شاعر نے کیا خوب کہا تھاکہ مرض بڑھتا ہی گیا جوںجوں دوا کی۔ ایسا ہی کچھ اس وقت میاں نواز شریف اور مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ میاں صاحب کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ انہیں 3 مرتبہ کیوں نکالا گیا تھا۔ پھر چوتھی مرتبہ بھی ان کے ساتھ وہی معاملہ ہوامگر اب کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکالاگیا، پھر بھی انہوں نے نہ اس سے سبق سیکھا نہ اپنے اردگرد رہنے والے خوشامدیوںاور غلط مشورے دینے والوں کا محاسبہ کرنے کاسوچا،بلکہ الٹا پنگے اور بڑھا دیئے گئے۔
میاں صاحب کتنے ہی محاذوں پر یلغار کر رہے ہیںعقل حیران ہے۔ پہلے عدلیہ سے بھڑے پھر فوج کیخلاف بھڑاس خود بھی نکالی اور پھر وزراء سے بھی بھری اسمبلی میں دھواں دھار تقریریں کر وا کر ڈسک اور تالیاں بجوائیں۔
محاذ آرائی سے بچتے ہی یکایک اپنے وزراء اور خوشامدی ٹولے کو پہلے بلاول بھٹو زرداری سے بھڑوادیا اور پھر رہی سہی کثر خود سابق صدر آصف علی زرداری کو للکار کر پوری کردی جس سے بدنامی کے ساتھ ساتھ سیاسی ساکھ بھی متاثر ہوگئی۔ اکثر یت کے بل بوتے پر تو نااہلی کا داغ نہ مٹاسکے مگر پارٹی کی صدارت کا قانون پاس کرواکر عدلیہ سے ماضی کی طرح دو دو ہاتھ کرنے کی پھر ٹھان لی اور یہ بھول گئے کہ ابھی نیب اور حدیبیہ ملز کے معاملے عدلیہ کے دائرہ کا رمیں ہیں جو خطرناک حدوں کو چھورہے ہیں روز موصوف خود تو عدلیہ پر وار کرکے مظلوم ثابت کرنے پر تلے تھے،اپنی صاحبزادی مریم صفدر کو بھی عدلیہ کے خلاف لگادیا۔
وقفہ وقفہ سے آنے والے طاہر القادری سے بھی محاذآرائی ختم نہیں کی تھی کہ پھر ختم نبوت کیخلاف عجلت میں قومی اسمبلی سے قانون پاس کرواکر اپنی قبر خود کھود ڈالی ۔جب حزب مخالف اور عوام کا دبائو پڑا تووزیر قانون زاہد حامد کا دفاع کرتے ہوئے قانون میں ترمیم کروادی ۔ جب کسی کو بھی سزا نہیں ملی تو تحر یک لبیک یا رسول اللہؐ والے جو روز اول سے ممتاز قادری کو تختہ دار پر چڑھانے پر غصہ سے بھر ے بیٹھے تھے اُٹھ کھڑے ہوئے اور عمران خان کے دھرنے سے بھی زیادہ موثر اسلام آباد اور راولپنڈی کی ناکہ بندی کرکے آج 20دن سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ تازہ فرین اطلاعات کے مطابق انکے خلاف اب آپریشن شروع ہوچکا ہے۔کل تک انتظامیہ کچھ نہیں کرسکی تھی۔سب کو خوف تھا کہ یہ سانحہ ماڈل ٹائون والا واقعہ دوبارہ رونما ہوجائے مگر ہٹ دھرمی کی انتہا دیکھئے پورا ملک اس دانستہ غلطی پر سراپا احتجاج کررہاہے مگر زاہد حامد کو ہٹانے کے بجائے یہی مشیر مشورہ دے رہے ہیںکہ میاں صاحب ڈٹے رہو! یہ مٹھی بھر افراد کے کہنے پر انہوں نے کسی کو نکالا تو کل کلاں پھردھرنے ہی کے ذریعے لوگ نکلواتے رہیں گے اور حکومت ان دھرنوں کی یرغمال بنی رہے گی ۔
میاں صاحب کی پوری کابینہ میں سب سے ٹھنڈے اور معاملے کی نزاکت کو سمجھنے والے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مشوروں کو پس پشت ڈال کر حکومت حزب اختلاف کو بھی ناراض کرچکی ہے جس کی وجہ مَیں اِن خوشامدی ٹولے کو ہی ٹھہراؤںگا جن کی وجہ سے آج حکومت میاں صاحب کے ہٹنے کے بعد بھی نہیں پنپ سکی بلکہ گھیرا اور تنگ ہوتا جارہا ہے۔ کسی وقت بھی سیاست کی بازی الٹنے میں ان مشیروں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی، لگتا ہے کہ شاید الیکشن کی ضرورت ہی نہیں پڑے، حالات بگڑنے میں ایک ہی غلطی کافی ہوتی ہے۔
اگر پرویز مشرف اپنے وزیراعظم شوکت عزیز کے کہنے پر چیف جسٹس پر ہاتھ نہ ڈالتے تو آج آرام سے حکومت کررہے ہوتے اسی طرح اگر میاں صاحب فوج سے پنگاہ نہ کرتے تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ اب سوچئے ہر طرف محاذ ہی محاذ ہونگے تو کون سکون سے حکومت کرسکے گا ؟بے چارے عوام تو خود بے خود ہوکر اپنے مسائل بھول بیٹھے ہیں اور ملک کو اس گردش میں دیکھ کر آسمان والے سے مدد مانگ رہے ہیں ۔آخر کب اس پاکستان میں سُکھ اور چین ملے گا ؟ہر طرف افراتفری مچی ہوئی ہے، رہزنوںسے پالا پڑا ہوا ہے اور مستقبل بھی تاریک ہوتا جارہاہے۔
70سال سے عوام خوشیوں کو ترس گئے ہیں۔ آج تک جمہوری حکومتوں نے اور نہ ہی فوجی حکومتو ں نے پاکستان کے غریب عوام کیلئے کچھ کیا جو صرف اور صرف اپنے اپنے اقتدار کو بچانے پا پھر کرپشن میں ہی لگے رہے اور قوم کو وعدوں پر ٹرخاتے رہے اور قوم ہر بار ان کے جھوٹے وعدوں پر اعتبار کرکے پھر ووٹ ان کی جھولیوں میں ڈال کر امیدیں لگائے بیٹھ جاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سارے سیاست دان کم و بیش اندر سے سب ایک ہیں ۔کاش قوم کو ایک رہبر مل جائے جو ان کے دُکھ درد کا ساتھی ہو اور ملک کے حالات ٹھیک ہوسکیں ۔