ضائع وقت میں سوچنے کے عادی
سعودی اخبار المدینہ میں منگل 28نومبر 2017ءکو شائع ہونے والا کالم قارئین کیلئے پیش کیا جارہا ہے۔
قدرتی آفات اور افکار!!
عبدالعزیز حسین الصویغ۔ المدینہ
ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ ضائع شدہ وقت میں سوچنے کے عادی بن چکے ہیں۔ یہ احساس مجھے اس وقت بڑی شدت سے ہوا جب میں نے قدرتی آفات سے نمٹنے والے عظیم الشان منصوبوں کے مناظر دیکھے۔ اس سلسلے میں جاپان کے ”فوروکاوا“ٹینک منصوبے نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ منصوبہ ”فوروکاوا “دریا سے آنے والے سیلاب کے خطرات سے بچاﺅ کیلئے جاپان میں زیر زمین قائم کیا گیا ہے۔ اس کی منظوری 2008ءمیں دی گئی تھی اور 2016ءمیں پوری طرح سے تیار ہوچکا ہے۔ ہمارا معاملہ عجیب ہے کہ ہم ضائع شدہ وقت میں سوچتے ہیں اور پھر ہمارے افکار ایسے منصوبے جنم دیتے ہیں جو مصائب سے نجات دلانے والے منصوبوں کے بجائے ہمیں قدرتی آفات کی گود میں لیجا کر ڈال دیتے ہیں۔ خطرات کے خاتمے کے بجائے ہمیں خطرا ت سے زیادہ قریب کردیتے ہیں۔ اربوں ریال خرچ کرکے منصوبے قائم کئے جاتے ہیں۔ مسائل سے دوچار ہونے والے لوگوں کے نقصانات اپنی جگہ پر جوں کے توں قائم رہتے ہیں۔
جدہ میں سیلاب کا المیہ نیا نہیں۔ یکے بعد دیگرے جدہ شہر سیلاب کے خطرات سے دوچار ہورہا ہے۔ اس سے ملک و قوم کا بھاری نقصان ہوا ہے اورہورہا ہے۔ جب بھی نیا سیلاب آتا ہے تو قدرتی آفات سے بچاﺅ کے ضامن منصوبے شروع کرنے کے وعدوں کا طوفان بھی کھڑا ہوجاتا ہے۔ جن منصوبوں کے نفاذ کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ حقیقت میں پورے نہیں ہوتے۔ اس وقت میرے سامنے یکم ربیع الثانی 1400ھ میں تحریر کردہ رفیق کار ثامر المیمان کے کالم کا تراشا ہے۔ 39برس قبل انہوں نے تحریر کیا تھا کہ ”جلد ہی جدہ شہر میں بارش کے پانی کی نکاسی کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوگا۔ شہر کے وسطی علاقے کی اہم سڑکیں اسکا حصہ ہونگی۔6ماہ تک اس منصوبے پر کام ہوگا۔ اس پر 600ملین ریال لاگت آئیگی“۔
المیمان نے جن منصوبوں کا تذکرہ کیا وہ اور اِن جیسے نہ جانے کتنے منصوبے منظور کئے گئے۔ بعض کاغذ پر نافذ کردیئے گئے ۔ دیگر پر کام ہوا اور نہ ہوگا۔ وعدوں کی برسات بارش اور سیلاب کی قدرتی آفات کی طرح کل بھی تھی ، آج بھی ہے اور نہ جانے کب تک رہیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭