’’مادہ ‘‘بہت ہی منفرد النوع قسم کا لفظ ہے ۔ یہ ہوتی بھی ہے اور ہوتا بھی ہے یعنی یہ مونث بھی ہے اور مذکر بھی۔یہ تمام علم و آگہی ہمیںٹاٹ اسکول کی استانی ، مس شکیلہ پاکستانی کی زبانی ہی حاصل ہوئی تھی۔ انہوں نے سمجھایا تھا کہ ہر وہ وجود جوجگہ گھیرتا ہے اور وزن رکھتا ہے، مادہ کہلاتا ہے۔ ہم نے اس آگہی پر اُن سے سوال کیا تھا کہ مس! ہم بھی وزن رکھتے ہیں، اچھے خاصے وزنی ہیں اور جب ہم کلاس میں بینچ پر بیٹھتے ہیں تو اچھی خاصی جگہ بھی گھیرتے ہیں تو کیا ہم بھی مادہ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا تھا کہ جی ہاں۔ پھر مس شکیلہ نے عطائے علم و آگہی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید باور کرایا کہ ہر وہ ہستی جس کی آواز مرد کے مقابلے میں ذرا باریک ہو، طاقت کے اعتبار سے بھی ذرا کم ہو، داڑھی اور مونچھ باقاعدہ طور پر موجود نہ ہوں،زلفیں دراز ہوں اور من حیث المجموع مرد کے مقابلے میں ذرا نازک نازک ہو، اسے بھی ’’مادہ‘‘کہتے ہیں۔ انگریزوں نے ان دونوں کیفیات کو ایک ہی لفظ میں سمونا مناسب نہیں سمجھا چنانچہ انہوں نے ان دونوں اقسام کے نام جدا رکھے ۔ انہوں نے انسانوں کی نازک اور ’’پُر کشش قسم‘‘ کو ’’فی میل‘‘ کہا اور بے اشیاء کے زمرے میں آنے والے ’’بوجھ‘‘ کو ’’میٹر‘‘ کا نام دیا۔ ہم اردو والوں نے مادے کی اقسام و اصناف کو جدا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور جب بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کہ چھوڑئیے جی!نام میں کیا رکھا ہے۔بہر حال ہماری مس شکیلہ نے واضح کر دیا تھا کہ جب فی میل یعنی مونث ، یعنی عورت کا ذکر ہو تو یوں کہا جائے گا کہ ’’یہ مادہ ہوتی ہے‘‘ اور جب اشیاء کا ذکر کیا جائے گا تو کہیں گے کہ ’’یہ مادہ ہوتا ہے۔‘‘یوں ہماری مس نے ہمیں ایسی ایسی معلومات بہم پہنچائیں جو آج نصف صدی گزرجانے کے بعد بھی ہمارے لئے آگہی اور علم کے خزانوں سے کم نہیں۔
ایک روز ہم گنگناتے، گاتے، ہنستے، مسکراتے اسکول پہنچے۔ کمرۂ جماعت میں داخل ہوئے تو مس شکیلہ نے ہم سے استفسار کیا کہ آج آپ اس قدر شاداں و فرحاں کیوں ہیں؟باچھیں کیوں کھلی ہوئی ہیں، حرکتوں میں چلبلاہٹ کیوں پائی جا رہی ہے ، کیا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے؟ ہم نے کہا جی نہیں ! ایسا کچھ نہیں ہوا ، در اصل ہم نے خواب دیکھا تھا۔ ہماری بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ مس شکیلہ نے فٹ اُچٹ لی ، اب انہوں نے بولنا شروع کیا اور ہم ہمہ تن گوش ہو گئے۔ انہوں نے ’’فرمایا‘‘:
آپ نے خواب کی بات کی ہے ناں، تو پتہ ہے ، خواب کیا ہے؟ اس کی ہم ایک تعریف یہ کر سکتے ہیں کہ دلی مرادوں، ارمانوں، تمنائوں اور خواہشات کی تصوراتی تکمیل کو خواب کہا جاتا ہے۔ اس کی متعدد اقسام ہو سکتی ہیں مگرماہرین نے خواب کو 2بڑے حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے:ایک وہ خواب جو انسان زندگی میں دیکھتا ہے اور ایک وہ خواب کہ جن میں زندگی ہوتی ہے۔یہ کہہ کر ا نہوں نے ہم سے سوال کیا کہ اب بتائیے آپ نے کیا خواب دیکھا تھا؟ہم نے کہا کہ اپنی خالہ جان کو خواب میں دیکھا تھا، وہ ہماری آئیڈیل تھیں۔ہماری امی سے تو 8سال ہی چھوٹی تھیں مگر نجانے کیوں، وہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتی تھیں جیسے خالہ نہیں ہماری سہیلی ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ چھن چھپائی کھیلتی تھیں، پہل دوج میں بھی وہ ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔ لوڈو کھیلنی ہو یا کیرم، ہمارے مد مقابل چھوٹی خالہ ہی ہوا کرتی تھیں۔ وہ ہمیں چوکور ، چینی والے پراٹھے پکا کر بالائی کے ساتھ کھلاتی تھیں۔ ہم کہتے کہ خالہ جان آپ اپنے ہاتھ سے کھلائیے ۔ وہ ہماری فرمائش پوری کرتیں۔ جب نوالہ بنا کر ہمارے منہ میں دیتیں تو ان کے ہاتھوں پر لگی مہندی سے خوشبو آتی اور اس دوران ان کی کلائی میں پڑی کانچ کی چوڑیاں جب ایک جانب سمٹتیں توہمیں ایسا لگتا جیسے ہماری زندگی میں شادیانے بجنے لگے ہیں۔ہم ان سے کہتے کہ خالہ جان! آپ نے صرف ایک کلائی میں چوڑیاں پہنی ہیں، دونوں کلائیوں میں پہنا کیجئے ہمیں اچھی لگتی ہیں تو وہ جواب دیتیں کہ اپنی بیوی کو پہنانا دونوں کلائیوں میں کانچ کی چوڑیاں۔ جلدی سے بڑے ہوجائو پھر میں تمہاری بیوی بھی لے آئوں گی،مگر پھر یوں ہوا کہ وہ دنیا سے چلی گئیں۔ ہمیں ایسا لگا کہ خالہ نہیں بلکہ ہماری ایک سہیلی ہمیں کھیلتا چھوڑ گئیں۔ بس وہی خالہ کبھی کبھی ہمارے خواب میں آتی ہیں ، ہمارے ساتھ کھیلتی ہیں، ہنسی مذاق کرتی ہیں تو ہمارا دل کئی کئی دن مسکراتا، گاتا اورگنگناتا رہتا ہے۔یہ سن کر مس شکیلہ نے کہا کہ یہ وہ خواب ہے جو انسان اپنی زندگی میں دیکھتا ہے جبکہ دوسرے خواب وہ ہوتے ہیں جن میں زندگی ہوتی ہے۔ہمیں اُن کی بات سمجھ میں نہیں آ پائی تھی چنانچہ جب تک مس شکیلہ کے ’’زیر تربیت ‘‘رہے، ہم نے یہ وتیرہ اپنا رکھا تھا کہ جہاں کوئی خواب دکھائی دیا، فوری مس شکیلہ کو سنا دیااور ان سے پوچھ لیا کہ کیا اسے کہتے ہیں خواب میں زندگی؟ وہ جواب دیتیں نہیں بے وقوف! یہ تو زندگی میں دیکھا جانے والا خواب ہے۔پھر یوں ہوا کہ میٹرک کا امتحان دیا، ٹاٹ اسکول سے وداع ہوگئے، مس شکیلہ سے روابط منقطع ہو گئے ۔وقت گزرتا رہا، ہم خواب دیکھتے رہے ، مگر کوئی بھی خواب ایسا نہیں تھا جسے مس شکیلہ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ‘‘خواب میں زندگی‘‘ قرار دیا جا سکتا مگر پھر یوں ہوا کہ ایک روز ہم نے ایسا خواب دیکھا جس نے ہمیں مس شکیلہ کی بے مثال ذہانت و فطانت کا ایک مرتبہ پھر قائل کر دیا۔ وہ خواب ایسا تھا جس میں ہم نے زندگی دیکھی۔ اس خواب کی روداد پیش ہے:
’’ہمارے وطن عزیز میں انتخابات ہوئے ،79فیصد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔نئی حکومت بنی، ایک مردِ جری ملک کا وزیر ا عظم بن گیا ۔ اس نے مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں کہا کہ ہمارے سابق حکمرانوں نے وطن کو لوٹا، اس کی جڑیں کھوکھلی کر دیں، خزانہ خالی کر دیا، جرائم پیشہ عناصر نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔ ہم نے فحاشی کو فیشن بنا لیا، رشوت اور بے ایمانی کو چلن بنا لیا،بد اخلاقی کو اپنی پھبن بنا لیا، بد نظمی کو اپنا بانکپن بنا لیا،ہم نے اپنے وسائل اغیار کو سونپ دیئے، ہر شہری کے سر پر قرضے تھوپ دیئے ، آنکھیں بند کر کے غیروں کی تقلید میںمگن ہوگئے ہم خود اپنے ہی دشمن ہوگئے۔ ہمیں قدرت نے ایک اور موقع عطا فرمایا ہے۔آج آپ کے ملک میں نئی حکومت آ چکی ہے،میں تمام مسلمانانِ پاکستان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ نئی صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے رات کے 2بجے 2رکعات ادا کریں، اللہ کریم کے حضور رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔تمام ٹی وی چینلز وزیر اعظم ہائوس اور ایوان صدر سمیت دیگر سرکاری عمارات سے بھی مناظر نشر کریں۔ تمام پارکوں میں بڑی بڑی اسکرینز نصب کر کے وہاں نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیاجائے ۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام ایک ساتھ سرزمینِ پاک پر سجدہ ریز ہوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں، رشوت، چوری، بے ایمانی اور بدعنوانی سمیت تمام جرائم سے تائب ہو جائیں۔ پھر یوں ہوا کہ رات کے 2بجے ہم نے بھی نماز اداکی، توبہ استغفارکی اور پھر پتا کیا ہوا، فجر کے وقت باران رحمت نازل ہوتے دیکھی، خنک ہوائیں چلنے لگیں، درخت لہلہانے لگے۔ ایسا لگا جیسے آج سے پاکستان اسم بامسمیٰ ہو گیا، صاحبانِ ایمان کی پاک سرزمین ، پاکستان۔ اسی دوران ہمارے آنکھ کھل گئی ، پارکوںمیں نصب اسکرینوں پر لڑکے لڑکیاں کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے ہا ہا کار مچا رہے تھے۔ہمارا خواب چکنا چور ہو گیا، کاش خواب میں زندگی حقیقت بن کر سامنے آجائے ۔