ریاض:حسن عباس کےساتھ حلقہ فکر و فن کی شام
سفارتخانہ پاکستان کے کمیونٹی ویلفیئر اتاشی عبدالشکور شیخ مہمان خصوصی تھے
رپورٹ: جاوید اقبال۔ ریاض
تو جب ایک ہی صدا مسلسل ، برسوں تک گوش و احساس کے گرد ہالہ بنائے رکھے، اپنے حلقہ اثر سے باہر نہ نکلنے دے، کسی بھی دوسری آواز کو رسائی نہ دے تو لامحالہ یکسانیت محفلوں پر اضمحلال طاری کر دیتی ہے۔ ایسی ہی صورت تھی جب ساز وآواز کے افق پر غزل اور گیت کو نئے انداز سے غنائیت دینے والی ایک نئی صدا بلند ہوئی ۔ منی بیگم کے اپنے جداگانہ انداز نے محفلوں پر سحر طاری کر دیا۔ اب تک کے گمنام شعراءکا کلام اس مغنیہ کے انتخاب میں آیا تو ہر لب کی ادائیگی بنا۔ کبھی صرف منیر ، فیض ، فراز اور قتیل ہی گائے جانے کو اپنا حق سمجھتے تھے لیکن منی بیگم نے نامعلوم گوشوں سے بھی دلکش شعراٹھایا او راس کی گائیک بنیں۔
آوارگی میں حد سے گزر جاناچاہئے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہئے
یہ چاک گریبانوں کے بہکے قدم راہوں پر ڈالنے والا حسن عباس رضا تھا اور پھر اس کے دلکش لہجے اور انداز نے لاکھوں کو متوجہ کر لیا۔ گزشتہ ہفتے یہی حسن عباس رضا ریاض میں تھے اور حلقہ فکر و فن کے زیر اہتمام ان سے ایک شام منائی جا رہی تھی۔ حلقہ کے مرکزی صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی صدارت تھی جبکہ سفارتخانہ پاکستان کے کمیونٹی ویلفیئر اتاشی عبدالشکور شیخ مہمان خصوصی تھے۔ نظامت حلقہ کے سیکریٹری جنرل وقار نسیم وامق کی تھی جنہوں نے اعزازی مہمان حسن عباس رضا کا تعارف کرایا او رتقریب کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ حلقہ کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمود احمد باجوہ کی تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد عابد شمعون چاند نے نعت طیبہ پیش کی۔
ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ حلقہ فکر و فن شعر و ادب کی محافل سجاتا رہا ہے اور یہ کہ حسن عباس رضا کے اعزاز میں انعقاد پذیر ہونے والی نشست اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ 20نومبر 1951ءکو راولپنڈی میں پیدا ہونے والے رومان پرور حسن رضا کے والد صوفی محمد زمان اردو اور فارسی کے ایک معروف استاد تھے اور انہی کی نگرانی میں اس شام کے مہمان اعزاز میں ادب و تحریر سے لگاوپیدا ہوا۔ حسن عباس رضا کو تتلیوں ، جگنووں اور پھولوں سے پیار تھا۔ جدید نسل کے رومان پرور شاعر ہیں۔ 1982ءمیں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے وابستہ ہوئے۔ آج کل اکیڈمی آف لیٹرز سے منسلک ہیں اور اپنے فن سے وطن کے ہر گوشے سے داد و تحسین حاصل کر رہے ہیں۔
اس کے بعد ریاض میں مقیم شعر و سخن کے پختہ کا روں نے اپنا کلام پیش کر کے بے پناہ داد حاصل کی۔ منصور چوہدری کے خیال نے چونکا دیا۔ ملاحظہ ہو:
علم و حکمت کا تو بازار میں ہے ڈھیر لگا
بس زمانے میں کوئی صاحب تاثیر نہیں
شمعِ توحید لئے چل توُ بلا خوف و خطر
صاحب جذب کبھی قابل تعزیر نہیں
گلزیب کیانی کی پنجابی نظم کے بعد وسیم ساحر کے دلکش کلام نے خوب داد حاصل کی:
وہ آج بھی اپنے کمرے میں اکیلی
میری کوئی نظم ہاتھوں میں لئے
مجھ سے باتیں کرتی ہوگی
عبدالرزاق تبسم کے ترنم اور پختہ تحریر نے سماں باندھ دیا:
مجھ میںکہیں موجود وہی خوبرو تو ہے
عکس جمال یار میرے روبر تو ہے
محسن رضا ثمر کا خیال دلفریب تھا اور انتخاب الفاظ انتہائی قابل داد ۔ ملاحظہ ہو:
غم حیات نے جب جب تھکا دیا ہے مجھے
تیرے خیال نے ہی حوصلہ دیا ہے مجھے
اتارنا ہے مجھے قرض کچھ پتہ تو چلے
کہ زندگی نے لیا کیا ہے، کیا دیا ہے مجھے
شب وصال کیا یوں علاج آتش شوق
دیا جلا دیا اس نے، بجھا دیا ہے مجھے
جب دلفریب لفظوں اور ڈکشن کا ذکر ہو تو محمد صابر قنشگ کے ذکر کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ ملاحظہ ہو:
مرے سفر کا کوئی فاصلہ مقرر ہو
میں کس کے ساتھ چلوں قافلہ مقرر ہو
میں بات کر کے بڑا بے لگام پھرتا ہوں
میرے بھی سر پہ کوئی سر پھرا مقرر ہو
ہماری بات کا ہر دوسرا مخالف ہے
ہماری بات پہ اب تیسرا مقرر ہو
تقریب کے ناظم وقار نسیم وامق نے اظہار عشق کا دلفریب انداز اختیار کیا اور داد سمیٹی۔
میں بھی خیال یار میں دیوانہ بن گیا
لکھا تمہارا نام تو افسانہ بن گیا
شب بھر جلی ہے شمع تمہارے خیال کی
قلب حزیں فراق میں پروانہ بن گیا
یوسف علی یوسف ایک طویل غیر حاضری کے بعد فضائے ریاض میں لوٹے ہیں۔ انہیں کچھ نہیں کہا گیا بلکہ والہانہ انداز سے ان کی پذیرائی ہوئی ہے او روہ اس کے حقدار بھی ہیں۔ آپ بھی لطف لیں:
پرندوں کو اگر اونچی اڑانیں راس آ جائیں
تو پھر وہ آشیاں پر لوٹ آنا بھول جاتے ہیں
ہوا جن کو خس و خاشاک کر کے ساتھ رکھتی ہے
وہ پتے شاخ سے رشتہ پرانا بھول جاتے ہیں
بہت کچھ سوچ رکھتے ہیں مگر وہ جب بھی ملتا ہے
ہم اپنے سارے لہجے شاعرانہ بھول جاتے ہیں
پھر اس کے بعد اعزازی مہمان حسن عباس رضا او رحاضرین محفل تھے۔ روایتی لب و لہجے میں اٹھلاتی جدیدیت اور حالات کی ستم ظریفی کا بیان حسن رضا کو ان کا اپنا انداز عطا کرتی ہے۔ رومانیت لیکن گردش حالات پر اظہار قلق نے انداز کو ایک اپنا ہی حسن دے دیا ہے۔ حاضرین نے ہر شعر پر بے اختیار داد دی۔ انتخاب حاضر ہے:
بدن میں قطرہ قطرہ زہر اتارا جا رہا ہے
کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دورہیں گرداب سے ہم
مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے
٭٭٭
اس نے مذاق میں کہا میں روٹھ جاوں گا
لیکن مرے وجود سے یہ ڈر نہیں گیا
بچوں کے ساتھ آج اسے دیکھا تو دکھ ہوا
ان میں سے کوئی ایک بھی ماں پر نہیں گیا
٭٭٭
آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہئے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہئے
مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہئے
بعد ازاں تقریب کے سرپرست ڈاکٹر سعید احمد وینس نے پنجابی کلام سنا کرداد حاصل کی۔ مہمان خصوصی عبدالشکور شیخ نے اپنے خطاب میں شعر وسخن کی تقریبات کے انعقاد پر حلقہ فکر و فن کی تعریف کی اور کہا کہ بیرون ملک ہر پاکستانی اپنے وطن کا سفیر ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ادب لطیف جذبوں کی عکاسی کانام ہے۔ انہوں نے حسن عباس رضا کو حسین خیال کا عکاس کہتے ہوئے ان کی ریاض آمد کو اہل شہر کی خوش قسمتی قرار دیا۔ عبدالشکور شیخ نے کہا کہ حسن رضا انسان کے دل میں موجود حسن خیال کو زبان دیتے ہیں۔ انہوں نے ادب کو انسان کے لئے ایک اہم ضرورت قرار دیا اور کہا کہ معاشرے میں شعر کی غیر موجودگی انسانی زندگی کو ایک غیر دلچسپ اور سنگین المیے میں بدل دے گی۔ معاشروں کو پھول بیچنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں ایسے حساس لوگوں کی حاجت ہوتی ہے جو انسانی جذبوں کی عکاسی کر کے ابن آدم کو انسانیت کا پیغام دیں۔
ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کے اظہار تشکر پر تقریب کا اختتام ہوا۔ اعزازی مہمان کو یادگاری شیلڈ بھی پیش کی گئی۔