Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عبوری حکومت

 
محمد مبشر انوار
پاکستان کا دارالحکومت  اسلام آباد ہمیشہ کی طرح  اس وقت بھی شدید ترین افواہوں کی گردش میں ہے، گزشتہ  تحریر میں  این آر او سے متعلق اپنی  معروضات پیش کی تھی اور یہ  توقع ظاہر کی تھی کہ  ریاست پاکستان اس  وقت جس سمت جا رہی ہے  وہاں کسی این آر او کی  قطعاً کوئی گنجائش نہیں بلکہ عوام کی اکثریت  دلی طور بر یہ چاہتی ہے کہ   وطن عزیز کے  وسائل کو بے دردی سے  لوٹنے والوں کو  عبرت ناک  سزائیں دے کر ہر صورت  ان سے  لوٹا ہوا مال  برآمد کیا جائے۔ اس کے   علاوہ کوئی بھی حل کسی بھی  صورت  قابل قبول نہیں کہ  ان  حکمرانوں کی اقربا ء  پروریوں،  میرٹ کے قتل عام ،مافیا طرز حکمرانی،اختیارات سے  تجاوز کرتے ہوئے قانون سازی،قانون سازی کرتے ہوئے چند خاندانوں کے  مفادات کاتحفظ اور  عیاشیوں نے نہ  صرف ملک کے  بہترین   دماغوں کو   بیرون ملک جانے پر مجبور کیا ہے  بلکہ ان تارکین وطن کے خون پسینے کی کمائی کو مسلسل   اللوں تللوں میں    اڑایا جا رہا ہے۔    عدالت عظمیٰ سے  نا اہل قرار پانے کے  باوجود  ہر طرح کے   سرکاری وسائل پر قابض،عدالتی پیشیوں پر بھی پورے پروٹو کول سے  تشریف کے ٹوکرے   لائے جار ہے ہیں،بے شرمی کی  انتہا دیکھیں کہ ایک طرف ریاست بنام ملزمان کی  آوازیں لگ رہی ہیں  اور  دوسری طرف حکومتی وزراء نامزد ملزمان کے ساتھ کھڑے ہو کر قاعدے و قانون کی سرعام دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔اخلاقیات نام کی کوئی بھی چیز ،ان حکمرانوں کے نزدیک سے نہیں گزری،اداروں کی تضحیک کرتے ہوئے جب نا اہل شخص اپنے جلسوں میں  سرعام سوال کرے کہ مجھے کیوں نکالاتو اس کے  ووٹر اور سپورٹر اس پر تالیاں بجاتے اور سر دھنتے ہیں مگر جب یہی سوال کوئی مخالف یا غیر ملکی سوشل میڈیا پر طنزیہ انداز میں اپ لوڈ کر دے  تو یہی ووٹر اور سپورٹر ’’سابق  نا اہل وزیر اعظم‘‘ کی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ بات اتنی ہی معیوب ہے  اور نااہل شخص کو یہ سوال کرنے سے پہلے  سوچنا چاہئے تھا کہ آیا یہ سوال کیا جانا چاہئے یا نہیں۔ 
خیر اس وقت زیر بحث موضوع عبوری حکومت سے متعلق ہے جس کے متعلق شدید افواہیں ہیں کہ  مقتدر حلقوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جلد عبوری حکومت کا قیام عمل میں لا کر احتسابی عمل کو  تیز تر کر دیا جائے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا عبوری حکومت کی کوئی گنجائش آئین میں ہے؟کیا ایسی کوئی عبوری حکومت مجوزہ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟مجوزہ  عبوری حکومت کن  قوانین کے تحت کام کرے گی؟آیا موجودہ  قوانین ہی اس کے بروئے کار آنے کے لئے کافی ہوں گے یا نئے قوانین بنانے پڑیں گے؟اگر نئے  قوانین بنانے کی ضرورت پڑی تو عبوری حکومت کے پاس یہ اختیارات کہاں سے آئیں گے؟ غرض یہ کہ  بہت سے سوالات ایسے ہیں ،جن کا جواب عبوری حکومت کے قیام سے مطلوب ہو گا اور ان  سوالات کے  جوابات میں  میسر قوانین  سر دست خاموش ہیں،گو کہ ایسا ایک نمونہ بنگلہ دیش میں بن چکا ہے،جس سے کوئی خاطر خواہ  فائدہ بنگلہ دیش کو حاصل نہیں ہوا اور  نہ پاکستان کو حاصل ہونے کے  امکانات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مشکلات کا  شکار اشرافیہ کی یہ شدید  خواہش ہے کہ کسی طرح بھی کوئی ایسا سیٹ اپ قائم ہو جس کا  براہ راست تعلق کسی بھی طرح آئین سے نہ ہو اور اس نئے  نظام کے تحت  ملنے  والی سزاؤں کی اہمیت  صفر کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو۔ اس پس  منظرمیں گمان یہی ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم  سمیت کئی دیگر چھوٹی  سیاسی جماعتیں اس قسم کی افواہوں کو  پروان چڑھارہی ہیں تا کہ  جاری قانونی کارروائی کا منظر دھندلا یا رہے  اور   وہ تمام تر سہولیات حاصل ہونے کے  باوجود اپنی بے کسی و بے بسی کا   راگ الاپتے رہیں۔ مظلوم  بننے کے یہ ساری کوششیں عبوری حکومت کے قیام سے حقیقت کا  روپ دھار لیں گی  اور اب تک کی  ساری محنت اکارت جائے گی، طرہ یہ کہ پراپیگنڈہ فیکٹری احتساب کے اس عمل کو   ووٹ کے تقدس کے  ساتھ جوڑتے ہوئے ،اپنے غلط اور جھوٹے  مؤقف میں  کامیاب ہو جائیگی کہ کسی بھی منتخب نمائندے کا احتساب صرف عوام کر سکتے ہیں ۔ دوسری اہم بات کہ اداروں کا کام  صرف حکمرانوں کے جرائم کی پردہ پوشی اور غریب عوام پر ظلم وستم کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہے گا۔
پاکستان ،قوانین کے حوالے سے قطعی بنجر نہیں بلکہ اس ملک میں  تمام تر جرائم سے متعلق قوانین  موجود ہیں  مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ان قوانین کو اشرافیہ اپنے  اشارہ ابرو سے متحرک دیکھنا چاہتی ہے اور گزشتہ70 برسوں سے یہ قوانین ریاست پاکستان کے مفادات کے خلاف اور اس ملک کی غریب عوام کے  خلاف انتہائی بے رحمانہ طریقے سے  بروئے کار آئے ہیں۔ اس وقت بھی احتساب عدالتوں کے قوانین ملک میں مساویانہ طور پر لاگو نہیں،جو براہ راست چھوٹے صوبوں میں  نفرت کو جنم دے رہیں ہیں،نئے  چیئر مین ادارہ احتساب سے امید ہی کی جا سکتی ہے کہ  وہ اس تفریق کو ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار جلد ادا کریں گے۔ زیر تفتیش اشرافیہ کی حب الوطنی اس امر سے واضح ہے کہ ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر وہ ملکی  اداروں کو نہ صرف بدنام کر رہے ہیں بلکہ عوام کو گمراہ کن پراپیگنڈے کا شکار بنا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ان کے جرائم کی تفتیش نہیں بلکہ اداروں کی   بالا دستی کا تعین ہے کہ ماضی میں  افواج پاکستان  براہ راست ملکی  سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہیں اور سویلینز کو ’’بلڈی سویلینز‘‘ کہہ کر پکارتی رہی ہیں(جو یقیناً  نہ صرف  نا قابل  برداشت بلکہ  انتہائی غیر موزوں ہے)جبکہ آج میاں نوازشریف پاکستان کے اس ادارے کو اس کے  دائرہ کار میں لانے کی  جدوجہد کر رہے ہیں۔ در حقیقت یہ  بیانیہ عوام کے اس حصے کو متاثر کررہا ہے  جو  واقعتا جمہوریت سے محبت کرتے ہیں اور جمہوریت کو  ہی مسائل کا حل سمجھتے  ہیں  مگر بد قسمتی سے اس وقت جاری جدوجہد کا دور دور تک بحالی جمہوریت یا جمہوریت کی بالا دستی سے کوئی تعلق نہیں،اس کا مقصد صرف اور صرف  اداروں پر دباؤ بڑھانا ہے،جو کسی  حد تک نظر آ رہا ہے۔پاکستان دشمنوں کی خواہشات کو   مد نظر رکھیں  اور اس وقت میاں نواز شریف اور ان کے  خاندان کے  علاوہ دیگر ہم خیال  جماعتوں کا بیانیہ سامنے رکھیں تو اس روش کے نتیجے میں  ریاست پاکستان کے اداروں کو  مزید کمزور کرنا ہی ایک  واحد قدر مشترک نظر آتی ہے۔ نہ جانے اس روش سے پاکستان کے کرپٹ سیاستدان کس کے  ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں؟افواج پاکستان و عدالتیں اس وقت انتہائی دباؤ کا  شکار نظر آ رہی ہیں کہ انہیں مجوزہ  قوانین کے  مطابق بروئے کار آنے میں شدید  مشکلات کا سامنا ہے ،سپہ سالار پاکستان کے  ان حالات میں خاموش رہنے کی ایک  وجہ تو ’’مذاق جمہوریت‘‘ ہی ہے کہ اس نے ہاتھ باندھ رکھے ہیں  تو دوسری طرف اندرونی و بیرونی خطرات ہیں جبکہ عدالتیں بظاہر بھٹو جیسا کوئی اور فیصلہ نہیں  دینا چاہتی۔  ان حالات میں ملزمان کی  توپوں کا رخ مسلسل اداروں ، عوام کو  بر انگیخت کرنے اورافواہوں کے مختلف بازار گرم رکھنے پر مرکوز ہے لیکن ان تمام تر منفی حربوں کے باوجود کسی بھی غیر آئینی اقدام کی حمایت کسی  صورت بھی ممکن نہیں۔ملزمان کو مجرمان ثابت  ہونے پر قرار واقعی  سزا دی جائے ،لوٹی ہوئی دولت  واپس لائی جائے، عبوری سیٹ اپ سے گریز کیا جائے اور بروقت   صفاف  و  شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں