Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”حال دل کا نہ چھپ سکا خسرو::آئینہ بن گیا مرا چہرہ“

 
 فیروز ناطق قادرالکلام شاعر ہیں، سحر ا نصاری(گزشتہ سے پیوستہ)
 
محمد عامل عثمانی ۔مکہ مکرمہ
ایئر فورس کی26 سال کی نوکری کے دوران میںنے پاک فضائیہ کے تقریباً ہرادارے میں اہم ذمہ داریاں نبھائیں ۔شاعری کو میں نے کبھی اپنے کام میں حائل نہیں ہونے دیا۔ پاک فضائیہ کے مجلے''فضائیہ'' اور'' ایرو ٹیکنیشن میگزین'' کی ادارت کے فرائض بھی کئی سال تک انجام دیتا رہا۔ میرے محکمے نے مجھے عزت بخشی، نہ صرف میرے پروفیشن کے حوالے سے بلکہ میری شاعرانہ صلاحیتوں اور کاوشوں کا اعتراف بھی تحریری طور پر ہوتا رہا۔ حال ہی میں چیف آف ایئر اسٹاف نے اسی حوالے سے ایک لاکھ روپے کا اعزازیہ عطا کیا۔
  ایئر فورس کی طویل ملازمت کے دوران میری شاعرانہ صلاحیتوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا البتہ ریٹائرمنٹ کے بعد جب مستقل طور پر کراچی میں والدین کے ساتھ رہائش اختیار کی تو یہاں کے کچھ مخصوص شعراءحضرات کو اپنی سینیارٹی© کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہوگئے۔ انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کی یہ موصوف یعنی فیروز ناطق خسرو تو کراچی میں اب ”اِن“ ہوئے ہیں جبکہ ہم یہاں شروع سے ہیں لہٰذا یہ ہم سے © جونیئر ہیں۔ شعری اور طبعی عمر میں کسی کے بڑے ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ میںنے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی ایک شہر میں ”اِن“ نہیں تو کہیں نہ کہیں تو موجود ہے۔ شاعر یا اس کی شاعری حدود کی پابند نہیں ہوتی۔ مجھے یہ سوچ کر اکثر ہنسی آتی ہے کہ آج مجھے کراچی شہر میں مستقل طور سے رہتے ہوئے 30 سال ہوگئے لیکن شہرت کی طلب میں مبتلا ذہنوں کو کراچی ”اِن“ اور”آﺅٹ“کا فتور مستقل اذیت میں مبتلا کئے رکھتا ہے۔ قدرت نے انسان کو جہاں اور بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہیں پر شعر و سخن بھی اسی کی عطا ہے ۔ زندگی میں صرف شاعر بن کر نہیں جیا جاسکتا ۔ میں نے بھی اپنی فوجی زندگی میں شاعر کے نام یا کام کو کبھی تمسخر کا نشانہ نہیں بننے دیا بلکہ یہ ثابت کیا کہ شاعر ، ادیب بھی دیگر افراد کی طرح معاشرے کا ایک اہم فرد ہوتا ہے اور ہر طرح کی ذمہ داری نبھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے:
خود سے نکل کے خود کو میں کل دیکھتا رہا
وہ مجھ سے مختلف کوئی انسان تھا بہت
میں نے فیروز ناطق خسروکی فوجی زندگی سے نکل کر جانا کہ کراچی کے دیگر ممتاز شاعر اور نقاد حضرات انکے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے انکے بارے میں کہا کہ فیروز ناطق خسرو، ایک قادرالکلام شاعر ہیں، ان کی شاعری میں تازہ کاری نمایاں ہے۔خسرو کلاسیکی مزاج رکھنے کے باوجود جدید خیالات اور نئے مضامین کو بھی غزل میں جگہ دیتے ہیں۔ ایسی روش اختیار کرنے سے زبان و بیان کے بھی بندھے ٹکے راستوں سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ زبان کا یہ تجرباتی رخ بھی فیروز خسرو کی غزل کا خاصہ ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو نے نعتیں بھی کہی ہیں۔ اس روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری کا ہر رنگ جداگانہ ہے،ان کا اسلوب شائستہ ہے ۔ شہزاد اور محمد علی گوہر ،فیروز ناطق خسرو کو منظوم خراج تحسین بھی پیش کرچکے ہیں۔
  پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ فیروز ناطق کی شاعری انسانی رویوں کی مظہر ہے۔ انہوں نے شاعری کے ذریعے اظہار معاشرہ کا کام کیا ہے۔ان کے ہاں خوبصورت شعری تراکیب نظر آتی ہیں۔انجم عثمان نے کہا کہ فیرزو ناطق خسرو کی شاعری میں جمالیاتی عنصر نمایاں ہے۔ ان کے اشعار میں باطنی بالیدگی اور فکر انگیزی پائی جاتی ہے۔ انور صدیقی نے کہا کہ فیروز خسرو اپنی غزلوں میں ہجرت، تہذیبی اقدار کی پامالی، مردہ ضمیری، بے حسی، طبقاتی کشمکش، دہشت گردی اور دیگر معاشرتی رویوں کو بہت خوبصورتی سے اپنے اشعار میں ڈھال لیتے ہیں۔ان کی تخلیق ان کی واردات قلبی کی آئینہ دارہوتی ہے۔قمر صدیقی اپنے ایک مضمون میں فیروز ناطق خسروکے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ آج کی ملکیت نہیں بلکہ وہ ہر دور اور ہر دور کے ہر زاویے کے آدمی ہیں۔فیروز ناطق خسرو کے اشعار کا نمونہ قارئین کی نذر:
 مےں زاد ِراہ سمجھتا ہوں فکرِ غالب کو
 سخن مےں مےر کو اپنا امےر کرتا ہوں
٭٭٭
میں موج موج ہوں میری بساط دریا ہے
مرا قبیلہ سمندر ہے، ذات دریا ہے
٭٭٭
میں اپنی تصویر اٹھائے سب سے پوچھتا پھرتا ہوں
لوگو مجھ کو غور سے دیکھو ،کیا میں پہلے جیسا ہوں
٭٭٭
بیچ صحرا تھی بہت اک قطرہ شبنم کی آس
جب ملی آغوشِ دریا، تشنگی بڑھتی گئی
٭٭٭
میرا دل اک ایسی خیمہ بستی ہے
جس کی گلیاں روشن ہیں انگاروںسے 
٭٭٭
 اجڑ نہ جائے پرندے کا گھونسلہ یا رب
ہوا کا زور ہے اور ایک بے زبان کی چھت
دلوں کو چاٹ گئی پل میں وہم کی دیمک
یقیں کا زور گھٹا جب پڑی گمان کی چھت
٭٭٭
فضا میں زہر گھولا جا رہا ہے
سناہے سانس لیتا ہے کراچی
٭٭٭
پردہ ذہن پہ ابھرے کسی چہرے کے نقوش
سوچ کے پھول بھی اب حدِ گماں تک مہکے
ہر نئی فکر سے کچھ تازہ مسائل جاگے
پیچ و خم گیسوئے ہستی کے یہاں تک مہکے
٭٭٭
''لاشریکَ لک''
میں جو حرمین پہنچاتو حیرت ہوئی دیکھ کر
لوگ اکنافِ عالم سے آئے ہوئے
ٹولیوں میں بٹے
ساتھ چلتے ہوئے
دم بہ دم ایک ہی سمت بڑھتے ہوئے
اپنی تقدیر پر ناز کرتے ہوئے!
کوئی گورے کو کالے پہ سبقت نہ تھی
کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی!
٭٭٭
بد نظر، بد قماش وخطاکار
لاکھوں کی تعداد میں
اُس کے دربار میں
جو تھے شاہ و گدا
یک زباں ہو کے لبیک کہتے ہوئے!
پشت پر بوجھ اپنے گناہوں کا
 لادے ہوئے
سب کے سب آہ و زاری میں مصروف تھے 
اُس کی رحمت کی بارش برستی رہی
اشک اپنی ندامت کے گھلتے رہے
داغ جتنے تھے دامن کے دُھلتے رہے
میرے جیسے گنہگار !
 عرفات سے جب چلے
طفلِ نوزائیدہ کی طرح
اپنی فطرت میں سب ایک تھے
نیک تھے!
ہر طرف سے یہی آرہی تھی صدا
کوئی مقصود اپنا نہ مسجود ہے
تُو ہی واحد ہے، یکتا ہے ، معبود ہے
لاشریکَ لکَ، لا شریکَ لکَ
٭٭٭
ذرا پرتو ملاحظہ ہو:
پاکیزگی میں ، من کی طہارت میں جھوٹ ہے
شامل مرے بدن کی عمارت میں جھوٹ ہے
طے کس طرح سے ہوں مرے تیرے معاملات
نیت میں ہے فتور، سفارت میں جھوٹ ہے
ماہر ہے دل کی بات چھپانے میں وہ بہت
یہ اور بات اس کی مہارت میں جھوٹ ہے
ممکن نہیں خلوص و مروت کا کاروبار
اوزان مختلف ہیں، تجارت میں جھوٹ ہے
خسرو مرے کلام میں کیسے اثر نہ ہو
لہجے میں کھوٹ ہے نہ عبارت میں جھوٹ ہے
٭٭٭
 شاطرانِ وقت پھر آئے نئی چالوں کے ساتھ
ہاتھ بدلے ہیں نہ مہرے ، ہے وہی کہنہ بساط
دیکھنا خسرو نیا سورج اُبھر کر آئے گا
ہے یقیں دم توڑ دے گی ظلم کی خونی یہ رات
٭٭٭
خود نقب کیسے لگاتے ہیں مکاں میں اپنے
ہم نے سیکھا ہے یہ اپنوں کی نگہبانی سے
مٹھی بھر خاک ہی صحرا کی بچھالیں گھر میں
آچکے تنگ بہت بے سروسامانی سے
خون جس شہر میں بہتا رہے پانی کی طرح
پیاس اُس شہر کی بجھتی نہیں پھر پانی سے
آپ کے پاﺅں معلق ہیں خلا میں خسرو
دیکھئے آنکھیں ہٹا کر کبھی پیشانی سے
شاعر کو جوہری کی طرح ہونا چاہئے جو نولکھے ہار کی لطافت اور نفاست میں توازن اور امتزاج کے ذریعے اضافہ کرتا ہے اور مناسبتوں کا خیال رکھتا ہے اور اپنے موتیوں کی چمک کو بے ڈھنگے جڑاﺅ اورعدم ترتیبی کے باعث ضائع نہیں کرتا ۔فیروز ناطق خسروان تمام لوازمات کا کس درجہ خیال رکھتے ہیںلگتا ہے کہ ان کی شاعری اس قول کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ : 
کوئی ظاہر کوئی چھپا چہرہ
میرا چہرہ کہ ہو ترا چہرہ
جب بناتا ہوں میں کوئی چہرہ
اوڑھ لیتا ہوں اک نیا چہرہ
شاخ سے ٹوٹ کر گرا پتہ
ہو گیا زرد پھول کا چہرہ
کیا رہیں یاداُس کے نقش و نگار
وہ ہے پارہ صفت، ہوا چہرہ
کھو دئیے اپنے خال و خد میں نے
ڈھونڈتا ہوں جگہ جگہ چہرہ
میں ہوں سادہ کتاب کی مانند
لفظ آساں ، ورق کھلا چہرہ
حال دل کا نہ چھپ سکا خسرو
آئینہ بن گیا مرا چہرہ
٭٭٭
مکمل غزل 
جس گھڑی راہِ پُرخار میں نے چُنی اُس نے بھی ساتھ عزمِ سفر کرلیا
صبح سورج نکلنے سے پہلے چلے ، جس جگہ ہوگئی رات گھر کرلیا
دم بہ دم ایک دیوار اُٹھتی گئی، اک چھری میرا سینہ کھرچتی گئی
جیسے جیسے گھٹن شہر کی بڑھ چلی ، میں نے دل میں نیا ایک در کرلیا
اک صدا میرے کانوں میں آتی رہی، اک بلا نام لے کر بلاتی رہی
 مُڑ کے دیکھا نہ میں نے کبھی راہ میں ،جو سفر طے کیا بے خطر کرلیا 
زندگی اپنی گزری ہے دکھ بانٹتے، باڑ کانٹوں کی ہر ہر قدم چھانٹتے 
ہجر کی فصل پلکوں تلے کاٹتے، جو بھی کوہِ گراں تھا وہ سر کرلیا
اُن کے آنے کی پھیلی خبر چار سُو، آئینے مہ جبینوں کے ہیں رُوبرو
میں نے بھی اُن کے چہرے پہ ڈالی نظر ،روشنی کو اسیرِ نظر کرلیا
لوگ آتے ہیں میرا نشاں پوچھتے، میرے شعروں کو پڑھ کر تجھے ڈھونڈتے
تجھ پہ میرے سخن کا نہ جادو چلا، میں نے دنیا کو زیرِ اثر کرلیا
 

شیئر: