Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیک اولاد، انبیائے کرامؑ کی خواہش

اولاد نیک ہو تو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب بنتی ہے ، ان کی نیکیوں کا صلہ والدین کو دنیا میں نیک شہرت اور وفات کے بعد صدقۂ جاریہ کی شکل میں ملتا ہے
محمد منیر قمر۔ الخبر
اولاد انسان کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتی ہے۔ ہر مومن و مسلمان نیک اولاد کے لئے دعائیں کرتا رہتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے یہ دعاء فرما 
’’اے میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا کر۔‘‘( الصافات 100 ) ۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی بانجھ تھیں ا ور خود بھی وہ بڑھاپے کو پہنچ چکے تھے ، اولاد نہیں تھی ۔ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کرتے تھے ۔ ان سے ملنے گئے تو دیکھا کہ انکے پاس بے موسم کا پھل پڑا ہے ، پوچھا : (مریم ! )یہ کہاں سے آیا ہے ؟۔‘‘
انہوں نے عرض کیا : اللہ کی طرف سے ۔سوچا کہ مریم کو اللہ نے بے موسم کا پھل بھیجا ہے تو اُس قادرِ مطلق کیلئے کیا ناممکن ہے؟ فوراً دعا کی :
’’ میرے پروردگار ! مجھے اپنی جانب سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو دعائیں سننے والا ہے۔ ‘‘( آل عمران38)۔  
رحمتِ الہٰی جوش میں آئی ، وہ ابھی وہیں کھڑے تھے کہ اللہ نے فرشتہ بھیج کر انہیں بیٹے کی بشارت دے دی ۔ فرشتے نے آکر پیغام دیا  :
’’ اللہ تمہیں یحییٰ (نام کے بیٹے ) کی بشارت دیتا ہے ‘‘۔
یہ بشارت سن کر عرض کیا  :
’’مالک! میرا لڑکا کہاں سے ہوگا، بڑھاپے نے تو مجھ کو لے ڈالا اور میری عورت بانجھ ہے۔‘‘
فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ اسی طرح جو چاہے سو کرتا ہے۔‘‘(آل عمران40)۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی محسوس کیا کہ میں اکیلا ہوں،میرا اللہ کے سوا کوئی وارث یا صلبی اولاد نہیں تو یہ دعاء کی :
’’ اے میرے مالک !مجھ کو(دنیا میں) اکیلا (بے اولاد ) مت چھوڑ اور(یوں تُو)تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔‘‘ (الانبیاء89)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا  :
’’پھر ہم نے اس کی دعاء قبول کر لی اور اس کو یحییٰ (فرزند ) عنایت کیا اور اس کی بیوی کوبھلا چنگا کردیا (ان کا بانجھ پن جاتا رہا یا ان کے اخلاق اچھے ہوگئے)۔‘‘(الانبیاء90)۔
انبیاء علیہم السلام کی ان دعاؤں اور انکے پس منظر کو پڑھ کر دیکھیں کہ انہوں نے کس کس عمر اور کن کن طبی و طبعی حالات میں اللہ سے  تعالیٰ اولاد مانگی، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دربار سے خالی دامن نہیں لوٹایا۔
ساتھ ہی یہ دعاء بھی مانگ لیا کریں تو بہتر ہے :
 رَبَّنَآ ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا (الفرقان47)۔
’’اے ہمارے مالک !ہم کو ایسی بیویاں او راولاد عطا فرما جن کی طرف سے(ہماری) آنکھیں ٹھنڈی ہوں اورہم کو پرہیزگار وں کاسردار بنا۔‘‘
آج اولاد کے ہر خواہشمند مسلمان مرد و زن کو یہ دعائیں یاد کرکے انہی کے ذریعے صرف اللہ تعالیٰ ہی سے اولاد طلب کرنی چاہئے  کیونکہ یہ صرف اُس کی صفت ہے اور وہی دیتا ہے ۔ مزاروں، درباروں یا پیروں، فقیروں ،باوؤں اور سرکاروں سے اولاد طلب کرنا ،اللہ کی جناب میں گستاخی اور شرک ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے ۔انسان اپنے بچوں کو نماز و روزہ کا پابند اور سچا مسلمان بنانے کی خودمقدور بھر کوشش کرتا رہے اور اسکے لئے اللہ سے دعائیں بھی کرتا رہے جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے دعاء کی تھی :
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآء۔  
  ’’میرے مالک مجھ کو نماز کا پابند کردے اور میری اولاد میں سے بھی کچھ لوگوں کو، میرے مالک !اور میری عبادت قبول کر‘‘۔ (ابراہیم40)۔
اولاد نیک ہو تو آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب و نظر کی تسکین وراحت کا سبب بنتی ہے ۔ اولاد کی نیکیوں کا صلہ والدین کو دنیا میں نیک شہرت اور وفات کے بعد صدقۂ جاریہ کی شکل میں ملتا رہتا ہے۔ اگر اولاد بگڑ جائے تو دل کیلئے ناسور بن جاتی ہے اور ان کی بد اعمالیاں والدین کے چین و سکون کو غارت کردیتی اور کبھی ان کیلئے ندامت و رسوائی کا باعث بن جاتی ہیں ، یہاں تک کہ قرآنِ کریم میں ایسے بچے کیلئے سفارش کرنے سے منع کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا  :
’’اے نوح !وہ تیرے گھروالوں میں سے نہیں ،اس کے گُن اچھے نہیںتوجوبات تجھے معلوم نہیں(جس کی حقیقت تُونہیں جانتا )وہ مجھ سے مت مانگ ،میںتجھے نادانوں میں شریک ہونے سے ڈراتا ہوں۔‘‘(ہود46)۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایسی اولا کو دشمن قرار دیتے ہوئے ان سے چوکنا رہنے کی ہدایت کی ہے ، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے  :
’’اے ایمان والو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے چوکنا رہو۔‘‘
اور ایک مقام پر اولاد کو آزمائش قرار دیا ہے :
’’اوریہ جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد یہی تمہارا خرابہ و آزمائش ہیں اوراللہ تعالیٰ کے پاس تم کو بڑا ثواب ملنے والا ہے۔‘‘
بچے والدین کے لئے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہوتے ہیں۔ یہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتے ہیں، انہیں مومن یا کافر اور نیکو کار یا بدکار بنانے میں سب سے بڑا کردار والدین کا ہوتا ہے اسی لئے نبی اکرم نے ارشاد فرمایا  :
’’ہر بچہ فطرتِ (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ، اسکے والدین اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ ‘‘(ابو داؤد)۔
اس حدیث میں بچوں کو ایسا کورا کاغذ بتایا گیا ہے کہ جس پر جو نقش ڈالا جائے وہ ثبت ہوجاتا ہے۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کیلئے کونسا رُخ اختیار کرتے ہیں؟ ان کی صحیح اسلامی تربیت کی جائے تو پھر ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے بھی فرمانبردار ہوں گے۔
تربیت کا مفہوم عام لوگوں نے صرف یہی سمجھ رکھا ہے کہ بچوں کی جسمانی تندرستی کی طرف توجہ دی جائے، انہیں اچھی غذا اور اعلیٰ رہائش مہیا کی جائے اور انہیں اعلیٰ عصری تعلیم کے زیور سے مزین کیا جائے جبکہ اس کا نتیجہ اکثر وہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہئے بلکہ بکثرت اولاد اپنے والدین کی جانب لاپرواہی، نافرمانی، انحراف اور بد سلوکی کا شکار ہوجاتے ہیں، یہ ایک تکلیف دہ صورتِ حال ہوجاتی ہے ۔ بعض والدین اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود اپنی اولاد کی صحیح اسلامی و اخلاقی تربیت کے معاملے میں ڈھیل سے کام لیتے ہیں جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے والدین کو نظر انداز ہی کردیتے ہیں۔یہ مکروہ و ناپسندیدہ نتائج ہمیں اپنی اولاد کی صحیح اسلامی اور اخلاقی تربیت کے معاملے میں غفلت و کوتاہی کی وجہ سے دیکھنے پڑتے ہیں۔
 
 
 

شیئر: