وسعت اللہ خان
اسکول کے باہر ٹھیلے پر ایک بڑا سا جستی دیگچہ دھرا رہتاجس میں بھرے لال شربت میں برف کے ٹکڑے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔ان برفیلے ٹکڑوں کے بیچ تخمِِِِِِ ِ ملنگ نامی چھوٹے چھوٹے سیاہ بیج مچھلی کے نوزائدہ بچوں کی طرح شربت میں تیرتے رہتے۔ اتنے ملائم کہ دانتوں تلے پھسل پھسل جائیں۔مگر ایک آنے کا یہ گلاس بھر شربت تپتی دو پہر میں معدے کو ایرکنڈیشنڈ کر دیتا۔
تخمِ ملنگ والے کی بغل میں فالودے والا ایک یخ مٹکے میں دھرے چھوٹے چھوٹے دھاتی سانچے نکالتا اور ان کے اوپر منڈھے ربڑ کو اتارکر تام چینی کے پیالے میں پڑک سے قلفی ٹپکا دیتا۔پھر چوبی رندے پر برف کا بڑا سا ٹکڑا کھڑچ کھڑچ کرکے برفیلا چورا پیالے میں ڈالتا اور چوبی کھانچوں میں پھنسی سبز ، پیلی اور سرخ بوتلوں میں بند گاڑھے شربت کو پیالے پر چھڑکتا اور مٹی کی چاٹی میں سے فالودے کے بڑے بڑے مرمریں لچھے نکال کے پیالہ لبالب کردیتا۔جوں ہی ٹھنڈا فالودہ گرم تالو سے لگتا۔ سورہِ رحمان کے معنی جھٹ سے پلے پڑ جاتے جنہیں سمجھانے کے لئے دینیات کے ماسٹر عنایت حسین نے ڈنڈہ اور بچوں کی چمڑی ایک کر رکھی تھی۔’’ اور تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ’’۔
جو بچے چونی کا یہ فالودی پیالا افورڈ نہیں کرسکتے تھے وہ رندے پر برف کوچوا کر گولہ گنڈا بنوا لیتے۔ٹھیلے والے کے پاس ڈیزائنر گولہ بنانے کے3 جستی سانچے تھے۔ان میں برف کا چورا ٹھونس ، بیچ میں سرکنڈے کا کانہ کھوب کے پھول ، گنبد یا دل کی شکل کا گنڈا سانچے سے باہر نکال کر اس پے گاڑھا ترنگا شربت چھڑکا جاتا تو بچوں کی ندیدی باچھیں کھلتی ہی چلی جاتیں اور وہ دیر تلک 3 پیسے کے اس رنگین برفیلے طلسم میں کھوئے رہتے۔
فالودے والے کے برابر میں کھوئے والی قلفی کی تین پہیوں والی ریڑھی جمی ہوتی۔اس پرایک تین فٹ اونچی موٹی جستی قلفی کا سفید ماڈل اور آزو بازو چھ آٹھ چوبی قلفیاں نصب ہوتیں۔بڑی دو آنے کی اور چھوٹی قلفی آنے کی۔قلفی پر ابھرے دودھیا دانوں سے بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ قلفی میں اصلی کھوئے کی مقدار کتنی ہے اور دودھ کی کتنی۔
قلفی والے کے بالمقابل ایک شخص تیز دھوپ سے بچنے کے لئے چوخانہ صافہ سر پر منڈھے دو ٹانگوں والے فولڈنگ چوبی اسٹینڈ پر ایک پرات رکھ کے ڈنڈے سے بندھا کپڑا جھلتا رہتا۔ پرات کے نصف حصے پر لال املی والے گیلے چورن کی پہاڑی چاندی کے اوراق سے ڈھنپی ہوتی۔3 پیسے میں خریدا گیا کھٹا میٹھا چٹخاری چورن زبان لال کرنے کے لئے بہت ہوتا۔
چورن والے سے قدرے فاصلے پر نکڑ میں ایک صاحب ایک ہاتھ سے پیتل کی چھوٹی سی گھنٹی بجاتے رہتے اور دوسرے ہاتھ سے بانس تھامے رہتے جس پر چیونگم کی شوخ ترنگی پٹیاں لپٹی ہوتیں۔برابر میں دھرے ا سٹول پر گھی کے استعمال شدہ ڈبے میں بھری سرکنڈوں کی موٹی تیلیوں میں سے ایک عندالطلب نکالی جاتی اور ترنگی پٹی میں سے تھوڑی سی چیونگم توڑ کے اس کا مرغا ، طوطا یا پھول بنا کر تیلی میں اٹکا کے پیش کیا جاتا۔ بچے سے پانچ پیسے لیتے وقت چیونگم صاحب مسکراتے ہوئے کہتے اینجوائے یور سویٹ مائی سن۔
اسکول کی چھٹی کے10،15 منٹ بعد یہ چٹپٹا میٹھا بازار اگلی صبح تک غائب ہوجاتا۔بچے گھروں کو لوٹ جاتے ، کھانا کھاتے ، قیلولہ فرماتے اور پھر شام کے ڈھلتے سایوں تلے فٹ بال گراؤنڈ کے اندر باہر ایک نئی دنیا ابھرتی۔
2 ٹھیلے ٹھیک4بجے کہیں سے نمودار ہو کے گراؤ نڈ کے سرہانے کھڑے ہوجاتے۔دونوں ٹھیلوں پر برف کا ایک ایک بڑا بلوریں بلاک دھرا ہوتا۔ بلاک کو اندر سے کھوکھلا کر کے اس میں موسم کے مطابق کبھی کٹے تربوز یا آم کی موٹی موٹی قاشیں تو کبھی مالٹے ، موسم بی وغیرہ بھری ہوتیں۔برف کے بلاکوں کے اندر سے جھانکتے پھلوں کا یخ منظر للچانے کے لئے اتنا کافی ہوتا کہ ان ٹھیلے والوں کو خریدار جمع کرنے کے لئے کبھی کسی نے آواز لگاتے نہیں دیکھا۔
سبز مٹھوں کے موسم میں ایک تیسرا برفیلا ٹھیلا بھی گراؤنڈ سے متصل چوک میں آن کھڑا ہوتا۔مگر مٹھوں کو کٹوانے کے فوراً بعد چوسنا پڑتا ورنہ ان میں کڑواہٹ پیدا ہونے لگتی۔انسدادِ کڑواہٹ کے لئے مٹھے کے ہر ٹکڑے پر کالی مرچ کا چھڑکاؤ گاہک خود ہی کر لیتا۔ ( مٹھے کا ترجمہ ممکن نہیں۔بس مالٹے کا دورپار کا ہریالا کزن سمجھ لیں جو سال میں چند دنوں کے لئے جھلک دکھلاتا ہے )۔
فلمی ڈھولچی
سینما پر آنے والی نئی فلم کی مارکیٹنگ کا ایک ہی طریقہ تھا۔ بڑے سے چوبی فریم پر منڈھے کورے لٹھے کے کینوس پر رنگین فلمی پوسٹر چپکایا جاتا۔کینوس کے چاروں طرف رنگ برنگی جھلمل پنیاں لٹکائی جاتیں اور پھر یہ ہورڈنگ بانس پر ٹھونک کے سینما کے ڈھنڈورچی ڈھول گلے میں ڈال چھنکنابجاتے گلیوں بازاروں میں نکل پڑتے اور کورس میں نعرے مارتے۔پہلا شو تن وجے ، دوجا شو چھ وجے ، کیہڑی فلم چن مکھنا۔۔۔ڈن ڈن ڈن ڈن ڈن ڈنا ڈن چھو چھو چھو چھو چھوا چھو۔۔۔۔
عید تہوار کے موقع پر جب قصبے کے تینوں سینماؤں کے مابین کاروباری رقابت شدت اختیار کر جاتی تو متحاربڈھنڈورچی تانگے پر سوار ہو جاتے۔تانگے کے دائیں بائیں رسیلے فلمی ہورڈنگ ایستادہ ہوتے۔تانگے کی اگلی نشست پر ڈھولچی صاحب اور چھنکنا نواز اور عقبی نشست پر جستی بھونپو والا اعلانچی بیٹھتا اور پھر یہ بصری صوتی اشتہاری تانگہ شہر بھر میں دوڑتا پھرتا۔
سریلے ملنگ
یہ2 ملنگ عموماً بعد از عشاء نمودار ہوتے۔نابینا ملنگ ایک ہاتھ بینا ملنگ کے کندھے پر دھرے رہتا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈہ وقفے وقفے سے زمین پے مارتا چلتا۔قطاری انداز میں رواں یہ سریلا جوڑا ہر گلی کے نکڑ پر2،3 منٹ رک کر نعت ، حمد یا منقبت کا کوئی بند کورس میں گاتا اور آگے بڑھ جاتا۔آواز دردیلی اور طرز ایسی سریلی کہ تقریباً ہر گھر کا پٹ کھلتا اور کوئی نہ کوئی بچہ نابینا ملنگ کے ہاتھ میں سکہ خاموشی سے دھر کے پٹ بند کرلیتا۔ملنگوں کی جوڑی اپنا نغمگی کرب پیچھے چھوڑ جاتی جو اگر بتی کے دھوئیں کی طرح دھیرے دھیرے معدوم ہوتا جاتا۔