کیا بینروں کا پیسہ بچوں کی بہبود پر صرف نہیں کیا جا سکتا ؟
تسنیم امجد ۔ریا ض
اسے بخار تھا چنانچہ وہ کام پر نہ جا سکا ۔آج کا چو لھا کیسے جلے گا؟ اسی سو چ میں اس نے اپنے 11 سالہ بیٹے طا رق کو آ واز دی۔وہ بستے میں کتا بو ں کی تر تیب ٹھیک کر رہا تھا، وہیں سے بو لا ابا بس ایک منٹ ،ابھی آ تا ہو ں۔اسکو ل بس آنے میں صرف پا نچ منٹ ہیں۔باپ بو لا بیٹا تو آج اسکول نہیں جا ئے گا ۔
کیو ں ابا ؟ اس نے چو نک کر پو چھا ۔قریب آ پھر بتا تا ہو ں ۔اس نے اس کے کا ن میں نہ جا نے کیا کہا کہ وہ سر جھکا ئے با پ کے پاس ہی بیٹھ گیااوربو لا ابا ! آپ فکر نہ کریں ،کیا کرنا ہے ،مجھے کام سمجھا دیجئے اور پھر وہ گھر سے با ہر چلا گیا ۔شام کو بنا و ٹی ہنسی ہنستے ہو ئے بولا کہ ابا آپ فکر نہ کریں۔جب تک آپ کومکمل آرام نہیں آ جاتا،کام پر میں ہی جا ﺅں گا ۔
آج طارق کے سا لا نہ امتحان کا پہلا دن تھا لیکن وہ حسرت سے کبھی بستے کو تکتا اور کبھی باپ کی طرف ما یو سی سے دیکھتا ۔جس کی آنکھ ابھی ابھی لگی تھی ۔سا ری رات کھا نستے جو گز ری تھی ۔اس کے سامنے دو نو ں چھوٹی بہنیں اور بھا ئی تھا جو بے خبر سو رہے تھے ۔اسکول بس گھر کے سا منے سے ہا رن دیتی ہو ئی گزر گئی۔نہیں نہیں مجھے ان سب کا خیال رکھنا ہے ۔ایک عزم لے کر وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔
دھنک کے صفحے پرتصویر میںشاید ایسے ہی طا رق کو دکھا یاگیا ہے۔بچے قدرتی وسا ئل کی ما نند ہو تے ہیں۔ان کی نشو نما پر تو جہ دینا ہماری اولین ذمہ داری ہو نی چا ہئے۔ہمارے معاشرے میں نجانے گدڑی کے کتنے ہی لعل ایسے ہیں جو اپنی خدا داد صلا حیتو ں کو دبا نے پر مجبو ر ہیں ۔
حال ہی میں ایک بچے کو ہم نے سبزی کی دکان پر خریداری کرتے ہو ئے دیکھا۔ایک غیر ملکی جو ڑا وہا ں رک کر انگریزی میں د کا ن دار سے بات کرنے لگا تو وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ انہیں کیسے سمجھا ئے ۔اس بچے نے د کان دار کی مشکل آ سان کر دی اور نہا یت عمد گی سے انگریزی بو لی ۔استفسار پر معلوم ہوا کہ وہ کسی کے گھر میں ملا زم ہے ۔گھر کے ما لک کے بچے پڑ ھتے لکھتے ہیں تو وہ کا م کے دوران ہی چلتے پھرتے ان بچوں کی زبانی جو سنتا ہے ، سب از بر کر لیتا ہے ۔وہ کہنے لگاکہ ہم پا نچ بہن بھا ئی ہیں ۔وا لدین اسکول بھیجنے کی استطا عت نہیں رکھتے۔اسی لئے ہم چار تو اسی طر ح گھرو ں میں ملا زم ہیں۔ایک ابھی چھو ٹا ہے ۔نہ جا نے ہمارے بااختیار صاحبان یہ سب دیکھتے اور محسوس کیوں نہیں کرتے ۔ایسے بچو ں کے جذ بات کی پامالی اور نفسیاتی شکست و ریخت کے ذ مہ دار کو ن ہیں ؟
بین ا لا قوا می سروے کے مطابق دنیا میں218ملین بچے کام کرتے ہیں۔ان میں 126ملین کو ایسے کام دیئے جاتے ہیںجو ان کی عمر کے لحاظ سے بہت خطر ناک ہو تے ہیں۔ان میں73 ملین تو10 بر س سے بھی چھوٹی عمر کے ہیں ۔اسی لئے ایک اندا زے کے مطابق22 ہزار بچے کام کی زیا دتی کی وجہ سے مر جا تے ہیں ۔ان سب کو بے زبان جا نو رو ںکی طر ح کام پر لگا دیا جاتا ہے ۔دوسری جا نب ان کی خرید و فرو خت کا کا رو بار بھی گر م رہتا ہے ۔یہ بے چا رے غلا مو ں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں ۔
والدین کا کہنا ہے کہ ہم سینے پر پتھر رکھنے پر مجبور ہیں ۔ایک ما ں نے روتے ہو ئے بتا یا کہ بچو ں کا باپ خود زمیندار کے پاس چھو ڑ آتا ہے ۔اب اکثر گھر آ کر بغیر کچھ کھا ئے پئے لیٹ جا تا ہے۔اس دن میں سمجھ جا تی ہو ں کہ اس نے چھو ٹے پر کو ئی ظلم دیکھا ہو گا ۔کیا کریں نصیب میں یہی لکھا ہے تو کیسے مٹا ئیں ۔ہمارے ہا ں لڑ کیو ں کو تو کو ئی ایسی مخلوق تصور کیا جاتا ہے جس پر ظلم کر نا گویا”ناگزیر“ ہے۔بچپن سے ہی سسکنا ان کے نصیب کا حصہ بن جا تا ہے ۔نہ جانے یہ غربت کب ہمارے گھرو ں سے نکلے گی ۔اللہ کریم نے ہمیں وسا ئل کے ساتھ ساتھ عقل و شعور کی دولت سے مالا مال فرمایاہے ۔اس سے استفادہ کیو ں ممکن نہیں ؟یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک طرف تو عا لمی ایام منا ئے جارہے ہیں اور دوسری جا نب بھو ک و افلاس کے ڈیرے ہیں ۔
بچو ں کے عا لمی دن پر پو سٹروں اور بینروں کی تیاری پر لا کھو ں لٹانے والوں سے سوال ہے کہ کیا یہ پیسہ بچوں کی بہبود پر نہیں صرف نہیں کیا جا سکتا ؟کاش ہم مغرب کی تقلید میں یہ سو چیں کہ وہا ں پیٹ کی فکر سے آزادی دی گئی ہے ۔اسی لئے غربت میں بھی وہ نام پیدا کرتے ہیں ۔تھا مس ایڈ یسن ایک کمزور سابچہ تھا ۔12برس کی عمر میں وہ سما عت سے بھی محروم ہو گیا لیکن پھر بھی وہ بجلی کا بلب اور دوسری ایجادات کر نے کے قا بل ہوا۔اسی طر ح گیلیلیو ،گرا ہم بیل ،ہیری فورڈ ،نیو ٹن اور آ ئن سٹا ئن کی زندگیو ں کا جا ئزہ لیں تو حیرا نی ہو گی کہ سب غریب اور متو سط گھرا نوں سے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ صحت کے مختلف مسا ئل سے بھی نبردآزما تھے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں بنیا دی ضرورت یعنی بھوک کی فکر نہیںتھی۔ہمارے ہاں بھی ذہین بچو ں کی کمی نہیں۔ایسے فطین اکثر کچرے سے کا غذ اور قلم ڈھو نڈ تے دیکھے گئے ہیں۔
وطن میں ایک اندازے کے مطا بق ایک کروڑ بچو ں سے جبری مشقت لی جا تی ہے ۔اکثر بے چارے منشیات کی لعنت میں پھنس جاتے ہیں ۔چا ئلڈ لیبر کا قا نون ہونے کے باو جود اس پر عمل در آمد نہیں ہو تا ۔اس تناظر میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
بے وطن کہلائے اپنے دیس میں
اپنے گھر میں رہ کر ہم بے گھر ہو ئے
بچو ں کی نام نہاد بہبود کے لئے کو شا ں اور خود کو معصوموں سے مشقت کے انسداد کا ذمہ دار قرار دینے وا لے خود بچوںسے مشقت لیتے ہیں ۔ہمارے ایک بھا ئی صا حب چا ئلڈ لیبر کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ہر میٹنگ و سیمینار میں دھوا ں دھار تقریریں کرتے ہیںلیکن ان کے گھر ایک دس 11برس کا بچہ کام کرتا ہے جوکبھی اپنے ہم عمر بچو ں کے جو تے پا لش نہ کرنے اور کبھی صحیح انداز میں کپڑے استری نہ کرنے پر مار کھاتا ہے ۔قول و فعل کا یہ تضاد ،چہ معنی دارد ؟
گز شتہ چند بر سو ں سے معا شرتی انتشارمیں اضافہ ہوا ہے ۔آپا دھا پی نے احترام چھین لیا ہے ۔فی ا لحال تو یوں لگتا ہے کہ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔کاش قوم یکجہتی اور قناعت سے کام لے کر ان حالات سے چھٹکارہ حا صل کرلے ۔سچ تو یہ ہے کہ جب تک را تو ں رات امیر بننے کا بھوت سر سے نہیں اترے گا،معا شرتی حالات میں کو ئی فرق نہیں آئے گا ۔
ہر قوم کی اپنی شنا خت ہو تی ہے ۔اس شناخت کی حفا ظت کی ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہوتی ہے ۔اس احساس کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔محض سیا سی وا بستگیو ں سے کچھ نہیں ہو گا ۔ اپنی پہچان کو پہچاننے میں ہی عا فیت ہے ۔ہر ایک کو اپنے اپنے حصے کا دیا اک نئے عزم کے ساتھ جلانا ہو گا ۔