اہالیانِ پاکستان مسائل جھیل رہے ہیں، صاحبان کھیل رہے ہیں
غریب خواتین و حضرات کو ناگزیر جمناسٹک کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
پاکستان کو دیکھا جائے تو دنیا کا خوش قسمت خطہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت بھی ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہاں غربت خوفناک حد تک موجود ہے۔ غربت کے ساتھ مہنگائی کا جن بھی عوام کے سروں پر اس طرح مسلط ہو چکا ہے کہ جان چھڑائے نہیں چھوٹتی ۔ دیہات اور کچی آبادیوں کا ہم جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ وطن عزیز کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کی 70فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ بے روزگاری اور غربت کا شکار ہے۔ غربت کے انسداد اور صفائی ستھرائی کا کوئی خاص انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کا کیا عالم ہوسکتا ہے اس کا اندزاہ تو ہر ذی شعور کو بخوبی ہو جاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کا ہر کونہ خواہ وہ شہر ہو یا دیہات، اس کی بہتری کے لئے اقدامات کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھے یعنی ملک کے کونے کونے کی صفائی ستھرائی کا ذمہ ریاست کا ہوتا ہے اور ساتھ ہی عوام کی صحت و تندرستی ، تعلیم اور ان کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا بھی ریاست کی اولین ذمہ داریوںمیں سے ایک ہے مگر ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں بلکہ ہمارے ملک کے عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں جو ہر شہری کا بنیادی حق ہوتی ہیں۔ وطن عزیز کے عوام غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اہالیانِ پاکستان مسائل جھیل رہے ہیں اور ہمارے صاحبان پانامہ پانامہ کھیل رہے ہیں۔ ساری دنیا میں دولت کے انبار لگا رہے ہیں اور مٹا رہے ہیں اور پاکستان میں غربت اور دولت کا کھیل پہلو بہ پہلو جاری و ساری ہے۔ بھکاریوں کے غول کے غول یہ بتا رہے ہیں کہ ملک میں غربت میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے او رپھر کچرے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرتے بچے ہمارے ضمیروں پر تازیانے برساتے جا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی تمام فکروں سے آزاد لوگ بے فکری سے اپنے کندھے اچکا کر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی نظریں دوسری طرف پھیر کر گزر جاتے ہیںاوریہ تک کہہ گزرتے ہیں کہ یہ سب درست کرنا ہمارے بس میں نہیں۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 60کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں او رجن میں وطن عزیز کا نمبر 11واں ہے۔
پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خوراک کے بارے میں صورتحال تشویش ناک ہو گئی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 4کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں مگر پھر بھی ہمارے ہاں کسی کو غریب عوام کے دکھ درد سے کوئی سروکار نہیں انہیں تو صرف اور صرف مال و متاع جمع کرنے سے غرض ہے۔ صاحبان اختیارنے غربت کے خاتمے کے لئے بہتر پالیسیاں یا اقدامات کرنے کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفاکیا ہوا ہے۔ ان کو غریب عوام کے حالات زندگی کی کوئی پروا نہیں بلکہ الٹا ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں غریب غریب ترہوتا جا رہا ہے ۔ یوں کہنا چاہئے کہ غربت کے خاتمے کی بجائے غریب کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں ہمارے غریب عوام کو بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں۔ یہ کہاں کاانصاف ہے۔ صفائی ستھرائی کا کوئی نظام نہیں۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ جن سے اٹھنے والی بدبو اور تعفن عوام کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے نکاسی آب کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔ بارش کے بعد گلی محلوں میں پانی کھڑا دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے گندے پانی کے جوہڑمچھروں کی افزائش کی آماجگاہ بن جاتے ہےں اور مچھروں کے کاٹنے سے مختلف اقسام کی وباءکے پھیلنے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ملک میں شہروں اور قصبوں کی صفائی و ستھرائی کے نظام کو بہتر بنانا ضروری ہے تا کہ بارش کے بعد مسائل کا انبارنہ لگے ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بارش کے بعد بیماریاں گھروںمیں دندنانے لگتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ بارش ہوتی ہے تو بجلی کی تار اکثر ان کھڑے ہوئے پانی میں گرپڑتی ہیں اورکرنٹ لگنے سے قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ قدیم تاریخی شہر لاہو رکی ہے جہاں ایک باپ اپنے بچے کو لے کرکھڑے ہوئے گندے پانی بلکہ کیچڑسے گزرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری جانب اس کی شریک سفر یہ دیکھ ر ہی ہے کہ آیا اس کا شوہر او راس کا بچہ اس غلاظت کو عبور کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔اس قدیم شہر کی یہ حالت دیکھ کر دل افسردہ ہو تا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں غریبوں کی یہ حالات ہو گئے کہ ان کے گھروں اور گلیوںمیں بارش کے موسم میں پانی بھر جاتا ہے اورکوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا ایسے میں بے چارے غریب خواتین و حضرات کوانہیں اپنی جانیںہتھیلی پر رکھ کر اس قسم کے ناگزیر جمناسٹک کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں اگر کسی بزرگ کو اسپتال لے جانا پڑے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قدر مشکلات کا سامنا کرناپڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ آخرہمارے ملکی حالات میں تبدیلی کب آئے گی، ہمارے مسائل کب حل ہوں گے۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ انتخابات پر انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ اربوں روپے ترقیاتی کاموں پر صرف ہو جاتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ شہروں اور دیہات کی حالت جوں کی توں رہتی ہے ۔ کوئی ترقی دکھائی نہیں دیتی ۔ پچھلے 70سال سے غریب جہاں پر کھڑا تھا، آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ یہ وہ غریب ہیں جو ہمارے صاحبان اختیار کی کسی بھی ترجیح میں شامل نہیں ۔ ملکی و غیر ملکی ادارے چیخ چیخ کر ہماری غربت کا پول کھول رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ اس طرف دھیان ہی نہیںدینا چاہتے۔اکثر ذمہ داران بے کس و بے اختیار غریبوں کے ساتھ خرمستیاں کر رہے ہیں۔ عالمی بینک نے پاکستان میں غربت کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ملک میں بدانتظامی اور کرپشن اس کی بڑی وجہ دکھائی دیتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے حوالے سے پاکستان ایشیائی ملکوں میں آگے ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ ملک میں امیر ،امیر تراور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاںآٹا مہنا ہو چکا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ انسان کی کوئی قیمت نہیں۔ کوئی کسی کا نہیں رہا۔ کلاشنکوف کلچر عام ہو چکا ہے، کتابیں بند ہو چکی ہیں۔ اختیارات رکھنے والوں کی اکثریت اپنا اور اپنے خاندان کا اُلو سیدھا کرنے میں مگن ہے جبکہ غریب کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ۔غریب کا بچہ نہ ہی تعلیم حاصل کر سکتا ہے اور نہ اپنے بچپن اور بے فکری کے ایام سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ جس عمر میں بچوں کے کردار و اخلاقیات او ران کی قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارنے کی ضرورت ہوتی ہے اس دوران ایک غریب اپنے بچے کو مزدوری پر لگا دیتا ہے جس سے اس کی ذہنی نشو ونما متاثر ہو تی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر بچے اس چھوٹی سی عمر میں غلط کاریوں میں بھی پڑ جاتے ہیں اور ظاہر ہے جس معاشرے میں اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری ہو، وہاںایک غریب کی گنجائش کہاںباقی رہتی ہے۔ غریب وہ وجود ہوتا ہے جسے نہ پولیس کسی تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور نہ ہی اسے انصاف ملنے کی امید ہوتی ہے۔