Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برصغیر میں امریکی سفارتکاری

سید شکیل احمد    
امریکی وزیر خارجہ ریکسن ٹلر سن  افغانستان آئے ، پھر ہند چلے گئے ،راستے میں دم لینے کیلئے صرف 4 گھنٹے کے ٹرانزٹ پر پاکستا ن میں ٹھہرے۔ اس طرح وہ کئی شخصیات کا لب ولہجہ بد ل گئے۔ جب افغانستان میں تھے تو اس وقت بھی ان کی زبان سے جو پھوٹ رہا تھا اس سے ایسا معلو م ہوتا تھا کہ وہ افغانستان میں نہیں بلکہ ہند کی راجدھانی سے بول رہے ہیں۔ جب پاکستان آئے تو بھی لب ولہجہ میں کوئی کمی محسوس نہ کی گئی البتہ ہند میں بھی لہجہ کچھ نہیں کا فی سے بھی بڑھ کر ہندوستانی تھا۔  ایسا لہجہ ما ضی میں امریکی حکمر انوں نے نہیں اپنا یا۔ 70ء کی دہا ئی سے پہلے ایر ان کو ہند کی طرح ہی کا جنوبی ایشیا کا تھا نیدار بنا کر بٹھا دیا گیا تھا پھر اس تھانید ار کا کیا حال ہو ا کہ  اس کو امریکہ کی زمین میں بھی پنا ہ نہیںملی ۔ دنیا کی حسین ترین نا زو نرم کی پلی ملکۂ ایر ان  فرح دیبا کس حال سے دوچار ہوئیں۔ حال ہی میں ایک شائع شدہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہائے بیچاری کو بازار سے سودا سلف لا کر دینے والا کوئی نہیں ، چنا نچہ امریکہ کی گو د میں اچک کر جا نے والو ں کو شاہ ایران رضاشاہ پہلو ی اور پاکستان کی امریکہ کے ساتھ دوستی سے سبق حاصل کر نا چاہئے۔
امریکہ نے ہندکو ما ضی کا ایران جا ن لیا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ ریکسن ٹلر سن نے دورہ ہند کے دوران کہا ہے کہ ہند کی وہ خطے  میں بطور لیڈر حما یت کر تے ہیں۔ امریکہ کی نئی پالیسی میں  ہند کا اہم کر دار ہے اور امریکہ ہند کے ساتھ کندھے سے کند ھا ملا کر کھڑاہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی ملکر مثبت طریقہ سے کام کر نا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بہت ساری دہشتگرد تنظیموں کی محفوظ پنا ہ گاہیں ہیں۔ دہشتگرد تنظیمیں اب پاکستانی حکومت کیلئے خطرہ بن گئی ہیں۔  یہ خطرہ  والی بات ٹلرسن کی نہ صرف ذومعنی ہے بلکہ بہت گہر ائی اور گیر ائی لئے ہو ئے ہے ۔جہا ں تک ہند کی قائدانہ صلا حیتو ں کا چرچا ہے  تو وہ حیر ان کن بھی ہے کہ  دہشتگردو ں سے نمٹنے کا ہند کوکیا تجربہ کہ  اس کی قائدانہ صلا حیتو ں کی  حما یت کی پر چی کا ٹی جا رہی ہے ۔
  سوویت یو نین کے بکھر جا نے کے بعد سے امریکہ عملا ًحالت جنگ میں ہے اور اس نے تما م محاذ اسلا می امہ کیخلا ف کھول رکھے ہیں۔  اس وقت  172 سے زیادہ ممالک میں اس نے فوجی ٹھکا نے بنائے ہو ئے ہیں جن کی تعداد 2لا کھ40  ہزار بیان کی جا تی ہے  جبکہ نیٹو کی فوج بھی اسکے ساتھ مختلف مقاما ت پر شامل ہے۔ اب نئی افغان پا لیسی کے نا م پر جو اقداما ت کئے جا رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطے میں نیا محاذکھولنے کی تیا ریا ں کی جارہی ہیں اور ہند کو تھپکی اسی کی کڑی ہے ۔جہا ں تک امریکہ دنیا کے جن خطوں میں بر سرپیکا ر ہے وہا ں اس کی اسٹراٹیجک یہ رہی ہے کہ یہ  لا محدود وقت کیلئے ہیں جبکہ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ امریکہ جو گزشتہ 20 سال سے جنگ کو گھیرے ہو ئے یا جنگ میں گھر ا ہو ا ہے  اب تک ٹریلین ڈالر اس میںجھونک چکا ہے اور بہت سی قیمتی جا نیں ضائع ہو چکی ہیں۔ اس کے بدل کیا حاصل کیا ؟ اس کا کوئی جوا ب ہے بلکہ امریکہ کو کسی زما نے میں جو مقبولیت حاصل تھی وہ بھی کھو دی ہے  البتہ امریکہ نے ویت نا م کی جنگ سے یہ سبق سیکھا کہ جنگ کی باتیں کھل کر میڈیا کی زینت نہ بننے پائیں اور وہ اس میں کا فی حد تک کامیا ب بھی ہوا ۔ انسانی وحشت وخوف کے حوالے سے یہ پابندی عائد کی گئی کہ میڈیا میں جنگ کی تباہ کا ریو ں ، لا شو ں اور جبر وتشدد کی تصاویر نہ چھپنے پائیں، وہ بھی کا میاب پالیسی رہی لیکن اس کے ساتھ ہی امر یکہ نے جنگی حکمت عملی میںایک اہم  تبدیلی  یہ کی کہ  اس نے زمینی لڑائی کو  ترک کر دیا اور اس کی بجا ئے فضائی حملو ں کو  اپنا یا  چنا نچہ امریکی فوجی زمینی لڑائی سے بچ گئے  اس کیلئے امریکہ کو  غیر ملکی رضا کا ر مل جا تے ہیں جیسا کہ افغانستان ، عرا ق ،شام وغیر ہ میں ہے ۔  ویت نا م کی جنگ میں  زمینی لڑائی بھی  لڑنا پڑی تھی اور  اس میں امریکی گھر انے کا کوئی نہ کوئی فرد شامل تھا جس کی وجہ سے امریکی حکومت کو  اپنے ملک کے اندر  ویت نا م کی لڑائی کی مخالفت کا سامنا کر نا پڑا تھا ۔  امریکی  اعداد  و شما ر کے مطابق ویت نا م کی جنگ کے مقابلے میں  بعد کی  لڑائیو ںمیں امریکہ کا جانی نقصان کم ہو ا ہے جس کا  امریکی گھر انوں کو حساس نہیں ہو رہا اور  اس طر ح اندورن ملک دباؤ سے بچا ہو ا ہے ۔ اس امر کا اند ازہ ان اعداو شما ر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ نئی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے رواں سال  افغانستان اور عراق میں صرف 14 امریکی فوجی ہلا ک ہو ئے  جبکہ 2015ء میں افغان فو ج کے 6 ہزار785افراد ما رے گئے۔ اس کے علا وہ کئی ہزار شہری الگ سے ہلاک ہوئے۔ دونو ں جانب سے افغان عوام کا جانی نقصان ہوا ہے جبکہ سال2017ء میں اب تک2531 افغان سیکیو رٹی اہلکا ر ما رے جا چکے ہیں۔ شہر یو ں کی ہلا کت کا ہنو ز اندازہ نہیں لگا یا جا سکا۔ خاص طور پر امر یکہ نے افغانستان میں مد ر بم کا جو  تجر بہ کیا ہے،  اس سے کتنی ہلا کتیں ہوئی ہیں اس کا کوئی علم نہیںہوسکا ، گویا دوطرفہ نقصان افغانیوں کا ہی ہوا۔ 
امریکہ کی نئی پالیسیو ں کے پیش نظر ایسا کوئی امکا ن نظر نہیںآرہا کہ مستقبل میں امریکہ ان جنگو ں سے ہا تھ کھینچ لے گا کیو نکہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے 2017-18ء کیلئے جو  دفاعی بجٹ ما نگا تھا اس سلسلے میں 700 بلین ڈالر کی منظوری دی گئی ہے جو ٹرمپ کی طلب کر دہ رقم سے کہیں زیا دہ ہے ۔ ایسے حالا ت میں پاکستان کے وزیر خارجہ اپنا موقف یہ  بیا ن کر رہے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستا ن کو  امدا د نہیں بلکہ اپنا  وقا ر چاہئے۔ انھو ں نے یہ  دکھ بھی ظاہر کیاکہ  نائن الیون کے بعد امریکہ سے بڑا سمجھوتہ کیا گیا اور  اس کا نتیجہ آج دیکھ لیا ۔ سمجھو تہ کس نے کیا تھا ،کیا عوام کی منتخب حکومت نے کیا تھا؟  یا ایک آمر کا اقدام تھا؟  اس سے حساب کیو ں نہیں لیا جاتا۔ جمہوری دور میں قیا دت کی کوئی تفریق نہیں ہو ا کرتی۔ خواجہ آصف یہ جانتے ہیں ۔جمہو ری دور میں صرف ایک قیادت ہوتی ہے وہ  سول قیادت نہیں کہلا تی بلکہ جمہو ری قیادت کا  شرف حاصل ہوتا ہے۔ زیا دہ سے زیادہ اس کو  عوامی قیا دت کہتے ہیں۔ عوامی قیادت کو  بحال رکھنے کی ذمہ داری سیا ست دانو ں کے کندھے پر ہے جب سیا ست دان ہی اقتدار کا خون چاٹنے کے عادی ہو جا ئیں تو پھر زخم گہر ے ہو تے جاتے ہیں۔ اب بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی سیا ست میں نو مبر دسمبر کا مہینہ  نہ  تو ساون بھا دو ں ہے نہ بہا راں بلکہ پت جھڑ کا موسم ہے جس کے بعد نئے  پات اگیںگے  اورنئی کونپلیں چٹخیں گی جس کی آبیا ری میں سیا ست دانو ں کا ہی ہا تھ ہو گا ۔
 
 
 

شیئر: