سعودی اخبارات میں شائع ہونے والے کالم پر ایک نظرجس میں ایک قلمکار نے نئے سعودی عرب کے حوالے سے اپنا کالم تحریر کیا تو دوسرے نے برطانیہ کا ضمیر کب جاگے گا پر اپنے کالم میں اس حوالے سے باتیں کہی ہیں۔
نیا سعودی عرب
ابراہیم محمد باداﺅد۔ المدینہ
سعودی عرب میں ”ان دنوں جو کچھ ہوا ہے پہلے کبھی نہیںہوا“۔یہ جملہ اکثرو بیشتر لوگوں سے سنا جارہا ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت انسداد بدعنوانی کمیٹی کیا قائم کی کہ پورے معاشرے میں ہر سطح پر ہلچل نظر آنے لگی۔ ہر کس و ناقص کی زبان پر یہی جملہ ہے کہ ان دنوں جو کچھ ہورہاہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
بدعنوانی کے منفی اثرات صرف اقتصادی شعبوں تک ہی محدود نہیں بلکہ سیاسی، سماجی گوشوں اور امن و امان کے دنیا بھی ا ن سے متاثر ہورہی ہے۔
شاہی فرمان ایک طرح سے ہر طرح کی بدعنوانی کےخلاف اعلان جنگ کے مترادف ثابت ہوا۔ اس اعلان کی بدولت مقامی و بین الاقوامی سرمایہ کاری کے روشندان کھل گئے۔ ہر شخص کو یقین ہوگیا کہ کوئی بھی قانون کی گرفت سے بالا نہیں۔ رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور استحصال کی سعودی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔
سعودی وژن 2030 کے اعلان کے بعد سے مملکت میں اصلاحات کا عمل رواں دواں شکل میں جاری و ساری ہے۔ اسکا دائرہ اقتصادی امور تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے میں اصلاحات ہورہی ہیں۔ ایوان شاہی کے مشیر اور ابلاغی امورو مطالعات مرکز کے نگراں سعود القحطانی نے بجا طور پریہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ نیا سعودی عرب ہے۔ ہر ایک کو معلوم ہوگیا ہے کہ وہ کیا ہے، کتنا ہے۔ اس پر سلمان اور ابن سلمان کا شکریہ۔
نئے فیصلوں سے معاشرے کے بعض لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ بنیاد یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے ایسی ہستیوں کے نام گرفتار شدگان میں جاری کئے ہیں جن کا رعب و دبدبہ تھا۔ کوئی شخص توقع نہیں کرسکتا تھا کہ ریاستی ادارے انکا بھی رخ کرسکیں گے تاہم اقتصادی و ترقیاتی امور کونسل نے اپنے نئے اجلاس کے موقع پر واضح پیغام دیدیا کہ سعودی حکومت افراد، نجی اداروں، قومی کمپنیوں ، کثیر قومیتی کمپنیوں ، ملک اور اسکے باہر موجود ادارو ںکے تحفظ کی پابند تھی، ہے اوررہیگی۔سعودی کابینہ نے کمپنیوں کو اپنی کارکردگی جاری رکھنے کے ضامن احکام بھی جاری کردیئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
برطانیہ کا ضمیر کب جاگے گا
عاصم حمدان ۔ المدینہ
برطانوی وزیراعظم کے اس فیصلے سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ انکا ملک آرتھر بالفور(وعد بالفور) کے وعدے کا صد سالہ جشن منائیگا۔ موجودہ برطانوی وزیراعظم آنجہانی ماگریٹ تھیچر کے نقش قدم پر چل رہی ہیں جو یہودی مذہب سے انتہا درجے متاثر تھیں۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات میں تحریر کیا کہ یہودی مت ایسا مذہب ہے کہ کسی بےروزگار اور گداگر کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ مذہب فرد کی حیثیت اور شایان شان طریقے سے اپنی محنت پر انحصار سکھاتا ہے۔یہودی مت کی فکر سرمایہ دارانہ نظام سے مطابقت رکھتی ہے۔
وعد بالفور کی شروعات سے قبل صہیونی تحریک نے صہیونی یہودی سرگرم شخصیت وائز مان کو باقاعدہ طور پر تیار کیاتھا۔ وہ اُن دنوں مانچسٹر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ تعلیم میں ممتاز تھے۔ یونیورسٹی نے وائز مان کے اعزاز کا اہتمام کیا جس پر وائز مان نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کو قومی وطن فراہم کرے۔ وائزمان ہی وعدبالفور کا باعث بنے تھے۔وعد بالفور کا محرک مغربی صحافت بھی بنی تھی۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ وعد بالفور کو عملی جامہ پہنانے سے فلسطینی عوام اپنے آباﺅ اجداد کے وطن سے محروم ہوئے اور انکی کئی نسلیں برطانوی اقدام کے باعث جبر و تشدد کی چکی میں پس رہی ہیں۔ پتہ نہیں برطانیہ کا ضمیر کب جاگے گا؟
٭٭٭٭٭٭