Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’میں اگر راہ پر نہیں آتا ::کوئی الزام سر نہیں آتا‘‘

 کوثر مظہری۔جامعہ ملیہ اسلامیہ ۔نئی دہلی
شعری اظہار کے لئے جس طرح کی مشق ومزاولت کی ضرورت ہوتی ہے ،افروز عالم اس سے بے بہرہ نہیں ۔’’الفاظ کے سائے‘‘ سے گزرتے ہوئے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہو ںنے اس دنیا کو کھلی آنکھوں سے بھی دیکھاہے اور خواب آگیں چشم بصیرت سے بھی۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے التزامات اور نتائج مختلف ہوتے ہیں جو تخلیقی تنوعات کو فروغ بخشنے کا کام کرتے ہیں۔ 
وقت کی ستم ظریفی اور گردش ایام کو اکثر شاعر نے پیش کیا ہے۔ یہ موضوع افروز کی غزلوں میں بھی آیا ہے لیکن بڑی آہستگی اور نسیم سحری کی طرح۔ در اصل فنکار جب مسائل زندگی اور مصائب روزگار سے پوری طرح نبرد آزمائی کا حوصلہ رکھتا ہے تو طرز اظہار کچھ ایسا ہی ہوتا ہے:
میں آندھیوں کے تسلسل کو روک لوں پہلے
مزاج گردش دوراں کو بھی ہنسا دوں گا 
٭٭٭
یوں بھی صحرا کو گلستاں میں بدلنے کیلئے 
ہم خزائوں میں پنپنے کا ہنر رکھتے ہیں
٭٭٭
ہوگئے قرباں سر مقتل ،مگر ہیں سر بلند
سر ہمارا تھا سر نیزہ سجانے کے لئے 
تیسرے شعر میں’’ سر مقتل ،سر بلند، سر نیزہ اور سر ہمارا ‘‘ایک عجب سا کرب کا دائرہ کھینچتا ہے۔ اس مہیب فضا بندی میں شاعر نے جس حوصلے سے سر بلندی کی بات کی ہے، اس سے ایک تلمیح کا رنگ پیدا ہوتا ہے  اور ایک با حوصلہ اور سچا کردار خلق ہوتا ہے۔ یہاں مجھے صدیقی مجیبی کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ :
اپنا سر کاٹ کے نیزے پہ اٹھائے رکھا
 صرف یہ ضد کہ مرا سر ہے تو اونچا ہوگا 
اردو غزل کے حوالے سے اسلوب غزل کی بات بھی کی جاتی رہی ہے۔ اگر آنکھیں بند کرکے غور کریں تو پوری اردو شاعری میں طرز اظہار یا موضوعات کی بنا پر جو اسالیب سامنے آئے ہیں وہ محدود ہیں۔ ولی ،میر ،غالب اقبال اور بس۔ آپ ان کے علاوہ جو نام بھی لیں گے ان کی حیثیت سلطنت شعر کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں یا قصبات سے زیادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف زمانے میں شعراء نے مختلف اصناف میں اپنی شناختیں قائم کیں۔ میں یہ باتیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ افروز عالم کسی شعری سلطنت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اس دور انحطاط میں اچھی رعایا کا فرض نبھانا بھی غنیمت ہے۔
افروز عالم کی شاعری پڑھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے لہجے میں ایک طرح کی نرمی اور تازگی ہے۔ در اصل انہوں نے دنیا اور زندگی کے حقائق کو سمجھنے اور ان کی پیش کش میں خالص تخلیقی ہنر مندی سے کام لیا ہے۔ جمالیاتی نوع کے موضوعات ہوں یا اختلاقیات اور فلسفۂ حیات سے متعلق موضوعات، ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کی پیش کش میں بہت زیادہ پیچیدگی یااہمال کی صورت پیدا نہ ہو حالانکہ ایسے میں لہجے کے سپاٹ پن میں ڈھل جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ ایسی مثالیں کہیں کہیں مل جاتی ہیں جن سے ان کی راست بیانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی اس تخلیقی کاوش میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھئے:
ہر طرف عام ہے بدنام سیاست کا چلن
صبر سے کام لو جذبات پہ قابو رکھو
٭٭٭
دل کی بستی ہے مری شہر خموشاں جیسی
اب تو تنہائی میں تہوار گزر جاتا ہے
٭٭٭
ان کی مسکان سے ملتا ہے بہاروں کا پتہ 
وہ تو موسم کو بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں
عالم کی شعری امانت میں لفظ ’’خوشبو‘‘ بھی تلازمے کے طور پر بار بار آیاہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے۔جمالیاتی قدروں میں حسّی پیکروں کے حوالے سے خوشبو یا حرارت کا ذکر اکثر ہوتا رہتا ہے۔ قوت شامہ کو یہ خوشبو کس طرح مہمیز کرتی ہے، عالم کے شعروں میں دیکھا جاسکتا ہے:
میری سانسوں میں ترے جسم کی خوشبو ہے بسی
دل میں جو شور مچاتی ہے سدا رات گئے
٭٭٭
ان سحر خیز مزاجوں کا بیاں یاد کرو
جن کی خوشبو سے معطر ہے مکاں یاد کرو
٭٭٭
میرے احساس میں خوشبو سی بسی جاتی ہے
دشت وصحرا مجھے گلزار نظر آتے ہیں
اس نوع کے اور بھی اشعار ہیں۔ ایک پوری غزل ہے جس کی رد یف’ ’مہک‘‘ ہے۔
کہتے ہیں شاعری میں ’’سہل ممتنع‘‘ کو برتنا ایک مشکل فن ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فن بہت زیادہ مشق سخن اور تخلیقی آنچ میں تپنے کے بعد آتا ہے لیکن اس کے امکانات کبھی بھی نظر آسکتے ہیں۔ عالم کے یہ شعر دیکھئے جو بظاہر ہلکے پھلکے نظر آتے ہیں لیکن ان میں معنوی گہرائی موجود ہے:
میں ترے آس پاس رہتا ہوں
اس لئے بد حواس رہتا ہوں
آج سوچا ہے غور سے میں نے 
بے سبب میں اداس رہتا ہوں 
٭٭٭
میں اگر راہ پر نہیں آتا 
کوئی الزام سر نہیں آتا
عشق اور حسن کے پر تو سے غزل کو رنگ و آہنگ ملتا رہا ہے۔ یہ ڈگر بہت آسان بھی نہیں۔ نجی ارمان پسندی اور سطحی جمال پرستی سے غزل میں پھوہڑ پن کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک زمانہ دبستان لکھنؤ کا تھا جب چوڑی ، بندی ،لہنگا اور حسن کے خارجی لوازمات پر پوری قوت تخلیق صرف کی جاتی تھی۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا لیکن چونکہ جمالیاتی احساس اور بد نیت کے انسلاکات سے اب بھی غزل گو شعرا ء کا سروکار قائم ہے اس لئے اس خارجی ظواہر حسن کے نقوش نئی نسل کے شعرا میں بھی نظر آتے ہیں۔ حسن وعشق سے شاعر کے جذبات جس طرح متاثر ہوتے ہیں اس کا اظہار اس کی شاعری میں ہوکر رہتا ہے۔ اب یہ شاعر کے ظرف اور قوت تخلیق پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کی پیش کش میں کیا ہنر مندی دکھاتا ہے۔ اس نوع کے کچھ اشعار عالم کے بھی ملاحظہ کیجئے :
وہ میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلے
ہر ایک موڑ کو اک گلستاں بنا کے چلے
٭٭٭
یہ عشق کی ہے کون سی منزل کہ یہاں پر 
سب حوصلہ وجاہ وحشم ٹوٹ رہے ہیں
٭٭٭
گلہ میں کیسے کروں اس کی بے وفائی کا 
بکھر گیا جو مرے گھر میں چاندنی کی طرح
٭٭٭
ہر چند وہ مصروف بہت رہتا ہے لیکن
 میں جانتا ہوں مجھ کو وہ بھولا بھی نہیں ہے
افروز عالم نے اپنی شعری کائنات میںجہاں شادکامیوں کو جگہ دی ہے وہیں تلخیٔ حیات کو بھی سجایا سنوارا ہے، جہاں انہوںنے خارجی لوازم حسن کا ذکر کیا ہے وہیں داخلی کرب کو بھی شعری پیکر عطاکیا ہے۔ ان کی غزلوں میں سرشاریٔ حیات کے ساتھ ساتھ محرومی جذبات کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ آدمی کی فکر پر اس کا ماحول اور اس میں بیشتر کا متن حاوی رہتا ہے۔ متن سے متن وضع کرنے کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہا ہے۔ آپ افروز عالم کی غزلوں میں فراق، جگر اور کلیم عاجز جیسے شعرا کی حسن وعشق اور خالص جذبہ انسانی سے لبریز شاعری کا عکس لطیف دیکھ سکتے ہیں البتہ اتنی گزارش کی جاسکتی ہے کہ الفاظ وتراکیب کی حدت اور ان کے درو بست پر مزید غور وفکر کریں کہ اظہار محبت اور وہ بھی شاعری میں یوں سمجھئے کہ مرحلہ نازک ہے۔ افروز عالم کے لئے اپنی بات جگر کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں کہ :
کہاں کا حسن کہ خود عشق کو خبر نہ ہوئی
رہ طلب میں کچھ ایسے بھی امتحان گزرے
 
 

شیئر: