مسلم عورت، مستو ر رہنے والا ہیرا
جمعرات 5 اکتوبر 2017 3:00
تسنیم امجد ۔ریا ض
پا کستا نی معا شرے میں آ ج عو رت تر قی کر تی نظر آ رہی ہے۔عو رت کے مسا ئل کے سدِ باب کے لئے مختلف ادوار میں حکومتیں قانو ن سازی کر تی رہیںاور مختلف ا صلا حات کے اعلا نات بھی کئے جا تے رہے لیکن ان پر کبھی حکو متو ں کی تبدیلی اور کبھی سما جی پیچید گیو ں کی وجہ سے عمل در آمد نہ ہو سکا ۔ایک اور وجہ ہمارا معا شرتی ڈ ھا نچہ بھی رہا جو روایات کی پا سداری کر تا ہے لیکن دوسری جانب ہمارے ہا ں ایک طبقہ خو د کو بہت ہا ئی فا ئی ثا بت کر نے کی دھن میں ہے اور اوٹ پٹا نگ فیشن کی زد میں رہتاہے۔ ان پرما ڈ رنزم کا بھوت سوار ہے ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب دکھا وا معا شرتی زندگی کا چلن بن جا ئے تو پھر یکسا ں رویے ہر جانب نظر آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہماری قوم کی بیٹیا ں خوب سے خوب نظر آنے کی دھن میں مقا بلے با زی پہ اتر ی اپنی حقیقت بھو لی ہوئی ہیں ۔والدین کی روک ٹوک بھی ان پر اثر نہیں کر تی ۔
گز شتہ دنو ں ایک ما ں اپنی دونو ں بیٹیو ں کی شکایت کرنے کالج کی پر نسپل کے پاس آئیں جو اسٹیج شو کے لئے ان کی لیکچرر کی طرف سے ایک فر ما ئشی لسٹ تھا مے ہو ئے تھی ۔کہنے لگیں یہ کیا ہے ؟ا سٹیج شوز کیجئے لیکن بچیو ں کو بچیا ں ہی رہنے دیجئے۔یہاںکو ئی فلمی شو نہیں ہو رہا۔جھو مر ٹیکے اور کون کون سا برانڈڈ میک اپ جو بازار میں مل ہی نہیں رہا ۔ایک شے ادھر اور دوسری ادھر ۔با زا رو ں میں گھوم گھوم کر میں نڈھال ہو گئی ہو ں ۔میچنگ کے چکر کہ توبہ توبہ۔میرا تو پورا بجٹ الٹا ہو گیا ہے ۔پر نسپل بو لیں کہ مجھے نہیں خبر ۔میں انکوا ئری کرتی ہو ں ۔اس پر وہ اماں گڑ گڑائیں کہ میری بچیو ں کا نام نہ آ ئے، ورنہ ان کا کیا حال کیا جائے گا ،یہ آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ۔میں نے تو آپ کے پاس آنے کی ہمت کر لی لیکن یہ آ واز اکثر ما ﺅ ں کی ہے ۔آپ کم سے کم اپنے ادارے میں تو ایسی مسا بقتی تر بیت سے پر ہیز کریں ۔ہم اگر ان پر پا بندیا ں لگا تے ہیں تو یہ احساسِ کمتری کا شکار ہو ں گی ۔آپ کی جانب سے روک ٹوک مثبت رہے گی ۔
یقین جانئے زیادہ نہیں ،دو دہائی قبل بے پر دگی اور فیشن کی دوڑ کا یہ حال نہیں تھا ۔آج تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین میں کوئی فرق نہیں رہا ۔اکثر کی رائے یہ ہے کہ بچیو ں کو سجا بنا کر سامنے آنے دیا جائے تو ان کے”بر“جلدی مل جاتے ہیں ۔کا لج کے اسٹیج شوز اس سلسلے میں خا صا موثرکردار ادا کرتے ہیں لیکن اسے ہم کم عقلی اور اپنے دین سے دوری کہیں گے۔اللہ رب ا لعزت نے جو مقدر میں لکھ دیا وہی ملے گا ۔رشتوںکے جو ڑ توڑ میں ان دنیا وی خرافات کا بھلا کیا کام ؟ یہ بھی سننے کو ملا کہ رشتہ اس لئے تو ڑ دیا گیا کہ لڑکی نے فیشن شو میں حصہ لیا تھا ۔
قو مو ں کی پہچان ان کی ثقا فت میں پنہا ںہے ۔ہم نے دو قومی نظر یے پر عمل پیرا ہو نے کے لئے لا کھو ں قر با نیا ں دیں ۔دینِ اسلام شرم و حیا کا داعی ہے ۔ افسوس ہم ان حر بو ں کا شکار ہو گئے جو ازل سے ہی ہمارے وجود کے دشمن ہیں۔غیرو ں نے ہم پر غلبہ پانے کے لئے تر قی اور روشن خیالی کا بھوت ہم پرحقوق کی آڑ میں سوار کر دیا۔میڈیا نے بھی اغیار کی ثقافتی یلغار میں دل کھول کر مدد کی اور آ زادی کا زہرسرطان کی طرح گھر گھر پھیلتا گیا ۔ہمارے اجداد کون تھے ،ان کی اقدار کیا تھیں،ان کی را ہیں کون سی تھیں،یہ احساس دلانے والے خود احساس سے عاری ہو تے چلے گئے ۔اپنی پہچان کھو نے والے احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔بظاہر یہ آزاد ہیں لیکن دا خلی اور خارجی لحا ظ سے مغلوب ہیں ۔ہم نے طویل مسا فت اور قربا نیو ں کے بعد آ زادی کی دولت کو بے معنی کر ڈالا ۔ہم نے اپنی ما یو سیو ں کا حل خود کو میڈ یا کے غلافو ں میں لپیٹ کر نکا لنے کی ناکام کو شش کی ۔کیبل پر رنگ برنگے چینلز کے شو اہلِ خا نہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کا وتیرہ اپنا لیا۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ آج اکثر خواتین فخر سے اتراتے ہو ئے بتا تی ہیں کہ ان کی پا نچ یاچھ برس کی بیٹیا ں کیا خوب ڈانس اور کیٹ واک کرتی ہیں کہ بڑی بڑی منجھی ہو ئی ماڈلز بھی ان کے سامنے گھبرا جا ئیں ۔
ٹیکنا لو جی کی ترقی سے دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے لیکن اپنی پہچان کو داﺅ پر لگا نا کہا ں کی عقلمندی ہے ؟آج کل صبح صبح پا رکو ں میں باپ، بیٹی کے ہمراہ ٹریک سوٹ میں سبک خرامی کرتے نظر آتے ہیں اسطرح وہ خود کو ما ڈرن ثابت کر نے میں کا میاب تو ضرور ہو جاتے ہیں لیکن اپنی پہچان سے دور بہت دور۔اکثر خوا تین اس حقیقت کو جا نتے بو جھتے ہو ئے نظر انداز کرتی ہیں کہ خود کو چھپا کر رکھنے میں ہی وہ باوقار دکھائی دیتی ہیں ۔شرم و حیا ایسی صفات ہیںجو صنفِ مخالف کے دلو ں پر نسوانی عظمت و عفت کی د ھا ک بٹھا دیتی ہیں۔کاش ہمارے کر تا دھرتا ان صفات کی تر ویج کے لئے میڈیا کو لگام ڈالیں۔
حیرت تو یہ ہے کہ جن کی نقالی میںہم بے لگا م ہوئے ،ان کا بھی یہی خیال ہے جو ہمارا ہے ۔امریکی ما ہرین کی ایک تحقیق نظر سے گز ری ،جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین کو اپنی حیثیت ،قا بلیت و کر دار سے منوانی چا ہئے ،فحا شی بڑے پیمانے پر تبا ہی پھیلانے والا ہتھیا ر ہے۔
کاش ہم ادراک کرلیں کہ مسلمان عو رت مستور رہنے والا ہیرا ہے۔یہ نسل کی پر ورش کی ذمہ دار ہے جو مستقبل کا سہارا ہے ۔چادر اور چہار دیواری زادِ رہِ حیات ہے۔مغر بیت کی دلدادہ خوا تین واہ واہ کو اپنی کا میا بی و کا مرا نی جا نتی ہیں جبکہ اسلاف کے راستے پر چل کر خود کو منواناہی اصل کا میا بی ہے ۔مرد حضرات بھی کیا خوب خواتین کی کم عقلی سے مستفید ہو رہے ہیں ۔اشتہارات میں انہیں پیش کر کے اپنا بز نس چمکا رہے ہیں ۔کاش وہ اس حقیقت کو جان لیں کہ:
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں ، مردانِ خرد مند
افسوس ہمارا مسلم معا شرہ اس تفریق کی نفی کرے ۔ما ڈرنزم کا لبادہ اوڑ ھنے والیاں ،پردے دار خوا تین کو دقیا نوسی کہہ کر اپنی نام نہاد بڑائی تسلیم کر وا نے کے در پے ہیں ۔کا لج ،یو نیور سٹی میںاگر کو ئی لڑ کی دو پٹہ سر پر لیتی ہے تو با قی لڑ کیا ں اسے ما ئی کہہ کر کمتر ثابت کر تی ہیں ۔ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنا راستہ نہ بدلیں ۔کم و بیش سبھی خواتین اپنا دائرہ کار اور حیثیت سمجھتی ہیں ۔دینِ اسلام کی مقرر کردہ حدود میں ہی زندگی کاحسن ہے ۔منشور سے ہٹ کر چلنے والے خود اپنی راہو ں ہیں کا نٹے بو تے ہیں ۔دور حا ضر میں مرد حضرات بھی اپنی خواتین کو ان کی خوبیا ں بیان کر کے متعا رف کرانے میںاپنی عزت جا نتے ہیں جبکہ وہ باپ ،بھا ئی اور شو ہر کے روپ میں ان کی نا مو س کے ذمہ دار ہیں اور ربِ کریم کے سامنے جواب دہ بھی ۔راستے دو ہیں ،ایک نیکی کا اور دوسرا بدی کا ۔قدم جیسے ہی نیکی کے راستے سے ڈگمگا تے ہیں، شیطان ہا تھو ں ہاتھ تھام لیتا ہے ۔اسطر ح غیر محسوس انداز میںانسان اپنے راستو ں میں کا نٹے بو تا چلا جاتا ہے ۔گھر سے نکلنے وا لی خوا تین تمام تر نسوانی آ داب کو ملحو ظِ خاطر رکھیں تو کتنا اچھا ہو ۔
معا شرے کی تعمیر میں عورت انتہا ئی اہمیت کی حامل ہے ۔اسی لئے جب بھی کسی نے معاشرے پر وار کرنا چا ہا تو صنفِ نا زک کو ہدف بنایا کیو نکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر عمارت کی بنیاد چکنا چور کر دی جائے تو ساری عمارت خود بخودمنہدم ہو جاتی ہے ۔
عورت کی ترقی در اصل اس کی تعلیم ہے ۔ترقی در اصل عورت کو ان تمام موا قع کی فراہمی ہے جو اسے گھر گرہستی کو خوش حال بنا نے میں ممد و معا ون ہوں ۔گھر سے با ہر وہ آداب کے دا ئرے میں نکل سکتی ہے ۔