الخبر میں ایوب صابر کے ”لٹھ مار “ پر تنقید
ادب ڈیسک ۔ الخبر
تنقید، ادب کا لازمی جزو ہے جس کے ذریعے کسی فن پارے کے روشن اور مدہم پہلوﺅںکا جائزہ لیا جاتا ہے۔ نقاد قلمکار کی انگلی پکڑ کر اُسے ادب کی واضح پگڈنڈی پر چلنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ کبھی نرم الفاظ سے ترغیب دیتا ہے اور کبھی سخت الفاط کا استعمال کرکے نشاندہی کرتا ہے۔
بزم ادراک سعودی عرب اور جُگنو انٹرنیشنل کے زیرِ اہتما م ایک تنقید ی و شعر ی نشست کا دہران کے مقامی ہوٹل میں انعقاد کیا گیا۔ نشست کی صدارت کہنہ مشق شاعر ، خاکہ نگار، شعری مجموعہ ”شام کی زد میں“ کے خالق اور اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم کے روحِ رواں اقبال احمد قمر نے کی ۔ مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر چار مجموعہ ہائے کلام کے خالق، بین الاقوامی شہرت کے حامل، غزل کے منفرد و مقبول شاعر سہیل ثاقب، بحرین سے آئے ہوئے خلیجی ممالک کے ہردلعزیزشاعر ،تین شعری مجموعہ ہائے کلام کے خالق اقبال طارق، بحرین سے ہی آئے ہوئے عالمی مشاعروں کے منتظم، اردو اور پنجابی کے صاحب اسلوب شاعر ریاض شاہد، نئی زمینوں پر تازہ لہجے کے شاعر ”روشنی گلابوں کی “ کے خالق سعید اشعر، مترنم لہجے کے شاعر بزمِ اردو ادب ،الاحساءکے صدر حکیم اسلم قمر تشریف فرماتھے۔ نظامت کے فرائض بزم ادراک کے صدر محمدایوب صابر نے اپنے انداز میں اد اکئے ۔ نشست 2 حصو ں پر مشتمل تھی ۔پہلے حصے میں محمد ایوب صابر کا افسانہ ”لٹھ باز “ تنقید کے لئے پیش کیا گیا۔ دوسرے حصے میں شاندار محفل ِ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔
محمدایوب صابر نے استقبالیہ پیش کرتے ہوئے منطقہ شرقیہ سعودی عرب اور بحرین سے آئے ہوئے شعرا ءکو خوش آمدید کہا اور جگنوانٹر نیشنل کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ نامور شاعرہ و ادیبہ ایم زیڈکنول، جگنوانٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹیوہیں اور میں جگنو انٹرنیشنل کا کوآرڈینیٹربرائے سعودی عرب ہوں ۔بزم ادراک اور جگنو انٹرنیشنل ادب کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ اب ایوب صابر نے اپنا افسانہ ”لٹھ باز “ تنقید کے لئے پیش کیا۔
”لٹھ باز“ پر اظہار کرتے ہوئے مسعود جمال نے کہا کہ اس افسانے میں بہت سے کردار ہیں لیکن ایوب صابر نے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور منظر نگاری متاثر کُن ہے۔ غزالہ کامرانی نے کہاکہ ایوب صابر نے افسانے کی کہانی میں عمدہ تانے بانے بُنے ہیں۔الفاظ کا چناﺅ بہت اعلیٰ ہے کیونکہ الفاظ کا چناﺅ افسانے کے پس منظر کو بیان کر رہا ہے۔مجھے کہانی اور منظر کشی نے بہت متاثر کیا اور افسانہ سنتے ہوئے ایسا لگا کہ میں اُس گاﺅں میں موجود ہوں ۔
حبیبہ طلعت نے کہا کہ یہ افسانہ اپنی نوعیت کا الگ افسانہ ہے۔یہ ادب برائے زندگی کی ایک مثال ہے۔ہمارا معاشرہ اس وقت نفسانفسی کا شکار نظر آتا ہے۔ ہم ظلم دیکھتے ہیں لیکن اُس کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ آج کل افسانے کی نوعیت بدل رہی ہے ۔ اب کہا جاتا ہے کہ افسانے کو اتنے الفاظ میں قید کردو۔ افسانے کی اپنی ایک ساخت ہوتی ہے جس کو آپ پابند نہیں کر سکتے ۔ مجھے یہ افسانہ سن کر محسوس ہوا کہ ایوب صابر جو پیغام دینا چاہتے تھے، وہ اُس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ افسانے کا مرکزی کردار رکھا معاشرے کی آواز ہے۔
دانش نذیر دانی نے کہا کہ ایوب صابر اپنے افسانے کے ذریعے معاشرے کا مثبت پہلو پیش کرتے ہیں۔افسانے میں مختلف کردار ہیں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی کردار ذرا تاخیرسے شامل ہوا ہے۔ افسانے میں ذکر کیا گیا کہ جلال پور میں آدمی کا کام اُس کی سماجی حیثیت دیکھ کر کیا جاتا ہے ۔دراصل یہ جلال پور نہیں، پاکستان کا ذکر ہے۔ اعجاز الحق نے کہا کہ ایوب صابر کا افسانہ بہت پسند آیا ۔ اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی انسان ایسا پیدا کرتا ہے جو ظلم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے، رکھا وہی کردا رہے۔ معراج الدین صدیقی نے کہا کہ افسانے میں ماں اور بیٹی کے درمیان مکالمے بہت عمدہ ہیں ۔ کہانی کے تسلسل میں کہیں کوئی شکن نظر نہیں آتی۔داﺅد اسلوبی نے کہا کہ افسانے میں منظر نگاری اور واقعات کا تسلسل بہت شاندار تھا۔ اس افسانے نے ہمیں محظوظ کیا۔ سلیم حسرت نے کہا کہ افسانے کو سنتے ہوئے دلچسپی ابتدا سے اختتام تک قائم رہی۔ اس لئے میںاسے ایک بہترین افسانہ کہوں گا۔ ساجد فاروق نے کہاکہ مجھے منظر کشی دلچسپ محسوس ہوئی۔اس میں کئی کردا ر تھے جن کے مکالمے پسند آئے۔
جاوید سلطان پوری نے کہا کہ مجھے افسانہ سن کر ایسا لگا کہ یہ سارا منظر ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عابد علی نے کہا کہ افسانہ نگار اُس منظر کی بھی عکاسی کرتا ہے جو اُس نے دیکھا نہیں ہوتا ۔ ایوب صابر کے افسانے میں یہی خوبی ہے کہ یہ ایسی منظر کشی پیش کرتا ہے جو اس نے دیکھی نہیں ہوتی بلکہ اپنے تصور سے پیش کرتا ہے۔ افضل خان نے کہا کہ یہاں نثر نگاروں کی کمی ہے جبکہ ایوب صابر نے نثر کی طرف بھر پور توجہ دی ہے۔ اس افسانے کا موضوع پرانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایوب صابر کو اپنے افسانے میں جدت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور کے مسائل کو بھی افسانے کا موضوع بنایا جائے تو اس میں جدت پیدا ہوگی۔
حکیم اسلم قمر نے کہا کہ افسانہ لٹھ باز کا نچوڑ شعور و آگہی ہے اور اگر ہم شعور و آ گہی سے بہر ہ ور ہوجاتے ہیں تو خود میں ہر طرح کے جبرو استبداد سے ٹکرانے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں ۔ ریاض شاہد نے کہا کہ ایوب صابر نے افسانے میں جو بات علامتی طور پر کہنے کی کوشش کی ہے اُس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ لٹھ باز کا چونکہ بنیادی کردا رہے اس لئے ابتدا میں رکھا کے بچپن کی کوئی جھلک پیش کی جاتی تو زیادہ متاثر کُن ہو سکتا تھا۔
سعید اشعر نے کہا کہ ایوب صابر نے گاﺅں کے ماحول کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور بڑے دلچسپ انداز میں جزئیات کو پیش کیا ہے۔ اس میں بعض تشبیہات متاثر کُن ہیں۔اس افسانے کے مکالمے فطری تھے ۔ کرداروں کا تعارف اس تسلسل سے پیش کیا گیا کہ تبدیلی کا احساس ہی نہیں ہوا۔کرداروں میں کہیں پیوندکاری نہیں ۔ افسانہ سنتے ہوئے یہ خیال آ یا کہ نوری جس پر افسانہ شروع ہوا تھا، وہ کہاں گئی لیکن انہوں نے نوری پر ہی افسانہ ختم کیا اس میں تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس افسانے کے اختتامیہ میں جہاں لٹھ ،باز نوری کے سر پر دوپٹہ رکھتا ہے ، افسانہ وہیں ختم ہونا چاہئے تھا۔ اس کے بعد کے جملے غیر ضروری ہیں ان سے افسانے کا حُسن متاثر ہوا ہے۔ اقبال طارق نے کہاکہ اس افسانے کے کرداروں کا تعارف ایسے لگ رہا تھا جیسے ناول کا اسکرپٹ ہو۔اس کا بنیادی کردار لٹھ باز تاخیرسے ظاہر ہوا ہے۔اِس کے کردار حکیم فضل دین کا اختتامیہ میں ذکر ہونا چاہئے تھا۔ افسانہ پڑھتے ہوئے ایوب صابر کی آواز لرز رہی تھی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ افسانے کا اِن کی ذات سے گہرا تعلق ہے۔ اس کا اختتامہ بہت عمدہ تھا ۔
سہیل ثاقب نے کہاکہ میرے خیال میں ایوب صابرکا افسانے میں ارتقا ہو رہا ہے۔ اس افسانے میں گاﺅں کے ماحول کی عکاسی کی گئی ہے۔ افسانہ موجودہ دور کی مقبول نثری صنف بن گیا ہے۔ اقبال احمد قمرنے کہا کہ میں ذاتی طور پر افسانے سے اس لئے بھی محظوظ ہوا ہوں کہ بچپن میں میری گرمیوں کی چھٹیاں گاﺅں میں گزرتی تھیںتو مجھے اس افسانے کے کردار سامنے گھومتے پھرتے نظر آ رہے تھے کیونکہ یہ سب میرے دیکھے بھالے ہیں۔ اس کی منظر کشی بہت عمدہ ہے۔میرے خیال میں کرداروں کی بہتات کی وجہ سے لٹھ بازکا کردار زیادہ اجاگر نہیں ہو سکا ۔اس میں ایک پہلوبہت عمدہ ہے، ہمارے ہاں گاﺅں کی ثقافت میں کسی کو چارپائی پر سرہانے کی طرف بیٹھنے کے لئے کہنا بہت بڑی عزت افزائی سمجھی جاتی ہے۔اس کے ذریعے ایوب صابر نے گاﺅں کی ثقافت کا رنگ پیش کیاہے۔ آج کل یہ ماحول ناپید ہو چکا ہے ۔ ایوب صابر نے ہماری آئندہ نسلوں کے لئے یہ رنگ افسانے کے ذریعے محفوظ کیا ہے۔
اقبال احمد قمر نے صدارتی کلمات میںکہا کہ ادب معاشرے کا عکاس ہے اور کسی شاعر یا ادیب کو اپنی محنت سے ادب میں نام پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔کسی کو بھی شہرت کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں ، آپ ادب تخلیق کریں، شہرت آپ کو خود تلاش کر لے گی۔ نامور صحافی ، شاعرہ و افسانہ نگار حبیبہ طلعت نے اپنا افسانچہ ”تماشا“ پڑھا اور اپنی ویب سائٹ کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔جسے شرکائے محفل نے پسند کیا۔ اس کے ساتھ ہی تنقید ی نشست تمام ہوئی۔