چین ہمارا پڑوسی ۔ ہمارا سب سے بڑا خیر خواہ ، ہمارے ہر بُرے وقت میںہمیشہ ساتھ دینے والاملک مگر افسوس ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا ۔ اُس نے 50سال میں اتنی ترقی کر لی جتنی امریکہ نے 250سالوں میں بھی نہیں کی اور آج امریکہ چینی مال کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے ۔ راقم کا سب سے پہلے 1967ء میں چین جانے کا اتفاق ہوا ۔ اُس زمانے میں چین کیلئے صرف پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز کو اترنے کی اجازت تھی کیونکہ چین کے نجات دہندہ ماؤزے تنگ اور ان کی پارٹی دنیا کی واحد کمیونسٹ نظام کی حامی تھی جس کی رو سے تمام ملکیت ، قوم کی امانت ہوتی ہے اور کوئی بھی چیز ذاتی نہیں ہوتی۔ یہ نظام ہماری آزادی سے 2سال بعد اس وقت کے بادشاہ چنک کائی شنک سے عوام کے طویل جدو جہد اور مارچ کے بعد ماؤزے تنگ نے حاصل کیا تھا اور بادشاہی نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر کے کمیونزم کی بنیاد رکھی تھی ۔ یاد رہے اس زمانے میں چینی قوم افیمی او ر کام چور کہلاتی تھی ۔ تمام ذاتی چیزیں ، عمارتیں ، ہوٹل حتیٰ کہ گھر ، کاروبار ، گاڑیاں سب کو قومیا لیا گیاتھا۔ پوری قوم کو کام پر لگا دیا گیا ۔تھا اس سے پہلے تمام پرند ، چرند ، جانور کھا لئے گئے تھے تاکہ ایک دانہ بھی اناج کا ضائع نہ ہو بلکہ خود عوام تمام کیڑے مکوڑے سمیت ہر چیز کھا کر ختم کر دیں اور آج بھی کوئی پرندہ یا زمینی کتے ، بلیاں ، چوہے کوئی بھی نظر نہیں آتا۔ اُس زمانے میں صرف سرکاری بسیں ، بجلی سے چلنے والی شہر میں ٹرینیں یا دور دراز جانے کیلئے ریلوے ٹرینیں ہوتی تھیں ۔ ذاتی استعمال کیلئے صرف سائیکلیں ہوتی تھیں جو عام آدمی سے لے کر وزراء ، سفراء سب کیلئے یکساں سہولتیں ہوتی تھیں ۔ سادہ لباس ہوتا تھا اور ایک ہی قسم کا معمولی کپڑوں کا ۔ پوری قوم ڈٹ کر کام کرتی اور اچھی اچھی اشیاء غیر ممالک ایکسپورٹ کر دی جاتیں اور خوب غیر ملکی کرنسی اس ملک کو ترقی کی منازل طے کراتی رہیں ۔
چینی قوم اس زمانے میں صرف امریکہ سے تعلقات نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی امریکی ڈالر میں لین دین ہوتا تھا ۔ اگر میں کہوں کہ وہ امریکہ سے نفرت کرتے تھے تو یہ بھی غلط نہیں ہوگا۔ پھر پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے دور میں چین اور امریکہ کی دوستی کروائی اور اس طرح چین اور امریکہ کی دشمنی بظاہر ختم ہو گئی اور دونوں ممالک نے آپس میں تجارت شروع کر دی ،پھر آہستہ آہستہ چین میں ثقافتی انقلاب آتے گئے ۔ حکومتیں آہستہ آہستہ دیگر ممالک کی طرح کمیونزم سے امپریل ازم یعنی سرکاری اور ذاتی نظام کی طرف چل پڑیں، پھر ہانگ کانگ جو 100سال کے پٹے پر برطانیہ نے لیا تھا، واپس چین کو مل گیا ۔ پھر کیا تھا عوام نے دل کھول کر صنعتیں لگائیں اور ترقی کرتے کرتے زمین سے آسمان تک چائنہ کو پہنچا دیا ۔اس میں ان کے حکمرانوں کا کلیدی کردار تھا۔ خود پی آئی اے نے چائنا ایئر لائن کو بنایا ۔اُس زمانے میں پاکستان میں سب کچھ بنتا تھا اور چین میں صرف نقالی ہوتی تھی ۔ ہم نے آج سب کچھ گنوا دیا اور چینی حکمرانوں اور عوام نے اُس کو ایک ناقابل شکست ملک کے طورپر اُبھار دیا۔ اب وہ امریکہ کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات منواتا ہے اور ان 50 سالوں میں راقم کا کئی بار تجارتی معاملات کے سلسلے میں چین جانے کا اتفاق ہوا۔ جس بڑے شہر میں صرف 2چار ہوٹل ہوتے تھے، آج کئی سو ہوٹل بن چکے ہیں ۔ معمولی ایئر پورٹ اب میلوں میں پھیلے ہوئے کئی ٹرمنلزمیں تبدیل ہو چکے ہیں ، صنعتی علاقے تو اب چپے چپے میں پھیل چکے ہیں۔ کونسی چیز ہے جو چین میں نہیں بنتی ۔ اب تو پوری دنیا کے مشہور مشہور برانڈ چین میں بنتے ہیں اور اب وہاں سے بنوا کر پوری دنیا میں سپلائی کئے جاتے ہیں۔ حکومت نے صنعتی ترقی کیلئے بجلی، گیس اور زمینیں سستے داموں میں سبسڈی کے طور پر دیں تاکہ وہ پوری دنیا سے مقابلہ کرسکیں ۔ شروع شروع میں تو مالی وسائل بھی حکومت کے ذمہ تھے ۔ یہ ترقی دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کاش ہمارے حکمران بھی چینیوں سے سبق سیکھیں مگر ہم اُسکے برعکس اپنی عیاشیوں اور کرپشنزمیں ملوث رہے اور ایشین ٹائیگر بننے کے بجائے ایشین چوہے بھی نہ بن سکے ۔ یاد رہے چین میں کسی بھی قسم کی کرپشن پر سزائے موت کی سزا ہے جو منشیات ہی کی طرح سمجھی جاتی ہے ۔ اگر آج آ پ چین جائیں تو نہ صرف حیران ہونگے بلکہ پریشان ہو جائینگے کہ 50سال میں یہ افیمی قوم آج دنیا کی سب سے عظیم قوم بن چکی ہے ۔ ان کی اچھی باتوں میں جلدی سونا، جلدی اٹھنا ، ہلکی پھلکی غذا ، صبح 7بجے ناشتہ ، 12بجے دوپہر کا کھانا اور شام 6بجے تک وہ آخری کھانا کھا کر رات 9بجے تک سو جاتے ہیں ۔ وہ سارا دن نیم گرم پانی میں سبز یا کالی چائے بغیر دودھ پیتے رہتے ہیں۔ ٹھنڈے پانی کا وہاں کوئی رواج نہیں، اسی وجہ سے بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ان کے بال بڑھاپے تک سروں پر رہتے ہیں ۔ 50ساٹھ سال تک معمولی بات ہے، کالے ہی رہتے ہیں۔ لمبی لمبی عمریں،100سو سال تک کے بوڑھے سڑکوں پر آج بھی پیدل چلتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی دور پھر کمیونزم اور اب دوبارہ امپریل ازم تینوں ادوار دیکھے ہیں ۔
چینی لوگ اپنے بزرگوں کا آج بھی احترام کرتے ہیں۔ مغربی ممالک کی طرح انہیں اولڈ ہاؤس میں نہیں بھیجتے اگر خود بڑے شہروں میں کاروبار یا نوکریاں کرتے ہیں تو گاؤں میں اپنے گھر والوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی سالانہ چھٹیاں جنوری سے فروری تک ایک ساتھ ہوتی ہیں جو وہ اپنے اپنے آبائی شہروں میں جاکر مناتے ہیں ۔ اس دوران اکثر صنعتیں بند ہو جاتی ہیں ۔ ریلوے اور ہوائی جہاز کا زبردست نظام ہر شہر اور ہر قصبے کیلئے موجود ہے ۔ وقت پر ٹرینیں چلتی ہیں ، بسوں کا بھی نظام بہت اچھا ہے ۔ آج چین کا ہر شہری ان سہولتوں کی وجہ سے حکمرانوں سے خوش ہے ، تعلیم اور ہسپتال کی سہولتیں عوام کیلئے مفت مہیا کی جاتی ہیں ۔ اسی وجہ سے 100فیصد چینی زبان پر سب کو عبور حاصل ہے البتہ انگریزی زبان سے بہت بڑی اکثریت نا بلد ہے ۔ اس وجہ سے سیاحوں کو زبان کے معاملے میں بہت دشواری پیش آتی ہے البتہ اب نئے نظام میں انگریزی زبان کو شامل کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے نئی نسل انگریزی میں بآسانی گفتگو کر سکتی ہے ۔ لاکھوں نئی نسل کے بچے غیر ممالک میں بھی جا کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ کاش ہمارے حکمران بھی چین کی طرح پاکستانی عوام کیلئے کچھ کریں ۔چین نے سی پیک کے ذریعے پاکستان کو ایک نادر موقع فراہم کیا ہے ۔ہمارے دشمنوں کو یہ منصوبہ بُری طرح کھٹک رہا ہے ۔میری تمام پاکستانی سیاستدانوں ،تمام پارٹیوں کے لیڈاران ،دانشوروں سے گزارش ہے کہ خدارا اس منصوبے کیلئے سب مل کر ایک ہوجائیں اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں تاکہ پاکستانی عوام خوشحال ہوسکے ۔ اور یہ کوئی ناممکن نہیں کیونکہ ہماری قوم بھی بہت محنتی ہے مگر اصلی رہبر سے محروم ہے۔