اور معیار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مطاع خالص ،رسول اللہ مطیع اور مطاع اور اصحاب رسول پوری امت مسلمہ کیلئے ایمان واطاعت میں معیار قراردیئے گئے۔ قرآن کریم کے نصِ قطعی کے مطابق یہ مقام صرف اور صرف اصحاب رسول کو عطاہوا ہے۔
کسی مومن کو ایمان اور صحبت رسول کا میسرآنا ،اس کا خیر القرون میں معیت رسول میں ہونا خالص عطیۂ ربانی ہے امت مسلمہ کا کوئی فرد اپنے عملِ صالح میں اخلاص ورغبت اور اس میں کثرت وریاضت سے نہ صحابی بن سکتاہے ،نہ ان کے مقام جلیل تک پہنچ سکتاہے ۔ ان کو یہ مقامِ رفیع اور یہ منقبت اس لئے حاصل ہوئی کہ ان کا انتخاب خود باری تعالیٰ نے اپنے رسول کی صحبت کیلئے فرمایا۔ نبوت سے امت تشکیل پاتی ہے تو وہ امت مسلمہ کی تاسیس کی پہلی کڑی ہیں ۔وہ خیر القرون کے خیر الناس ہیں،وہ وحیٔ ربانی کے اولین شہود ہیں جنہوں نے مہبط وحی سے مراد وحی کو سمجھا اور صاحب وحی کی نگرانی میں اس پر عمل کیا ۔قرآنی نص کے مطابق وہ مبارک جماعت ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کی ۔وہ اس امت کے وہ سرخیل اور سردارہیں جنہوںنے براہِ راست مصلح اعظم ،ہادیٔ عالم اورمعلمِ بشریت سے رشد وہدایت کی تربیت حاصل کی ۔انہوںنے نصوص شریعت کی مراد مبہط وحی سے سیکھا۔شارع کے مطلوبہ معیار کے مطابق اعتقادات کو سمجھا ،اعمال کی کیفیت کو مدرسۂ نبوت سے سیکھا ،جنکی کامیابی کی شہادت انہیں باری تعالیٰ سے حاصل ہوئی اور فوزِ عظیم کی بشارت اسی دنیا میں حاصل ہوئی ۔دین اسلام کی ایمانیات کا باب ہو یا عبادات ومعاملات اور اخلاقیات کا ،سب میں شارع کے ہاں مطلوبہ کیفیت میں سب سے اعلیٰ معیار قائم کیا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معیارِ ایمان اور معیارِ اطاعت قراردیا۔
ان کے فہم دین کی صحت اور تصدیق رسول کی وجہ سے انہیں مرجعیت حاصل رہی ۔ان کا اجماع حجت قاطعہ اوران کا اختلاف رحمت واسعہ قرارپایا۔ اس امر کا جاننا بھی شرعی حقیقت کا ادراک ہے کہ صحابہ کرام کا باب صرف فضائل کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اسلامی عقائد کا اہم حصہ ہے ۔ تمام علمائے عقائد نے علم توحید میں اپنی مدون کتب میں صحابہ کرام کی منقبت اور ان کے تشریعی مقام کے مستقل باب مدون فرمائے ہیں اور انہیں قرآن وسنت کی نصوص سے ثابت کیاہے۔ اس بات کاعلم بھی ضروری ہے کہ دین کی طویل تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی کسی شرعی امر کے بارے میں کوتاہی ہوئی تو اس کے سلبی اثرات پیداہوئے اور اس باب میں فتن فی الدین کے دروازے کھل گئے ۔توحید وسنت کے باب میں بیان وافصاح میں کوتاہی ہوئی تو اس کے سلبی اثرات عوام میں شرکیات وخرافات اور بدعات کی شکل میں پیداہوئے ۔حدیث کے مقام عالی اور حجیت سنت کے باب میں کوتاہی کے سلبی اثرات انکار سنت اور الحاد فی آیات اللہ کی صورت میں نظرآئے ۔بعینہٖ اسی طرح صحابہ کرام کے مقام شرعی کے باب میں ،فہم میں ،قصور یا بیان میں کوتاہی سے خلف میں سلف کی عقیدت وعظمت میں کمی پیداہوئی بلکہ صحابہ کا بغض،خلفاء کا رفض اور بعض پر قدح وجرح مقام صحابہ کے فہم میں قصور اور بیان میں کوتاہی ہی ہے۔ان فتن کا تدارک اسمیں ہے کہ ہم علم وتحقیق اور حجیت وبرہان سے اس اہم ترین شرعی مسئلہ کی افصاح بیان کریں ۔ حق تعالیٰ شانہ صحابہ کرامؓ کا سورہ الفتح آیت29 میں یوں ذکر فرماتا ہے : ’’محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحمدل ۔تم جب انہیں دیکھتے ہو تو وہ اللہ کے آگے جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور ان کی خوشنودی طلب کررہے ہیں ۔
کثرتِ سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئی ہیں اور ان کے یہی اوصاف توارت میں مرقوم ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔گویا وہ ایک کھیتی ہیں جس نے پہلے زمین سے اپنا پہلا دانہ نکالاپھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹاہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑاہوگیا اور کسانوںکو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ۔ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کااور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیاہے ۔‘‘ پھر قرآن کریم ایک اور مقام پر سورۃ التوبہ آیت 100 میں صحابہ کرامؓ کی منقبت یوں فرماتاہے: ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے اتباع میں ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کیلئے ایسے باغ تیارکرکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ جن کے قلوب کیلئے ایمان کو محبوب بنادے پھر وہ قلوب کس طرح کفر کو اختیار کرسکتے ہیں ۔
جن قلوب میں معصیت ، نافرمانی، گناہ،فسق وفجور کی نفرت خود خالق راسخ فرمادے تو کس طرح ان کے قالب اللہ اور رسول کی نافرمانی کی راہوں کو اختیار کرسکتے ہیں جن پر تقویٰ اللہ تعالیٰ چسپاں فرمادے تو پھر تو وہ جہاں جائیں تقویٰ ان کے ساتھ رہے گا۔نہ تقویٰ انہیں چھوڑسکتاہے اور نہ وہ اس سے جداہوسکتے ہیں ۔ایسے پاک بازوں کااختیار کرنا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو جو علیم وحکیم ہے تو کس طرح اللہ تعالیٰ کا اختیار غلط ہوسکتاہے ۔ایسے پاکبازوں کو کفر سے ،فسق ومعصیت سے ،نافرمانی سے ،کسی بھی دینی انحراف سے متہم کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے علم میں شک کرناہے ۔صحابہؓ میں تشکیک رب تعالیٰ کی تغلیط ہے، اس کے علم وحکمت کی تکذیب ہے ۔ سابقین اولین جیسے حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمر ؓاور ان جیسے دیگر صحابہ کرامؓ کے ایمان میں شک کرنے والا اللہ اور رسول کی تکذیب کرنے والا ہے ۔تاریخ امت میں یہ مقام ومنقبت اور مدح بزبان قرآن سوائے صحابہ کرام ؓکے کسی کو نصیب نہ ہوئی اور اس طرح کی بیسیوں آیات موجود ہیں ۔

شیئر: